The news is by your side.

نئی نسل افیون کےنشےمیں دھت کیوں رہنے لگی

ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع جنت نظیر ضلع چترال کے باسیوں میں جہاں غربت وافلاس کی شرح بہت زیادہ ہے ۔وہیں وادی میں جرائم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، لاقانونیت اور سب سے بڑھ کر منشیات کا بےتحاشہ استعمال عروج پر ہے۔چترال ٹاؤن سے پینتالیس کلومیٹر شمال مغرب میں واقع تحصیل لوٹکوہ کی وادی آرکاری اور چترال سے تین سو کلومیٹر شمال میں چودہ ہزار فٹ بلندی پر واقع بروغل میں افیون کے عادی افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔

بروغل کے متعلق مشہور ہے کہ سطح سمندر سے انتہائی بلندی پر واقع ہونے نیز طویل موسم سرما کی وجہ سے زندگی گزارنا دشوار ہوتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہاں کے باسی خود کو اس سردی سے محفوظ رکھنے کے لئے افیون استعمال کرتے ہیں ۔ اس مفروضے میں کتنی صداقت ہے‘ نہیں معلوم البتہ یہ بات اظہر من شمس ہے کہ بروغل کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہے ۔ افعانستان دنیا میں افیون یا پوست پیدا کرنے والے ممالک میں سرفہرت ہے‘ یہاں سے افیون دنیا کے مختلف حصوں میں سمگل ہوتی ہے ۔

دیکھا جائے توسرحدی بندشوں سے مبراء وادی بروغل افیون سمگل کرنے کے لئے سب سے آسان اور کم لاگت علاقہ ہے ۔ پرانے وقتوں میں بروغل اورواخان کے درمیان لوگوں کی آمدورفت معمول کی بات تھی۔ ممکن ہے افغانستان سے باآسانی دستیاب ہونے کی وجہ سے بروغل کے باسی بھی آہستہ آہستہ آفیون کے عادی ہوئے ہوجو نسل درنسل منتقل ہوتی آرہی ہے اور آج علاقے کے خواتین وحضرات کی بڑی تعداد اس لت میں بری طرح مبتلا ہیں۔

، اگرچہ آغاخان ہیلتھ سروس نے افیون کے عادی افراد کا علاج کرکے انہیں نارمل زندگی میں واپس لانے کی کوشش کی لیکن علاقے سے اس لعنت کا مکمل خاتمہ نہ ہوسکا۔ یوں بروغل کے باسیوں کی دولت وصحت افیون نوشی کی وجہ سے تباہ ہوتی جارہی ہے۔

دوسری وادی جہاں افیون کا استعمال تشویش ناک حد تک بہت زیادہ ہے‘ وہ چترال ٹاؤن سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع انتہائی پسماندگی کا شکار وادی آرکاری ہے۔بروغل کی طرح یہاں کے مکین بھی زمانہ قدیم سے آج تک افیون استعمال کررہے ہیں ۔آرکاری کی سرحدیں بھی افغانستان سے ملتی ہے ۔ خاص آرکاری گاؤں سے افغانستان کی سرحد محض تین گھنٹے کی پیدل مسافت پہ واقع ہے ۔ افغانستان سے پرانے زمانے میں مال مویشی آرکاری کے راستے چترال لائے جاتے تھے ۔ شاید افیون بروغل کی طرح آرکاری میں بھی افغانستان کے راستے داخل ہوا ہو۔

غربت وافلاس کا شکار آرکاری کے باسی آفیون کی لت میں مبتلا ہوکر پیسے کے ساتھ اپنی صحت بھی برباد کرنے میں مشغول ہیں ۔تشویش ناک امر یہ ہے کہ پرانی نسل کے مقابلے میں نئی نسل میں افیون کے استعمال کی شرح میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ استاد ذار محمد ایک سماجی کارکن ہیں انہوں نے بتایا کہ’آرکاری میں نئی نسل میں افیون کے عادی افراد کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ نوجوان نسل فیشن کے طورافیون استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے عادت بن جاتی ہے ۔ اس عمل سے نہ صرف نئی نسل ذہنی طورپر مفلوج ہورہی ہے بلکہ علاقے کی معیشت کے ساتھ معاشرت پر بھی اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں‘ ۔

انہوں نے حکومت وقت اور این جی اوز سے مطالبہ کیا کہ نئی نسل کو افیون کی لت سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ ایک اندازے کے مطابق آرکاری کے 14 گاؤں میں فی گاؤں پندرہ افراد افیون کے عادی ہیں۔ استاد ذار محمد کے مطابق ‘آرکاری میں آفیون کے عادی افراد کی کل تعداد پندرہ فی گاؤں ہے اس حساب سے وادی کے چودہ دیہات میں اوسطا ً210سے 250افراد آفیون استعمال کررہے ہیں ، جس میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے”۔

اگر ان دونوں وادیوں میں عروج کو پہنچے ہوئے افیون کے استعمال کو روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو آنے والے زمانے میں اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔افیون کے عادی افراد کے بچے اپاہچ پیدا ہوتے ہیں جبکہ اس کے استعمال سے عادی افراد کی صحت کے ساتھ معیشت و معاشرت بھی تباہ ہورہی ہیں جو کہ ان وادیوں میں محورقصاں غربت وافلاس کی شرح میں مزید اضافہ کا سبب بن رہی ہے ۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں