تحریک پاکستان کے بڑے رہنماوں میں سے ایک نام چوہدری رحمت علی کا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ تحریک پاکستان کا آغاز ہی اس دن ہوا تھا جس دن چوہدری رحمت علی نے لفظ پاکستان تخلیق کیا تھا تو غلط نہ ہوگا اور پھر’اب نہیں تو کبھی نہیں‘ کے عنوان سے ایک پمفلٹ چھاپ کر برصغیر کے اس خطہ میں ایک اسلامی مملکت کی تحریک کے آغاز کرنے میں اولاً کردار تھا ۔
یہ وہ وقت تھا جب بڑے بڑے مسلم رہنماوں نے بھی اسے نا ممکنات میں سے قرار دیا تھا۔لیکن چوہدری رحمت علی کے اس تخلیقی انقلاب نے آگے چل کر اس خطہ کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ آج ہم جس پاکستان میں رہ رہے ہیں جو آج ہماری پہچان ہے جس کے ساتھ ہمارا ہی نہیں بلکہ ہماری نسلوں کا مستقبل وابستہ ہے ۔
چوہدری رحمت علی ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں موہرہ میں ایک متوسط زمیندار حاجی شاہ گجر کے ہاں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اسلامیہ مدرسہ لاہور سے گریجویشن کرنے کیا اور ایچی سن کالج لاہورسے منسلک ہوگئے۔ بعدازاں پنجاب یونیورسٹی سے لا کی ڈگری لی ۱۹۳۰ میں وہ کیمبرج یونیورسٹی انگلیڈ چلے گئے جہان انہوں ۱۹۳۳ میں بی اے اور ۱۹۴۰ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
کیمبرج میں تعلیم کے دوران ہی ان کاذہن‘ ان کا فلسفہ اور فکر ہندوستان کے سیاسی حالات میں ایک علیحدہ اسلامی ریاست کی ضرورت کو پوری طرح محسوس کرچکا تھا ۔ وہ دوسرے مسلم رہنماوں کی طرح ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل محفوظ نہیں سمجھتے تھے۔ شاید ان کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ بھی خیال موجود ہو کہ ہندو سات سو سال کی غلامی کا بدلہ ایک آزاد متحدہ ہندوستان میں مسلمانان ہند سے لے گا ‘ وہ محمد بن قاسم‘ محمود غزنوی سے لے کراورنگ زیب عالمگیر تک کے دور تک کی کدروتیں چکا نے میں زرا بھی دیر نہیں کرے گا۔
دوسری جانب انہوں نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا کہ انگریز سے آزادی لینا نسبتاً ہندو سے آزادی لینے کے زیادہ آسان ہوگا ۔ یہ بھی حقیت تھی کہ انیسویں صدی میں دوسری جنگ عظیم کے بعد جمہوریت کا نظریہ پوری طرح زور پکڑ رہا تھا جس کا مطلب اکثریت کی حکومت اور ہندوستان میں ہندو اکثریت میں تھے ۔ اورہندہ رہنماؤں میں مذہبی تعصب کی بو بھی محسوس ہونا شروع ہوچکی تھی۔
لہذا انہوں نے اب نہیں تو کبھی نہیں ایک پمفلٹ لکھ کر اپنی نظریاتی سوچ کو تحریر کا روپ دیا اور بعد ازاں جب مسلم لیگی لیڈروں نے بھی ہندو قیادت کے ذہنوں میں چھپی مسلم دشمنی کو محسوس کیا تو انہوں نے چوہدری رحمت علی کے فلسفہ دو قومی نظریہ کو عملی طور پر اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کیسے ایک تخلیقی سوچ کو عملی جامعہ پہناتے ہوئے پاکستان ایک ملک کی صورت میں دنیا کے نقشہ پر ابھرا ۔
یہ وہ ملک ہے جس نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت روس کو شکست دی‘ ہندوستان جیسی بڑی اور مکار طاقت کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہا ، دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت کے طور پر سامنے آیا اور سب سے بڑھ کر برصغیر کے مسلمانوں کی پہچان بنا ، آج پوری دنیا میں جہاں بھی کوئی اس ملک کا باشندہ ہو‘ وہ پاکستانی کہلاتا ہے اور یہ ملک نام اور علاقہ ہمیشہ کیلئے قائم دائم ہو گیا ہےاور جو انشااللہ رہتی دنیا تک رہے گا۔
یہاں میں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ خواب اسی چیز کا دیکھا جاتا ہے جس کو کبھی جاگتے میں دیکھا گیا ہو یا محسوس کیا گیا ہو یاپھر جس سے اختلاف یا اتفاق کیا گیا۔ چوہرری رحمت علی نے کوئی خواب نہیں دیکھا تھا بلکہ ایک ایسا نظریہ پیش کیا تھا جو کہ قابل عمل تھا اور وقت نے اس کو ثابت بھی کیا۔ اس نظریے کو جب محمد علی جناح جیسے عظیم قانون دان کی زبان ملی اور آل انڈیا مسلم لیگ نے اس کو اپنا نصب العین بنایا تو یہ حقیقت کا روپ دھار گیا۔
چوہدری رحمت علی کا زیادہ تر وقت کیمبرج میں گزرا۔ پاکستان بننے کے بعد وہ ۱۹۴۸ میں پاکستان واپس آئے لیکن اس وقت کی مسلم لیگی قیادت کے ساتھ کچھ اختلافات کی وجہ سے واپس کیمبرج چلے گئے۔ ۳ فروری ۱۹۵۱ کوتحریک پاکستان کی اس عظیم شخصیت نے کیمبرج میں میں وفات پا ئی۔ جہاں پر انہیں کیمبرج سٹی کے قبرستان مین دفن کیا گیا ۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ ان کے جسدِ خاکی کو پاکستان لاکر پورے اعزاز کے ساتھ مینار پاکستان کے احاطہ میں دفن کیا جاتا۔ کئ سماجی سیاسی حلقوں کی جانب سے اس کا مطالبہ بھی وقتاًفوقتاً کیا جاتا رہا ہے لیکن ہماری بیوروکریسی اور حکومتیں ہمیشہ اس ضمن مین لیت و لعل کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں‘ جو کہ سمجھ سے باہر ہے ۔ زندہ اقوام تواپنے محسنوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہیں‘ ان کی یاد گاریں بنائی جاتی ہیں‘ ان کی باقیات کو قومی ورثہ قرار دے کر عجائب گھروں کی زینت بنایا جاتا ہے۔ لیکن ناجانے کیوں ہم ان کے جسد خاکی کے پاکستان آنے سے بھی گھبرا جاتے ہیں۔
البتہ ایک دفعہ مشرف دور میں چودھری پرویز الہی ‘ اس وقت کے چیف منسٹر پنجاب نے اس کی کوشش کی لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑ سکی۔ انہی دنوں میرے علم میں یہ بات بھی آئی کہ جب یہ ساری کارروائی ہورہی تھی تو ان کی قبر کو اوپر سے کھول لیا گیا تھا‘ ۔۔۔ وہاں کے قبرستان کی انتظامیہ نے وہاں گئے ہوئے ایک ممبر پنجاب اسمبلی کو بتایا کہ کچھ لوگوں نے آکر قبر کے اوپر والی پتھر کی سل کو بھی ہٹایا لیکن پھر وہیں چھوڑ کر پاکستانی حکام وہاں سے چلے گئے۔۔۔دروغ برگردنِ راوی۔
یہ ہمارے لیے انتہائی شرم کی بات ہے کہ ہم تاریخِ پاکستان میں چوہدری رحمت علی کو وہ مقام نہیں دے سکے جو کہ ان کا حق تھا۔ پاکستان کے انتہائی طاقت ور ڈکیٹیٹر سے لے کر جمہوریت کے دو تہائی مینڈیٹ والے اور چیمپئن آف جمہوریت کہلانے والے بھی ایک اتنا سا کام نہ کرسے کہ ان کے جسد خاکی کو وطن عزیز میں لا کر دفنا جا سکے۔
وہ کسی نسل پرست لیڈر کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی تو سن سکتے ہیں‘ پاکستان کی بقا کے ضامن کسی ادارے کو ملک کے سب سے بڑے ایوان میں کھڑے ہوکر رسوا کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ بھی کرسکتے ہیں‘ اربوں روپے کی کرپشن چھپانے کے لئے پوری قومی سلامتی کو داوُ پر لگا سکتے ہیں لیکن ایک محسن ِپاکستان کو دو گز زمین اس ملک میں نہیں دے سکتے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں