وادی سوات کی تاریخی حیثیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جسے برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوئم نے (1960ء میں) اپنے سوات کے دورے کے دوران ‘ مشرق کے سوئٹزرلینڈ’ کے خطاب سے نوازا تھا۔ وادی سوات سرسبز وشاداب میدانوں، خوبصورت مرغزاروں اور شفاف پانی کے چشموں سے مالا مال ہے۔ دنیا کے حسین ترین خطوں میں شمار کیا جانے والا یہ علاقہ‘ پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد سے شمال مشرق کی جانب 254 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جب کہ صوبائی دارلحکومت پشاور سے اس کا فاصلہ 170 کلو میٹرہے۔
جہاں قدرتی حسن اس وادی کی وجۂ شہرت ہے وہیں دہشت گردی سے متاثرہ ہونے کی وجہ سے بھی اس کا دنیا بھر میں شہرہ رہا۔ کیونکہ 2007ء سے 2009ء کے درمیان دہشت گرد تنظیم ٹی این ایس ایم (تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی) کے بانی صوفی محمد اور اس کے داماد ملا فضل اللہ کے زیر قیادت دہشت گردوں نے سوات میں نظام عدل اور نفاذ شریعت کی آڑ میں ایسا گھناؤنا کھیل رچا کہ یہ حسین ترین وادی کسی میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگی۔ علاوہ ازیں! وادی سوات سے نکلنے والے قیمتی پتھر زمرد/ایمرلڈ جو اپنے شفاف گہرے سبز رنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں غیر معمولی طور پر شہرت کا حامل ہے، کو بھی نہ بخشا گیا۔ اور شرپسند اس کی کانوں (مینگورہ، شموزئی اور گوجر گڑھی/ شانگلہ) پر بھی قابض ہو گئے جہاں سے پاکستان ہرماہ سات ہزار قیراط زمرد نکال کر قیمتی زرمبادلہ کماتا تھا۔
اور یوں جولائی سنہ 2007ء میں جنوبی ایشیاء کی یہ خوبصورت ترین وادی موت اور تباہی کی وادی میں تبدیل ہو گئی۔ جہاں سیاحوں کی بجائے خوف کے سائے منڈلانے لگے۔ اور بچیوں نے اسکول جانا چھوڑ دیا۔ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جانا بند کر دیئے گئے۔ اور ٹی وی سیٹس، سی ڈیز اور کمپیوٹرز کو حرام قرار دے کر نذرِآتش کرنا شروع کر دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بچیوں کے اسکولوں اور سی ڈیز کی دکانوں میں دھماکے ہونے لگے اور پولیس اور سیکورٹی فورسز پر خود کش حملے روزانہ کا معمول بن گیا۔ ملا فضل اللہ کی کھڑی کردہ دہشت گرد ’شاہین فورس‘ نے دہشت گرد کمانڈر سراج الدین کی زیر قیادت بالائی سوات کے اسکولوں، ہسپتالوں اور گورنمنٹ دفاتر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ جہاں پاکستان کے قومی سبز ہلالی پرچم کو ٹی این ایس ایم کے سیاہ اور سفید پرچم سے تبدیل کر دیا گیا۔
اس گھمبیر صورتحال سے نمٹنے کے لئے اس وقت کی نگران حکومت نے تقریباً25000 کے قریب سپاہیوں پر مشتمل پاک فوج کے دستے وادی سوات روانہ کئے۔ جن کی کارروائی کے بعد ملا فضل اللہ کے بہت سے ساتھی مارے گئے اور وہ خود فرار ہو گیا۔ اس کارروائی کے دوران تقریباً 13 پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کو چارباغ اورمٹہ کے علاقوں میں بے دردی سے جانوروں کی طرح ذبح کیا گیا۔ اور یہیں سے ہی پاکستان میں دہشت اور بربریت کے ایک ایسے باب کا آغاز ہواجس میں پاکستان کے متعدد سول اور عسکری اداروں سے وابستہ اہلکاروں نے جانیں نچھاور کر کے بہادری اور دلیری کی وہ داستانیں رقم کیں جن کی مثال دنیا کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ اوراس لیے ہم سے ڈومور کا مطالبہ کرنے والوں پر یہ لازم ہے کہ پاکستان کے ان شہریوں،فوجی افسران اور جوانوں کی لہو سے لکھی گئی منفرد داستانوں کو پڑھیں اور اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر خود سے سوال کریں کہ کیوں ان کی ڈیڑھ لاکھ کے قریبفوج، بے تحاشہ وسائل اور وسیع بجٹ کے باوجود افغانستان میں نہ تو امن قائم کر پائی اور نہ طالبان کے زیر تسلط علاقوں کا کنٹرول حاصل کر سکی؟۔
بہرحال، جب سوات میں ملا فضل اللہ دوبارہ سرگرم ہوا تو اس نے پاکستانی ریاست اور اس کے نظام کے خلاف کھلم کھلا جنگ کا اعلان کر دیا جو اس کے شر انگیز نقطہ نظر میں غیر اسلامی اور غیر شرعی تھا۔ حالات مزید بگڑتے گئے مگر اسی دوران حکومت اور دہشت گرد تنظیم ٹی این ایس ایم کے بانی صوفی محمد کے مابین’امن معائدہ‘ طے پاگیا۔ اسی اثناء میں طالبان کی جانب سے ایس ایس جی (اسپیشل سروسز گروپ) کے 4 اہلکار بھی قید کرلیے گئے جب وہ خوازہ خیلہ بازار میں معمول کے مطابق خریداری کرنے میں مشغول تھے۔ اگرچہ ان اہلکاروں کے پاس اسلحہ موجود تھا مگر پھر بھی انہوں نے امن معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے ہر گز کوئی جوابی کارروائی نہیں کی۔ اور خود کو چپ چاپ طالبان کے حوالے کر دیا۔ تقریباً 22 روز تک یہ فوجی اہلکار ان شر پسندوں کے قبضے میں رہے‘ بعد ازاں ان کے گلے کاٹ کر ان کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ یہی واقعہ نہ صرف سوات میں ’آپریشن راہ راست’ کے آغاز کی بنیاد بنا بلکہ اس نے دہشت گردی کے خلاف ہمارے قومی بیانیے کو بھی واضح کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق اس ‘شہری جنگ’ میں 5000طالبان کو شکست دینے کے لئےپاک فوج کے تقریباً1500 اہلکار وادی سوات میں موجود تھے۔ اور طالبان کو گھنے جنگلات اور پہاڑی علاقوں سے سوات کے جنوب کی جانب دھکیلنا ان کی بنیادی حکمت عملی میں شامل تھا تاکہ وہاں اِن کے گرد گھیرا تنگ کیا جا سکے۔ اور یوں آپریشن راہِ راست کےتقریباً ایک ماہ (5 مئی سے 15 جون) کے دوران ہی پاک فوج نےایک ہزار چالیس شر پسندوں کوجہنم واصل کیا جبکہ اس کے ایک سوچھ سپاہیوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔
جب سی ون تھرٹی طیارے کے ذریعے پاک فوج کے تربیت یافتہ چھاتہ بردار سپاہیوں کو طالبان کے زیرِ تسلط علاقوں میں اتارا گیا تو وادی سوات میں موجود زمرد/ایمرلڈ کی تمام کانوں کو پاک فوج کے چھاتہ بردار دستوں نے ترجیحی بنیادوں پر کلیئر کروایا۔ مگر تب بھی طالبان مینگورہ شہر اور اس سے متصل تزویراتی اہمیت کے حامل پہاڑوں پر قابض تھے جہاں سے وہ پورے مینگورہ شہر پر نظر رکھ سکتے تھے۔ پاکستان نیوی کے سیلز نے بھی اس جنگ میں پاک فوج کی معاونت کی غرض سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور انہوں نے ضلع شانگلہ کے’بنائی بابا‘ کے مخفی تربیتی کیمپ( جوضلع سوات کے مشرق کی جانب واقع تھا) پر بھر پور حملہ کیا جس میں تقریباً ایک سو پچاس طالبان کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
اسی دوران ملٹری نے طالبان کے مرکزی بیس کیمپ پیو چاروادی کو بھی گھیرے میں لے لیا۔ اور اسپیشل سروس گروپ( ایس ایس جی) کے چھاتہ بردار کمانڈوز کو بذریعہ ہیلی کاپٹر پیوچار وادی میں اتارا گیا تاکہ وہ ’سرچ اور ڈسٹرائے آپریشن‘ سر انجام دےسکیں۔ 17 مئی 2009کو پاک فوج نے مینگورہ کی جانب طالبان کے تعاقب میں پیش قدمی شروع کرنے کا ارادہ کیا۔
جیسے ہی پاک فوج نے مینگورہ کا رُخ کیا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ طالبان پاک فوج کے چھاتہ بردار دستوں کے ساتھ ایک ’خونریز شہری جنگ‘ کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ غرض یہ کہ طالبان پاک فوج کے ان اہلکاروں کو مینگورہ میں سخت مزاحمت دینے کے لئے اپنا ہر حربہ بروئے کار لائے، خندقیں کھودیں، بارودی سرنگیں بچھائیں، حتیٰ کہ روف ٹاپس(اونچی عمارتوں کی چھتوں) پر مورچہ بند ہو گئے۔ اور یوں لڑائی کانجو، کبل اور مٹہ کی گلیوں، گھروں، بازاروں، چوکوں اور چوراہوں تک پہنچ گئی جو کہ عسکری اصطلاح میں شہری جنگ کہلاتی ہے۔ ضلع سوات کی تحصیل کبل جو کہ سوات سے سولہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اورا س سے متصل کانجو کا علاقہ خطرناک پہاڑوں اور ڈھلوانوں سے بھرپور دشوار گزار علاقہ ہے۔ جس کو دہشت گردوں کے شر سے پاک کرنے کے لئے پاک فوج کے ایک درجن سے زائد افسران نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔
اور اگلے کچھ ہی روز میں یہ لڑائی تختہ بند پل تک پھیل گئی جو اس علاقے( کانجو اور کبل) میں داخلے کا مرکزی راستہ ہے۔ اسی دوران بونیر کے اہم ترین قصبے کو بھی پاک فوج نے طالبان کے تسلط سے چھڑوا لیا جہاں طالبان نسبتاً زیادہ تعداد میں نفوز پزیر تھے۔ 28 مئی2009ء تک کانجو، کبل مکمل طور پر اور تختہ بند پل جزوی طور پر طالبان کے قبضے سے خالی کرا لئے گئے تھے اور اسی دوران پاک فوج کے 6 افسران اس مشن کی تکمیل میں اپنی جانیں دفاعِ وطن کے عظیم مقصد کی راہ میں قربان کر گئے۔
سوات آپریشن کے دوران ایک امریکی تھنک ٹینک ‘سٹریٹفار’ (جیو پولیٹکل اور غیر سرکاری انٹیلجنس ادارہ) نے پاک فوج کی ‘شہری جنگ’ لڑنے کی استعدادِ کار اور تربیت سازی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا، کہ دور جدید کے تمام حربی تقاضوں سے لیس امریکی فوج بھی اس قسم کی نازک جنگ(شہری جنگ) میں گھسنے سے پہلے دو بار سوچتی ہے۔ آج دنیا شاہد ہے کہ پاک فوج نے ایک ایسی جنگ (شہری جنگ) میں بھی گراں قدد کامیابی حاصل کی جس کا اسے پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا اور جس کے نام سے بھی امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کی افواج گھبراتی ہیں۔ مگر پاک فوج نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور عمدہ منصوبہ سازی کا بروقت مظاہرہ کرتے ہوئے سوات کی حسین وادی کو دہشت گردی کی آگ سے نکال لیا۔ لہٰذا امریکی تھنک ٹینک ‘سٹریٹفار’ کو چاہئے کے وہ اپنی ریاست کے جرنیلوں اور افواج کو بتائے کہ وہ پاکستان سے سیکھیں کہ جنگیں کیسے لڑی جاتیں ہیں؟ جنگیں اپنی ناکامیوں کا بوجھ دوسروں کے کندھوں پر ڈالنے سے نہیں بلکہ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور قربانیاں دینے سے جیتی جاتیں ہیں۔ اگر تب پاکستان کی عسکری قیادت بھی اس جنگ میں ہونے والے جانی نقصان سے گھبراجاتی تو آج پاکستان کی صورتحال بھی افغانستان سے ہرگز مختلف نہیں ہوتی۔
لہٰذا آج ہم سب کو بھی چاہیے کہ اس امن کی قیمت چکانے والے اپنے شہید سپاہیوں اور افسران کو بھی یاد رکھیں جنہوں نے دہشت گردوں کو سوات میں ہی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے پورے ملک میں اس فتنے کو پھیلنے سے روک لیا۔ اور بلاشبہ آپریشن راہ راست کو بر وقت پلان کرنے اور پایہ تکمیل تک پہنچانے والی ہماری عسکری قیادت بھی خراج تحسین کی مستحق ہے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں