پچھلے چند برسوں سے دنیا کے دوسرے بڑے شہروں کی طرح ابوظہبی میں بھی ٹیسٹ آف ابوظہبی کے نام سے سالانہ فوڈ فیسٹیول برپا کیا جا رہا ہےاس بار یہ فیسٹیول نو سے گیارہ نومبر تک منعقد ہوا ۔پچھلے سالوں میں کئی بار ارادہ باندھا مگر کبھی وقت مل نہ سکا کبھی وقت کا پتا نہ چل سکا چناچہ ابھی تک ابوظہبی کے یہ مشہور زمانہ ذائقے ہم چکھ نہ سکے تھے۔اب چونکہ کچھ دفتری معاملات کی بنا پر کیپٹل کے ریسٹورنٹ اور ایونٹس کے کارڈز ہمارے ذاتی ای میل میں پہنچنے لگے تھے تو اس بار اس ایونٹ کا اعلان ہوتے ہی ہمارے ای میل میں ان کا تفصیلی بروشر موجود تھا۔چناچہ ہمیں معلومات کے لیے کسی رسالے کی ضرورت پڑی نہ کسی سے پوچھنا پڑا اور ہم نے وہیں بیٹھے بیٹھے باقی سارے کاموں کی طرح منٹوں میں انٹرنیٹ پر تین ماہ پہلے سے ہی ٹکٹ خرید کر محفوظ کر لیے۔تین ماہ پہلے لگنے والی ابتدائی پنچھیوں کی سیل میں تھوڑی سی بچت تھی۔اور قوانین کی رو سے ہمارے ساتھ ہمارے بچے فری تھے۔مگر سچ تو یہی ہے کہ ابوظہبی جیسے مہنگے شہر میں یہ ایک خاصا مہنگا فیسٹیول ہےجس کو انجوائے کرنا یعنی صحیح معانی میں کھانے،سنیکس اور بچوں کی انٹرٹینمنٹ پر درہم کا خرچہ سینکڑوں کی کہانی ہے۔
اس کا سستا طریقہ کوئی نہیں حتی کہ اگر آپ کچھ کھائے پیے اور بچوں کو جھولا جھلائے بغیر صرف ملاحظہ کرنے بھی آئیں تو بھی دو لوگوں کے لیے یہ تین سو سے کم کا نہیں چناچہ بالکل صحیح وجوہات کی بنا پر ہم ضرب لگا کر خرچ کرنے والے ایشین اس فیسٹیول میں نمک برابر سے بھی کم تھے۔لوگوں کی اکثریت عرب ،امریکی اور آسٹریلوی سمیت ہر رنگ اور انداز کے گوروں پر مشتمل تھی جن کے لیے حقیقتاً یہ درہم ہاتھ کے میل کے سوا کچھ نہیں۔ ہم نے اپنی پرتجسس طبیعت اور زیادہ سے زیادہ دیکھ اور جان لینے کی خواہش میں میاں صاحب کو شیشے میں اتار کر اس بار یہ عظیم معرکہ سر کر لیا۔
فوڈ فیسٹیول میں شرکت کے لیے تین مختلف پیکجز مہیا تھے جن میں وی آئی پی،پرئیمیر لاونج اور جنرل ایڈمیشن شامل تھے۔ان مختلف کیٹیگریز میں مختلف طرح کی سہولیات شامل تھیں جن میں جنرل ایڈمیشن میں محض گھومنا پھرنا،پرئیمیر لاونج میں علیحدہ سیٹنگ ارینجمنٹ اور کھانے اور مشروبات کے تین ٹوکن جبکہ وی آئی پی کے ساتھ علیحدہ نشست برخاست،علیحدہ لاؤنج،ویٹر سروس،کھانے کے اور ماؤونوش کے پانچ واؤچرز کے ساتھ گولڈن سرکل میں انٹری بھی شامل تھے۔پہلے دن کا شو زیادہ مہنگا اور اہم اس لیے بھی تھا کہ اس میں مشہور انگلش کلاسک گلوکار ٹونی ہیڈلی کا میوزک کنسرٹ تھا۔
چناچہ اس لالچ کا بری طرح شکار ہوتے ہوے ہم نے نو تاریخ کے ٹکٹس خرید رکھے تھے کہ ٹونی ہیڈلے کو سامنے ذندہ جاوید کھڑے ٹرو true اور تھرو دی بارکیڈ سننے کے ہم بھی شدید شوقین تھے۔
عین وقت پر فرائض ہمسایہ گیری کچھ تاخیر کا باعث بنی چناچہ ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی وی آئی پی ہب میں ساری کرسیاں اور سٹول گلاس ٹکراتے گوروں اور گوریوں سے بھر چکے تھے اور اب صورتحال یہ تھی کہ ہم چاروں سوائے لاونج کے اور کسی جگہ اکٹھے نہ بیٹھ سکتے تھے۔اگرچہ شروع میں خاصا مشکل لگا کہ اتنا اوپن ایریا نہ تھا مگر آرام دہ صوفے لگے تھے اور بچوں کے بیٹھنے اور لیٹنے کے لیے بہترین تھا۔
ہمارے بچے سکول سے تھکے ہارے آئے تو ہم انہیں سیدھے فیسٹول کے لیے لے آئے تھے سو ان کو آرام سے یہاں بٹھا کر ہم نے اگلے ایک گھنٹے کے لیے ان کے ہاتھ میں ٹیبلٹس دیں اور خود کیمرہ اٹھائے باہر نکل آئے ۔بیٹھنے کے انتظام سے فراغت پاتے ہی پہلی حاجت ڈنر کی تھی کہ وہی پرانا مسئلہ بچے میاں سب صبح کے گئے شام کو لوٹے تو سب خالی پیٹ فوڈ فیسٹیول پہنچے چناچہ اب اس وقت ہمیں کوئی پرواہ نہ تھی کہ کون سے ٹینٹ میں آملیٹ بنانے کا مقابلہ چل رہا ہے جو ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم سے اچھا کوئی نہیں بنا سکتا،کہاں سنجیو کپور مسکرا مسکرا کر لائیو ڈیمو دے رہا ہے یاساؤتھ افریقہ کی مشہور شیف جینی مورس یا رضا محمود اپنے اپنے گر لوگوں تک منتقل کر رہے ہیں ۔
فوڈ فیسٹول میں ہر سیلبرٹی شیف اور ایکٹیوٹی سے بے پرواہ ہمیں فکر تھی تو یہ کہ فٹا فٹ واؤچرز پر کھانا حاصل کر لیں کسی بھی سٹال سے کسی بھی انداز کا ۔پہلی مشکل فریش جوسز ،سمودی یا ملک شیک ڈھونڈے کی تھی جو ہمارے واؤچرز پر موجود نہ تھی ۔ہم اپنے واؤچرز پر وہ ڈرنک مفت لے سکتے تھے جو ہم لاحول ولاقوۃ پیتے نہیں یا پھر لے دے کر کوک اور سپرائٹ،چناچہ مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق ہم نے کوک اور سپرائٹ پر گزارا کر لیا۔کھانے کی باری پر ہمارے پاس چار لوگوں کے لیے چھ کھانے کے واؤچرز موجود تھے مگر جب ایک خوشبودار مشہور ریسٹورنٹ سے دو واؤچرز کیش کروانے پر مزیدار مگر صرف ایک چانپ،اور چھ چمچ مشروم کھچڑی کے ملے تو ہمارے اوسان ہی خطا ہو گیے۔کہاں ہماری سارے دن کی دیسی بھوک اور کہاں یہ زیرے کے برابر کھانا۔
اگر جو ہم نے کچھ ہوشمندی سے بچوں کو اور میاں کے ساتھ خود بھی کچھ کھا کھلا کر نکلے ہوتے تو اس صورتحال کا مزا لیتے کہ بحرحال اس سے زیادہ سے زیادہ کھانے چکھ لینے کا بہترین موقع تھا۔مگر اس وقت سوال ذائقے چکھنے سے کہیں زیادہ پیٹ کی آگ بجھانے کا تھااور ہم وہ قوم جو شادی پر جانے کے لیے صبح سے کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔اب چار پانچ واؤچرز استعمال کرتے ہی ہاتھ ہمارے کھڑے ہو گیے اور ہم نے میاں کو سمجھا دیا کہ اب کچھ کھانا ہے تو بٹوا نکالنا ہے ورنہ ٹکٹ کے ساتھ ملنے والے کھانے سے تو بچوں کا پیٹ بھی نہ بھر سکے تھے۔ اتنے عظیم الشان فوڈ فیسٹیول میں جہاں ابوظہبی کے بڑے بڑے ہوٹلز کے سٹالز خوشبو بکھیر رہے تھے کوکنگ کمپیٹیشن ،سیلیبرٹی شیف،اور لائیو وی جے دھڑا دھڑ مشہور و معروف گانے گا رہے تھے اب تلاش تھی کسی بڑے برگر یا پیزا کی جس سے دل اور پیٹ خوب اچھی طرح شانت ہو سکیں۔
ایک سٹریٹ فوڈ کے سٹال پر بازو کے قد کے برگر دیکھے تو فورا ایک گوری سے بڑھ کر پوچھا کہ جی یہ جو آپکے ہاتھ میں لمبے والا برگر ہے یہ کونسی قطار اور کونسے سٹال سے ملے گا۔اور معلومات ملتے ہی اس لمبی لاین میں لگ گئے۔اسی لائن میں کھڑے مڑ مڑ کر ہم نے ’واکا واکا‘ سنا۔کوئی دس پندرہ منٹ کے انتظار کے بعد ان مزیدار اور شاندار برگروں کی زیارت نصیب ہوئی جن کو پہلے پیار سے گھور کر نظروں کی پیاس بجھائی اور پھر ان سے نپٹ کر پیٹ کی دوزخ کو رام کیا اور ہونے والے خرچہ میں مزید اضافہ کیا۔
رات کا کھانا مکمل ہوا تو سنجیو کپور اور جینی مورس کی یاد آئی جن کے قریب ہو ہو کر ہم نے سیلفیاں لینی تھی مگر اس وقت تک وہ اپناٹھیلا بڑھا چکے تھے اور ہم فوڈ فیسٹیول میں صحیح معنوں میں فوڈ کے پیچھے خاصے خوار ہو چکے تھے۔اب ٹونی ہارڈلے کے لائیو کنسرٹ کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ ہم نے بچوں کی ٹیبلٹس واپس لیں اور انہیں گولڈن سرکل کے آخر میں لگی کرسیوں پر بٹھا دیا اور خود گولڈن سرکل کے تھرکنے کے شوقین ہجوم میں گھس گیے۔آس پاس کے سب گورے گوریان کچھ سُر اور لے میں تھے جبکہ ہمارے میاں صاحب پیچھے کرسی پر بیٹھ کر غزل کی طرح تحمل سے سننے کے خواہشمند تھے۔
تھرکنے کی عمر اور خواہش تو ہماری بھی نہ تھی مگر محض اس لیے کہ ہم تھرک نہیں سکتے ہم ٹونی ہیڈلے کی اس جھلک سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے جوکبھی کبھار کے نیلے چاند کی طرح میسر ہونے والی تھی۔اس لیے اس کی پہلی جھلک دکھائی دیتے ہی ہم نے میاں کی تابعداری کسی اچھے وقت کے لیے چھوڑی اور ان سے کھسک کر اگلی لائن میں جا پہنچے ۔اس کے بعد شروع ہوا فوڈ فیسٹیول کا سب سے خوبصورت مرحلہ جب خوبصورت رومانی دھنوں اور میوزک پر ٹونی ہیڈلے نے گانا شروع کیا تو یقینا سارا کرؤ اڈ سر دھننے اور جھومنے میں حق بجانب تھا۔ٹرو،گولڈ،تھرو دی بارکیڈ سمیت ایک کے بعد ایک دھن جب اس نے چھیڑی تو عمر رفتہ بھی خوب یاد آئی ۔
سارا ماحول سُر میں تھا۔ٹونی ہیڈلے کو دیکھ کر ہمیں سمجھ آئی کہ گورے اتنی آسانی سے دنیا پر حکومت کیسے کر لیتے ہیں۔حسن تو شاید پیدا ہی حکمرانی کے لیے ہوا ہے محنت تو صرف بدصورتی کا نصیب ہے۔گوری صورتوں کے ساتھ مہنگے نفیس پہناوے پہن کر ثقیل لہجے میں بولے جانے والی کثیر انگلش تو ہمارے جیسے تیسری دنیا کے کئی طرح کے کامپلیکس کے شکار لوگوں کو اک نگاہ سے ہی گھائل کر دینے کی طاقت رکھتی ہے۔پھر کیا گلہ ان حکمرانوں اور نوابوں سے جو گوروں کے سامنے بیٹھتے ہیں تو ٹانگیں جوڑ کر سر جھکا لیتے ہیں۔حسن، وجاہت ،امارت اور انداز کے سامنے کھڑے ہونے کے لیے شیر کا سینہ اور چیتے کا جگر چاہیے۔ ہر کسی کے بس کی بات کہاں۔
دو گھنٹے کے کنسرٹ نے ،گلاس بجاتے دھیرےدھیرےجھومتے گورے کراؤڈ نے سر اور لے ملا کر اس محفل موسیقی کو عروج سے اختتام تک پہنچایا۔ساڑھے گیارہ بجے کنسرٹ اور فیسٹول اپنے اختتام پر پہنچا ۔اس فیسٹیول کی ہر ایکٹیویٹی کو ہم دیکھ نہ سکے تھے، ہر سٹال تک پہنچ نہ سکے تھے اور ہمارے بچے بھی کڈز ایریا سے پرے پرے ہی رہے تھے اس کے باوجود بحرحال یہ ایک بہت نظم وضبط اور انتظام کے ساتھ ترتیب دیا گیا ایک خوبصورت فیسٹول تھا۔پہلی بار آنے کی وجہ سے بہت سی باتیں پہلی بار جانیں مگر اگلی بار اہل خانہ کو ضرور گھر سے کچھ کھلا پلا کر لائیں گے اور ذرا ڈھنگ سے وقت پر آئیں گے تاکہ سب سکون سے دیکھ سکیں۔چونکہ فیسٹول مہنگا ضرور تھا مگر اگر آپ کے پاس اپنے لیے کچھ پیسے ہیں تو یہ ایک بھرپور تفریح بھی ہے جس کا حق ہر محنت کرنے والے کو ہے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں
صوفیہ کاشف ابو ظہبی میں مقیم ہیں اور مختلف اخبار ات اور بلاگنگ ویب سائٹس کے لیے لکھتی ہیں‘ اس کے علاوہ عکاسی کا شغف رکھتی ہیں