The news is by your side.

پردیس میں رہنے والے کیاخواب دیکھتے ہیں؟

ہم جو سمندر پار رہنے والے کچھ خاص اور کچھ نواب لگنے والے عجیب سے پردیسی لوگ ہوتے ہیں ہمارے خواب بھی بہت عجیب ہوتے ہیں۔ہمارے خوابوں میں نہ عالیشان بنگلے ہوتے ہیں نہ دولت کے انبار۔مستقبل کا منظرنامہ جب بھی آنکھوں میں اتارتے ہیں تو اس میں ایک ہی منزل بڑی واضح اور بلند دکھائی دیتی ہے اور وہ منزل کیا ہوتی ہے؟‘ وہ ہے پاکستان ۔ وطنِ عزیزمیں رہنے والے شاید اگلے دس پندرہ بیس سالوں میں خود کو دبئی ،یورپ امریکہ یا انگلینڈ دیکھنے کے خواہش مند ہوں مگر آپ ان سے خصوصا عرب میں رہنے والوں سے پوچھیں وہ دس سال بعد کہاں ہوں گے۔ تو ان کا جواب ہوگا پاکستان۔

پاکستان ہمارا وہ بچھڑاہوا محبوب یا محبوبہ ہوتی ہے جس کے خطو ط ہم جیبوں میں ڈالے پھرتے ہیں،جس کی یاد ہماری پلکوں میں ہر وقت پروئی رہتی ہے،جس کے لمس کی نرمی ہماری ہتھیلیوں سے اتارے نہیں اترتی۔ چناچہ جب ہمارا دل سہانے سپنے دیکھنے کو چاہے تو ہم خوابوں میں اپنے اس گھر کی بنیاد کھڑی کرتے ہیں جو پاکستان کی زمین پر ہماری راہ تکتا ہے۔وہ شیشے کی دیواروں سے بھرا،ٹائلوں سے سجا،ہرے بھرے درختوں سے لدے ہرے بھرے لان میں رنگ برنگے پھولوں سے سجا گھر جس کے پارٹیکو میں تین چار گاڑیاں کھڑی ہوں گی۔ ایک بڑا سوئمنگ پول،ایک بڑی کتابوں سے بھری لائبریری،ایک مشینوں سے بھرا جم۔۔۔۔وہ گھر جسے بنانے سے پہلے کئی بار خیالوں میں سنوارا اور خوابوں میں سجایا جاتا ہے۔جس کے لیے مہنگے ہوم سٹورز پر پھرتے کئی بار ٹکٹکی باندھ کر اشیاء خرید لینے کے عزم کی اسٹیپمس لگائیں جاتی ہیں۔جس کا ہر ماہ بوری بھر کر دیے جانے والا کرایہ واجب نہ ہوگا۔جو اپنوں کے قریب اور ان کی مجالس و محبت سے بھرپور ہو گا!۔جس کے دروازے سے سے ہر عزیز اور محبوب ہستی کا فاصلہ صرف چند کلومیٹر کا ہو گا‘ ہوائی سفر کا نہیں۔

مگر یہ خواب محض یہیں ختم نہیں ہوتے‘ اس کے ساتھ کچھ اور بھی بنیادی ضرورتیں ہیں جن کا حساب لازم ہے۔مثلا اس حسین گھر کے بڑے سے گیٹ کے قریب لگا جنریٹر تاکہ لوڈ شیڈنگ کی پریشانی نہ ہو۔اب بجلی کی فراوانی کی اس قدر عادت ہو چکی ہے کہ بجلی کی غیر موجودگی سہی نہ جاے گی۔سو اس میں خودمختار ہونا بہت ضروری ہے۔

گیٹ کے ساتھ بڑا سا خوبصورت جھولوں سے بھرا لان جس کے ایک طرف سائیکل کا ٹریک ہو،بیچ میں بچوں کے جھولے ہوں ،ایک سائیڈ پر آؤٹ ڈور فرنیچر لگا ہو جس پر ہم شام کی چاے پیتے بچوں کو کھیلتے ہوے دیکھ کر مسکرا سکیں۔عدم تحفظ اور امن وامان کی خرابی کے باعث پاکستان میں بچوں کو کھیلنے کے لیے پبلک پارکس یا گلیوں میں بھیجنے کا رسک نہیں لے سکتے اس لیے ان کی حفاظت کے لیے ہر سہولت گھر کے اندر ہی مہیا کرنی پڑے گی۔

بڑے لان کے ساتھ ایک بڑا کچن گارڈن جس میں ہر موسم کا پھل اور سبزی وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہو۔اپنی زرخیز زمین پر رہ کر اگر تازہ اورقدرتی کھاد سے اگے پھل اور سبزی نہ ملیں تو وطن کی میٹھی ہواؤں کا کیا فائدہ۔بازار سے لی فارمی دوائیوں کے چھڑکاؤ سے بھری اور فیکٹریوں کے بچے کیمیائی مادے میں اگی،آرسینک اور کیمیکلز سے لدی ،سبزی کھانے کی سوچ ہی بہت مشکل اور کٹھن ہے تو اس کو کھا لینے کا عمل کیسا ہولناک ہو گا۔سو پاکستان آنے سے پہلے یہ کچن گارڈن بہت ضروری ہے۔

کچن گارڈن سے پیچھے ایک مویشی فارم جس میں ایک یا دو صحت مند بھینس ہر وقت کے خالص اور تاذہ دودھ کے لیے مہیا ہوں(دو ہوں تو قریبی عزیزوں کو بھی خالص دودھ مہیا ہو سکے)۔ٹیکے لگی گائیوں کے دودھ یا سفیدی ملے دودھ کے ڈبوں کا سوچ کر ہی پیٹ خراب ہو جاتا ہے تو پیا کیسے جائے گا۔سوخالص دودھ کا ا نتظام بہت ضروری ہے۔

حلال صحت مند گوشت کی خاطر کچھ بکریوں اور بھیڑوں کے خاندان تاکہ حلال سمجھ کر محض حلال ہی کھایا جائے ۔باہر سے لیے گوشت کی جب کسی قسم کی سرکاری ضمانت نہیں تو اس کو کھا لینے کا رسک لے لینا مشکل ہے۔ساتھ کچھ مرغیوں کے جوڑے جو اصلی دیسی انڈے دیں اور بہ وقت ضرورت ہمیں مری ہوی یا بیمار مرغیوں کا گوشت کھانے سے بھی بچائیں۔

گھر کے نیچے کا خالص میٹھا پانی۔پاکستان کے ہر گھر ہر گلی میں گندے پانی کے چرچے سن کر اور پلاسٹک بوتلوں میں بھی دونمبر گھٹیا پانی دیکھ کر اس کے لیے کسی پر اعتبار کرنے کو جی نہیں چاہتا ۔سو اس کے لیے بھی اپنا ایک خالص ذاتی میٹھے پانی کا کنواں بہت ضروری ہے۔

اور اب موجودہ حالات کے باعث گھر میں خانساماں،چوکیدار،ملازم یا نینی رکھنے کا خیال بھی خاصا سوہان روح ہے۔اگر جو کوئی خدانخواستہ ذہنی مریض یا بدکردار نکل آیا تو۔۔۔سو اس پورے ریاست نما گھر کے سارے کام بھی پردیسی ذندگی کی طرح اپنے ہاتھوں سے خود سر انجام دینا پڑہیں گے۔

اب اس قدر گھمبیر لائف سٹائل کے لیے ہمیں بھی کم سے کم کوئی راے ونڈ کی ریاست،کوئی بلاول ہاؤس یا بنی گالہ جتنے رقبے کی اراضی چاہیے چاہیے اور اس کی ضروریات کے لیے اسی طرح کی کمائیاں بھی درکار ہیں‘ جو بدقسمتی سے اکثریت کے پاس نہیں۔سو اپنے محبوب دیس میں اس قدر حفاظت اور سکون کی زندگی صرف حکمرانوں کا ہی مقدر ہے‘ ہم غریبوں کے دن رات کی حلال کمائی اس ریاست نما گھر کو چلانے کے لیے ناکافی رہتی ہے۔

ان سب چیزوں کے اخراجات کا تخمینہ لگایا جاتا ہے تو ترسے ہوے ارمانوں کو قرار آ جاتا ہے۔چونکہ اس کے بعد امارات کی مہنگا ئی اپنی ہیبت کھو بیٹھتی ہے۔اور ہمیں سکون کی میٹھی میٹھی سانسیں اس خیال سے آنے لگتی ہیں کہ درہم کے ڈھیر کے عوض کم سے کم ہمیں بھینسیں نہیں پالنی پڑتیں‘ نہ کنویں کھودنے پڑتے ہیں‘ نہ باغ اگانے پڑتے ہیں۔یہاں کی حکومت کم سے کم یہ ذمہ داری ضرور لے لیتی ہے۔اور اس حساب کتاب کے بعد ہمیں پردیس میں سکون ملنے لگتا ہے۔ محبوب وطن کی یاد بھی کچھ عرصے کےلیے بہل جاتی ہے ‘ اپنے وطن میں اپنے گھر کی آس سو جاتی ہے اور ہم دوبارہ کچھ دنوں کے لیے پردیس کے اس سکون میں گم ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ پھر کچھ دنوں میں محبوب کی یاد اور دیس کے نام کے میٹھے میٹھے خواب یاد آنے لگیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں