The news is by your side.

ننھی زینب ‘ معاشرہ کہاں ناکام رہا

ننھی زینب کے ساتھ ہونے والا ظلم ہمارے ملک میں جیسے کوئی نئی بات نہیں رہی۔ہر کچھ عرصے بعد اس طرح کے واقعات نمودار ہوتے رہتے ہیں ۔اور
جب اس قدر انسانیت سوزی ایک معمول کی واردات بنتی چلے جاے،اور جب قانون حفاظت اور انصاف کے تقاضے پورے نہ کر سکے، انسان جرم اور جرم کی سختی کو بھلاتا چلا جاے تو ہر فرد پر ہر سطح پر ان کے خلاف مزاحمت کرنا اور اس سے بچنے کے عمل میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا واجب ہو جاتا ہے۔

حکومت اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے معاشرے،میڈیا اور افراد کا کردار بھی بہت بنیادی ہے خصوصاً ایسی صورتحال میں جب ریاست تحفظ فراہم کرنے اور عدل کے ادارے عدل مہیا کرنے میں ناکام ہونے لگیں۔اپنے اور اپنے سب عزیر بچوں کی حفاظت کے لیے کچھ اقدامات آج سے ہی شروع کریں۔

ان اقدامات میں کچھ فوری اقدامات بہت ضروری ہیں۔


1.سب سے پہلے اس طرح کے واقعات کی سی سی ٹی فوٹیج کو میڈیا پر نشر نہ کرنے کی پاپندی ہونی چاہیے۔اپنی چینل کی ریٹنگ بڑھاتے اور اپنی چابکدستی کا مظاہرہ کرتے آپ کو یہ انسانیت ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ والدین اور قریبی عزیزوں پر اس فوٹیج کو دیکھ کر کیا گزرتی ہو گی۔کونسے والدین اپنے جگر گوشوں کو درندوں کے شکنجے میں جاتے دیکھ کر اپنے ہوش و ہواس قائم رکھ سکتے ہیں۔اگر محض چینل کی ریٹنگ میں اضافے کے لیے ان فوٹیجز کو جائز مان لیا جاے تو پھر ملک میں جنگل کا قانون ہی اصل قانون ہو گا جس میں ہر طاقتور اپنی طاقت اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا رہے گا۔چاہے وہ کوئی کرپٹ سیاستدان ہو ،کوی میڈیا چینل یا کوئی ہوسناک وحشی درندہ۔اس کے ساتھ میڈیا کو ایسے پروگرام تیار کرنے اور نشر کرنے کی ضرورت ہے جو عام عوام اور کم پڑھے لکھے طبقے کو بچوں کی حفاظت کے لیے بنیادی معلومات ذہن نشین کرواتا رہے۔اسی طرح کے پروگرام بچوں کے لیے بھی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

2.ماں باب اپنے کمسن بچوں کو گلی میں بھیجنے اور باہر کھیلنے سے محفوظ کریں۔ جب گلیوں میں بھیڑیے پھرنے لگیں اور ریاست کا قانون تحفظ دینے میں ناکام ہو جاے تو ننھی معصوم جانوں کی حفاظت والدین کی ذمہ داری ہے۔ہو سکتا ہے گھر میں جگہ کم ہو یا آپ کچھ دیر کے لیے شور سے نجات چاہتے ہوں مگر یہ ذرا سی غفلت آپ کی عمر بھر کا روگ نہ بن جاے اس لیے اپنی ذمہ داری کو سر سے مت ہٹایے بلکہ اس کو اٹھانا سیکھیے۔

3.خدارا اپنے بچوں کو جسم کےپوشید ہ اعضاء ،گڈ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ کیجیے۔انہیں بتائیں ،سمجھائیں اور یاد دہانی کرواتے رہیں کہ جسم کی کس جگہ پر کسی غیر مرد عورت یا بڑے بچو ں کا ہاتھ لگنا سخت منع ہے۔کیسے رویے ان کو برداشت نہیں کرنے اور کسی بھی غیر متوقع صورتحال میں کس طرح ردعمل کا مظاہرہ کرنا ہے۔اور اگر ایسا سمجھاتے آپکو شرم آتی ہے تو انہیں کہانیوں کی، فکشن کی زبان میں بتائیں !جس طرح آسانی سے سمجھا سکیں یہ کام آج سے ہی شروع کیجیے۔انہیں سمجھایے کہ کس رشتہ دار کی گود میں بیٹھنا ہے اور کسے دور سے سلام کرنا ہے۔یوٹیوب پر بچوں کے لیے بنائی گئی ہزارہا ویڈیوز پڑی ہیں ،ان کو تلاش کیجیے اور بچوں کے کارٹونز کے ساتھ ان کو وہ بھی بلاناغہ دکھائیں۔تاکہ مناسب طریقے سے سمجھ سکیں۔آپ کے بچے آپ کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری سے غفلت آپ کی غفلت ہے۔

4۔خدارا گلی کے ہر لڑکے،ہر صفائی کرنے والے ،کوڑا اٹھانے والے ،سبزی دینے والے کو،ہر مرد ہر عورت کو، بھائی ،چاچا ،انکل آنٹی اور خالہ کہلوانا بند کر دیجیے۔ماسوائے سگے رشتوں کے کسی بھی فرد کو کسی رشتے سے بلوانا بند کر دییں۔چھوٹے بچے اپنے اور پرائے کا فرق نہیں سمجھ پاتے اور چاچا کہلائے جانے والے کو عزیز سمجھ بیٹھتے ہیں اور ایسے ہی منہ بولے رشتوں کے ہاتھوں اکثر نقصان اٹھاتے ہیں۔۔اس لیے برائےمہربانی رشتوں کے نام صرف رشتہ داروں کے لیے رہنے دیں تاکہ بچہ اپنے اور پرائے میں فرق کر سکے۔

5.قریبی رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات بھی ایک حد کے اندر رکھیے ۔لوگوں پر اندھا اعتماد کرنا بند کریں۔ اور اپنے بچوں کے کھیلنے کی جگہ ہمیشہ اپنی نظر کے سامنے رکھیے۔ورنہ انہیں آؤٹ ڈور کی بجاے ان ڈور گیمز کی طرف راغب کریں۔

6.اگر تبلیغ کے لیے،پنچاییت کے لیے ،بچت کمیٹیوں کے لیے اور ہر طرح کے اجتماعی مفادات کی خاطر کمیٹیاں بنائی جا سکتی ہیں تو محلے کے اندر ایسے لوگوں کی کمیٹیاں بھی بنائی جا سکتی ہیں جو محلے میں آنے جانے والوں اور باہر کھیلنے والے بچوں پر نظر رکھنے کی ذمہ داری اٹھائیں۔گلی محلے میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں اور اپنے بچوں کے ساتھ اپنے ہمسایہ گھر کے بچوں کو بھی دھیان میں رکھیں۔دوسروں کی فکر کرنے سے خود آپ کے اپنے بھی محفوظ رہیں گے۔جتنے زیادہ لوگ اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوتے رہیں گے آپ کے بچے اتنے ہی محفوظ ہوتے رہیں گے۔مگر اس میں بھی اچھے اور برے کی تمیز لازم ہے کہیں بے دھیانی میں بھیڑیوں کو ہی رکھوالی پر مت لگا دیجیے گا۔

7.ہمارے عام گھروں میں مائیں دروازے کے پیچھے چھپ جاتی ہیں اور چھوٹے بچوں کو دروازے یا دکان پر سودا لینے بھیج دیتی ہیں۔اپنی ماؤں اور بیویوں کو مضبوط کریں اور ان کاموں کے لیے چھوٹے بچے بچیوں کی بجاے مائیں خود ہمت کریں۔آپ کے کمسن بچے آپ سے کئی گنا زیادہ کمزور اور ناسمجھ ہیں ‘ کسی کی بھی میٹھی زبان کا بدترین شکار ہو سکتے ہیں۔اس لیے ان کی اوٹ میں چھپنے کی بجاے آپ خودان کے آگے چلنا اور ان کو محفوظ رکھنا سیکھیے ۔

8.سکولوں میں ابتدائی جماعتوں سے اسمبلیوں میں ،فنکشنز میں اور ایونٹس کے ذریعے چھوٹے بچوں کی کونسلنگ کی جائے ۔ہر سکول کو اپنے بچوں کے کورس میں اس مقصد کے لیے ایک لازمی ہفتہ وار یا ماہانہ وار کچھ کلاسز رکھنی چاہیے جس میں چھوٹے بچے بچیوں کو گڈ ٹچ بیڈ ٹچ سمیت سیلف ڈیفنس کے بارے میں ان کی عمر اور ضرورت کے مطابق رہنمائی کی جائے ۔

.9.این جی اوز کو اور بہت سے کاموں کے ساتھ اس آگاہی مہم کے لیے بھی آگے آنا چاہیے۔گھر گھر جائیں یا اجلاس منعقد کیجیے۔ جو لوگ بے خبر ہیں انہیں بتائیں ،جو بے شعور ہیں انہیں شعور دیجیے،جن کو حفاظتی تدابیر نہیں معلوم ان کو تربیت دیں ۔اس معاشرے کو ابھی بہت شعور کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لیے ہر صاحب شعور کو جس حد تک آگے آنا پڑے اسے آنا چاہیے۔

10۔اگر حکومت اور انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتی تو برائے مہربانی شرمندہ ہو کر اپنے آفس میں بیٹھے رہیے۔ بعد میں دورے کرکے اپنا وقت ضائع اور والدین کا دکھ ہرا نہ کریں۔اگر کچھ کرنا ہی چاہتے ہیں تو وعدہ لے کر نہیں مجرم لے کر ان کے گھر آئیں۔

11.جہاں ہزار طرح کی قانون سازی ہوتی ہے وہاں ان مجرموں کے لیے بھی الگ قانون اور عدالت بنائی جائے اور ایسے انسانیت سے گرے ہوئے درندوں کے لیے سزا کا عمل تیز ترین اور مکمل کیا جاے اور ایسے مجرموں کو کھلے عام عبرت ناک سزا دی جاے۔ورنہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔عدل کا نظام عدل دینے میں ناکام ہو جاے تو عوام کب تک اپنے پیاروں اور جگر گوشوں کو کوڑے کے ڈھیر سے اٹھاتے رہیں گے۔کبھی نہ کبھی سب کو کھڑا ہونا پڑے گا اور اس ظلم کے رستے کی دیوار بننا پڑے گا۔اگر جائز طریقے سے نہیں تو نا جائز طریقے سے،اگر انصاف کے اداروں کے ہاتھوں نہیں تو عوام کے ہاتھوں۔ تو عدل کے نظام کو تھوڑا تیل ڈالیے تاکہ انصاف کی فراہمی میں کچھ تیزی آئے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں