The news is by your side.

افغانستان کی دلدل میں پھنسا ہوا بے چارہ امریکہ

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنی قربانیاں دی ہیں دنیا بھر میں شاید ہی کسی اور ملک نے دی ہوں یہ ہماری افواج اور قوم کی بے دریغ قربانیوں کا ہی ثمر ہے کہ امریکہ میں پھرکوئی اور نائن الیون رونما نہیں ہوا۔اس لئے بجائے ہماری قربانیوں اور خدمات کے معترف ہونے کے ہمیں آئے روز دھمکیاں دی جاتی ہیں جو کہ ہماری خود مختاری اور قومی حمیت کے سراسر توہین کے مترادف ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جس جواں مردی اور تندہی سے پاکستانی افواج نے مقابلہ کیا اس کی نظیر دنیا کی عسکری تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ پاکستان کی مسلسل کامیابیوں کے برعکس اگر افغانستان میں امریکی افواج کی کارکردگی اور حالت زار کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ کہنا ہرگزغلط نہیں ہو گا کہ امریکی افواج نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ کیونکہ گزشتہ سولہ برسوں سے ان کی افغانستان میں موجودگی کے باوجود اس کے ستر فیصد سے زائد علاقے پر آج بھی طالبان کا قبضہ ہے جو کہ امر یکہ کو آئینہ دکھانے کے لئے کافی ہے۔

علاوہ ازیں دور حاضر کے حربی تقاضوں کے مطابق جدید اسلحے سے لیس امریکہ جیسی تجربہ کار فوج کا افغانستان میں یہ حال ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ کیونکہ ان کے مد مقابل افغان انتہائی سخت جان تصور کیے جاتے ہیں کیونکہ وہ سخت سردی میں بنا کوٹ اور جرابوں کے بھی، صرف ایک کپ قہوے پر دو روز تک جنگ لڑ سکتے ہیں۔ اور افغانستان ٹھہرا ‘سلطنتوں کا قبرستان’ جو بھی وہاں گیا مرے بغیر نہیں نکلا۔ اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر افغانستان میں امریکہ کیوں آیا ؟۔

دراصل امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کے ضمن میں کی جانے والی اپنی پارٹنر شپ پر ضرورت سے زائد پُراعتماد تھا، جو اس نے ٹی ٹی پی ، بی ایل اے اورکئی دیگر تنظیموں کی مدد سے پاکستان میں پراکسی وار کو سپانسر کرنے کی شکل میں کر رکھی تھی۔ اور در پردہ اس کا ہدف پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں تک پہنچنا تھا جو کہ اب اسے ہرگز ممکن نظر نہیں آرہا کیونکہ پاکستان نے ہر محاذ پر ان کے پیادوں کو شکست دے دی ہے ۔ اور جس کی وجہ سے امریکہ کو( سولہ برسوں کی) اپنی تمام تر تگ و دو ضائع ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ سونے پر سہاگہ افغانستان کی اس سولہ سال کی طویل ترین جنگ نے امریکی اکانومی کا بھی بُھرکس نکال دیا ہے اور اس کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آیا۔ ایسے میں امریکہ کا تلملانا تو بنتا ہے۔ اور یہی وہ بنیادی عوامل ہیں جن کی وجہ سے آئے روز امریکی عہدہ دران پاکستان پر ‘ڈومور’ کے مطالبے کے ذریعے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

مزید یہ کہ امریکہ کی ہر ممکن خواہش اور کوششوں کے باوجود افغان طالبان پاکستان کے مخالف نہیں ہوئے اور نہ ہی ہمیں ان سے کوئی بھی مسئلہ ہے۔ کیونکہ وہ جو بھی کر رہے ہیں وہ افغانستان میں کر رہے ہیں۔ اور ہمارا افغانستان کے اندرونی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ہاں ہمیں ٹی ٹی پی سے مسئلہ ضرور تھا اور ہے جنہوں نے ہمارے ملک کے اندد خون کی ہولی کھیلی۔ اسی لیے پاکستانی فوج نے اس کے سپلنٹر سیلز اور سیڈز کو چن چن کر ملک بھر سے صاف کیا۔

آج ہم سے کہا جا رہا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف کچھ نہیں کیا۔ بھئی ہم نے بہت کچھ کیا ہے۔ جس کی زندہ مثال یہ ہے کہ ہم نے اپنے ستر ہزار سویلین شہری اور دس ہزار سے زائد فوجی افسران اور جوانوں کی قیمتی جانیں گنوا کر امریکہ کی بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کی سر زمین پر رچائی گئی پراکسی وار کی بساط کوالٹ دیا ہے‘ تب جا کر کہیں ہمیں آج یہ امن نصیب ہواہے۔ مگر اب اگر امریکہ افغانستان جیسی دلدل سے راہِ فرار اختیار کرنے کے لئے پاکستان سے کندھا مانگ رہا ہے تو وہ ہرگز اسے نہیں ملے گا۔ اور نہ ہی کبھی بھی پاکستان افغانستان میں کسی بھی قسم کی معاونت کے لیےاپنی فوج بھیجے گا۔ وہ امریکہ کا دردِ سر ہے وہ خود ہی اس سے نمٹے۔ اور اب ہمیں افغان جنگ میں کھینچنے کے لئے ہی افغانستان سے ہم پر آئے روز حملے کروائے جاتے ہیں، حتٰی کہ ہمارے معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ یہ ساری چالاکیاں اور شاطرانہ چالیں پاکستانی افواج اور ایجنسیاں بھی بخوبی سمجھتی ہیں۔ اس لیے امریکہ اور بھارت کو چاہیے کہ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں پر اپنا قیمتی وقت برباد نہ کریں۔

بہر حال، کیا یہ کافی نہیں کہ امریکی سپلائی لائن سولہ برسوں سے بحفاظت پاکستان سے افغانستان بنا کسی ٹیکس کی ادائیگی کے جاری ہے؟ اس کے لئے شاید امریکہ اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ پاکستان کا شکریہ ادا کرنا بھول جاتے ہیں۔ خیر اگر ہمیں یوں ہی باتیں سنائی جاتی رہیں تو پاکستان کو بھی اس سپلائی لائن کو بند کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کا پورے حق حاصل ہے۔ اس صورت میں امریکہ کو سنٹرل ایشیاء کے راستے پر انحصار کرنا پڑے گا جو کہ طالبان کے نشانے پر ہے۔

اس سارے منظرنامے میں سب سے خوش آئند بات یہ ہے پاکستان کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ اور پاکستان اپنے تمام کارڈز بالکل صحیح کھیل رہا ہے نیزاب ہماری قربانیاں دینے کا موسم جا چکا ہے۔ اب وقت آگیا ہے ان قربانیوں کا ثمر پانے کا۔ قوی امید ہے کہ یہ ثمرات ہمیں اسی سال 2018ء میں ہی ملنے شروع ہو جائیں گے انشاء اللہ۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں