The news is by your side.

سانحہ اے پی ایس: پانچ سوال جن کے جواب ضروری ہیں

سولہ دسمبر ۲۰۱۴ کا دن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا جس دن ٹی ٹی پی کے چھ مسلح دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک سکول کے احاطہ میں داخل ہوکر ایک سو اڑتالیس افراد کو شہید کردیا جن میں ایک سو بتیس طلبہ تھے جن کی عمریں سولہ سال سے کم تھیں۔ یہ پاکستان کا وہ مستقبل تھے جنہوں نے آگے جاکر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اس ملک اور معاشرہ کی تعمیر ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا تھا ۔یہ ایک نسل تھی۔جس نے آگے چل کر اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی تھی۔ یہ اُن والدین کا بھی مسقبل تھا جنہوں نے انہیں پیدا کیا پڑھایا لکھایا تاکہ وہ کل ان کا سہارا بن سکیں۔ ان والدین عزیز رشتہ دوروں کا غم نہ ختم ہونے والا ہے۔

چند لاکھ روپے دینے سے سیمنار، مضامین اور تقریبات منعقد کرنے سے ان کے دکھوں کا مداوا نہیں کیا جاسکتا ہے یہ ایک اتنا بڑا نقصان اور المیہ تھا کہ جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہےاور اس کا محض ایک ہی مداوا ہے کہ آئندہ کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام کی جائے۔یہ واقعہ اپنے پیچھے بیش شمار سوالات چھوڑ گیا جن کے جواب اب بھی پاکستان عوام ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں‘ میں بھی چند ایسے ہی سوال اربابِ اختیار سے کررہاہوں ۔

اول: پاکستان کے کچھ حلقوں کی جانب سے اس واقعہ کی ان پر زور الفاط میں مذمت نہیں کی گئی جسی طرح کی جانی چاہیے تھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ وہ کیا تقاضے اور مصلحتیں تھیں جن کی بنا پر ان کی زبان اس طرح نہیں چیخی اور نہ آنکھوں سے اس طرح پانی بہا جیسا کہ ایک سچے پاکستانی کا بہنا چاہیے تھا ۔ مجھے یاد ہے ایک انڈین سکول کے طالب علموں کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں اس دشمن ملک کے بچوں نے بھی چند منٹوں کے لئے ہی سہی آنکھ تو نم کی پھر یہ کیسے سخت دل پاکستانی تھے کہ دو لفظ ہمدردی کے نہ بول سکے ؟۔

دوئم:اُن دنوں میں پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک ایسا پروپیگنڈا گروپ بھی سامنے آیا جس نے ان شہدا کی یاد میں موم بتی جلانے کو ہی تنقید کا نشانہ بنا ڈالا کہ یہ جائز نہیں ہے تو بھائی آپ کے نزدیک جو جائز ہے اس طریقہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرلو۔ ہم نے تو آج تک یہی دیکھا ہے کہ بزرگوں، اولیا اکرام اور صوفیااکرام کے مزاروں پے بھی چراغ جلائے جاتے ہیں اگر بتیاں جلائیں جاتیں ہیں تو پھر اگر کوئی ان بے گناہ آدم زادوں کی یاد میں موم بتیاں جلا بھی لی جائیں تو کوئی قیامت نہیں آگئی تھی قیامت تو ان ماں باپ پے آئی جن کے معصوم بچے شہید کردئے گے۔ آپ گھر بیٹھے فتویٰ دینے والوں کا تو کچھ نہیں گیا ۔

سوئم: قومیں ہمشہ اپنے وطن پر قربان ہونے والوں کی یادگارہیں بناتی ہیں ان کے ناموں سے شہروں شاہراہوں اور تعلیمی ادروں کے منسوب کئے جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس قومی سانحہ پر ہر ایک شہید کے نام پر ہر شہر میں ایک ایک یادگار تعمیر کی جاتی خاص طور پر تعلیمی اداروں میں تاکہ آنے والی نسلیں ان کی قربانی کو یاد رکھتی ۔ نیز اس واقعہ کے ذمہ دران کو بھی ان کا علم رہتا اور یہ آنے والی نسلیں وہ غلطیاں نہ دہراتی جو کہ ۸۰ کی دہائی میں پاکستانی قوم سے ہوئی ۔ان کو یہ سبق ملتا کہ کسی کو پناہ دیتے ہوئے یہ سوچ لینا کہ کہیں وہ تمہیں ہی نہ گھر سے نہ نکال دے یا تمھارا ہی چمن نہ لوٹ لے ۔لیکن ہم دن رات اورنج ٹرین میٹرو بس پر کھربو ںروپےخرچ کررہے ہیں تاکہ اپنی تختیاں لگا سکے لیکن چند لاکھ لگا کے ان شہدا کی یادگار تعمیر نہیں کرسکتے ، ان کے نام پر کوئی شاہراہ عمارت تعلیمی ادارے کا نام نہیں رکھ سکتے۔ جو کہ اس ملک کے حکمرانوں کی غلط پالسیوں کی نظر ہو گئے۔

چہارم: جامشورہ میں قائم ہونے والے ایک گرلز کیڈٹ کالج کا بھی ذکر ہوجائے ۔ قوم کے پیسے سے بننے والے اس کالج کا نام آصف زرداری کی بیٹی بختاور کے نام پر بختاور گرلز کیڈٹ کالج رکھا گیا ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر اس کالج کا نام اے پی ایس سکول کی شہید پرنسپل طاھره قاضی کے نام پر رکھا جاتا ۔وہ طاہرہ قاضی جس نے اپنی جان بچانے کی خاطر اپنے شاگردوں کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور دہشت گردوں کو للکارا کہ جو کہنا مجھ سے کہو ۔انہوں نے نہ صرف طاہره قاضی کو گولی مار کر شہید کردیا بلکہ اس کے شاگردوں کے سامنے اس شہید جسم کو آگ بھی لگادی تھی ۔

پنجم : ۱۸ اکتوبر ۲۰۱۷ کو اے پی ایس حملہ کا ماسٹر مائنڈ عمر خراسانی افغانستان میں ایک ڈرون حملہ میں مارا گیا ۔ پاکستان میڈیا نے اسے بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا لیکن اس پر وہ ردعمل دیکھنے میں نظر نہیں آیا جیسا ردعمل اوسامہ بن لادن کے مرنے پر امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک میں نظر آیا اوسامہ بن لادن نے تو امریکہ کے صرف دو ہزار شہری ہی مارے تھے لیکن پاکستان کے ایک لاکھ شہری اور فوجی جوان ان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے ۔لیکن ہماری اعلیٰ سیاسی قیادت سے لے کر عام شہری تک جس بے حسی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا وہ حیران کن ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک حشر اٹھا دیتے ملک میں جشن منایا جاتا ‘ لیکن مجال کیا کہ کہیں سے کوئی آواز آئی ہو۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عمر خراسانی ایک امریکی حملہ میں مارا گیا ۔ لیکن کیا وہ ہمارا دشمن نہیں تھا کیا اُس نے ہماری ماوُں کی گودیں نہیں اجاڑیں پھر وہ امریکی حملہ سے مارا جاتا یا افغانی حملہ سے مرا ہوتا ہے تو ہمارا مجرم تھا۔

اس واقعہ پر سوالات تو کئی اٹھتے ہیں لیکن جب ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہو تو گلستان تو قبرستان بن ہی جاتا ہے حقیقت یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں نے نہ صرف اے پی ایس کے شہدا کے لہو سے انصاف نہیں کیا بلکہ پاکستان میں دہشت گردی کے نتیجہ میں شہید ہونے والے ایک لاکھ افراد کو بھی ہم بھولتے جارہے ہیں۔ کسی نے صحیح کہا کہ پاکستان کے حکمرانوں سے لے کر عوام تک ایک خوبی عام ہے کہ وہ ہر بات کو بہت جلد بھول جاتے ہیں ۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں