The news is by your side.

تحریک آزادی کشمیر ۔ بھارتی سالمیت کے لیے اک خطرہ

مسئلہ کشمیر کی ہیت بدل چکی ہے اب یہ محض سیاسی، سرحدی یا دفاعی مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایک ایسے ستر سال پرانے تنازعے کی شکل اختیار کر چکا ہے جس سے پورے جنوبی ایشیاء کے خطے اور کئی بڑے ممالک کے اقتصادی مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ اور ان ستر سالوں میں دنیا کی ترجیحات بھی تیزی سے بدلی ہیں کیونکہ اب بیشتر ممالک اپنے دفاع سے کہیں زیادہ اقتصادی فوائد کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

اس روش کو بین الاقوامی تعلقات میں’’باہمی اقتصادی انحصار‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے جو ممالک کے مابین اقتصادی تعلقات کو استوار کر کے ان کے مابین جنگوں کے امکانات کو معدوم کرتا ہے۔ اس کی مثال چین اور امریکہ سے بہتر کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ دونوں ممالک کے مابین جاری سرد جنگ اور چپقلش سے تو ہر کوئی واقف ہی ہے مگر اس کے باوجود ( بی بی سی اردو کے مطابق) 2016ء کے دوران 578 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ اور امریکی حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اس تجارت سے 10 لاکھ کے قریب امریکی شہریوں کا روزگار وابستہ ہے۔ دونوں ممالک کے مابین یہ اقتصادی روابط ہی دونوں ممالک کو براہ راست جنگ سے روکے ہوئے ہیں۔

 

باہمی اقتصادی انحصار ہی وہ تھیوری ہے جس سے ممالک کے مابین براہ راست اور روایتی جنگوں کا بظاہر خاتمہ ہوا ہے اور اس کی جگہ دہشت گردی اور پراکسی جنگوں نے لے لی ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی ایک عنصر ایسا ہے جو جنگوں کو روکنے کا باعث سمجھا جاتا ہے اور وہ ممالک کے مابین ‘طاقت کا توازن’ ہے۔ اس کی مثال پاکستان اور بھارت ہیں جو دونوں جوہری ریاستیں ہیں ‘ یہی وہ امر ہے جو دونوں ممالک کو گزشتہ دو دہائیوں سے جنگ میں جانے سے روکے ہوئے ہے۔

اس لئے پاکستان کے یہ جوہری اثاثے ہی پاکستان کا اصل دفاع ہیں جو بھارتی جارحانہ اور تکبرانہ رویے کے سامنے ڈھال بنے ہوئے ہیں اور اسے پاکستان پر حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مگر اس کا غصہ بھارت مظلوم اور بے کس کشمیری عوام کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھ کر اتار رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو شہید، معذور اور ہزاروں بچوں اور نوجوانوں کا بیمانہ قتل کیا گیا ہے۔ لاتعداد کشمیری خواتین کی عصمت دری کی گئی مگر پھر آفرین ہے نہتے کشمیریوں پر جن کے اندر آزادی کی طلب تلف نہیں ہوئی بلکہ اور ولولے اور عزم کے ساتھ گزشتہ چند سالوں میں ہمارے سامنے آئی۔ اس میں کلیدی کردار سوشل میڈیا کے ذریعے کشمیری نوجوانوں نے ادا کیا ہے اور لمحہ بہ لمحہ کشمیر کی صورتحال سے اقوام عالم کو باخبر رکھا ہے۔ ورنہ پہلے تو بھارتی میڈیا اپنی حکومت کی پالیسی کے زیر سایہ رہ کر کشمیر سے خبریں نشر کرتا تھا۔

 

تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے مظلوم کشمیریوں کے خلاف بربریت کے ہر ہتھکنڈے کو بروئے کار لانے کے باوجود بھارتی سرکار یہ سمجھنے سے قاصر معلوم ہوتی ہے کہ کشمیر بھارت کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ اور اس وقت بھارت کی سالمیت کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ اس کا برملا اظہار الجزیرہ انگلش نیوز چینل پر مشہور بھارتی مصنفہ اروندھتی رائے نے کچھ ان الفاظ میں کیا۔ ‘ کشمیر کو بھارت سے زیادہ، بھارت کو کشمیر سے آزادی حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ مستقبل قریب میں بھارت کے ٹکڑے ہو جائیں گے’۔ بھارتی مصنفہ کے خدشے کو یقینی طور پر اس امر سے تقویت ملتی ہے کہ اس وقت بھارت میں مذہبی، نسلی اور نظریاتی بنیادوں پر 67 سے زیادہ علحیدگی کی فعال تحریکیں چل رہی ہیں جن میں بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک اور شمال مشرقی ہندوستان میں میزورام، ناگا لینڈ، مانیپور، تریپورا، آسام اور ناگالینڈ کی تحریکیں قابل ذکر ہیں۔

برطانیہ میں حالیہ فری کشمیر اور فری خالصتان ریلیوں نے عالمی میڈیا کی خاطر خواہ توجہ حاصل کی جس کی توقع بھی برطانیہ میں موجود بھارتی ہائی کمیشن کوپہلے بالکل نہیں تھی۔ اس لیے تو انہوں نے ہنگامی بنیادوں پر ایک کاؤنٹر ریلی منعقد کرا کے سکھوں اور کشمیریوں کی ریلیوں کے ساتھ بظاہر ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کی، مگر درپردہ اس کا مقصد عالمی میڈیا کی توجہ اس احتجاج سے منسلک اصل حقائق سے ہٹانا تھا۔ مگر اپنی تمام تر کوشیشوں کے باوجود برطانیہ میں بھارتی ہائی کمیشن کو منہ کی کھانا پڑی جس پر بھارت سیخ پا ہے۔

بھارتی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس تحریک آزادی کو دہشت گردی کے زمرے میں لا کر عالمی سطح پر بدنام کر سکے۔اسی وجہ سے وہ اسے سرحد پار دہشت گردی کا نام بھی دیتا ہے۔ حالانکہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں کیونکہ بھارت اپنی پوری حکومتی مشینری( بشمول 7 لاکھ فوج) کے ساتھ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے۔ اس کا موازنہ اگر افغانستان کی صورتحال سے کیا جائے تو کشمیر کی صورتحال نہایت تشویش طلب معلوم ہوتی ہے کیونکہ امریکہ نے وہاں مکمل جنگ لڑنے کے لیے بھی شروع میں صرف ایک لاکھ نیٹو فورسز بروئے کار لائیں جن کی تعداد اب کم ہو کر بیس پچیس ہزار ہو چکی ہے۔

 

ہم بحیثیت پاکستانی ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر تو مناتے ہیں مگر تاحال ہماری طرف سے اس مسئلے کے حل کے لئے کوئی عملی اقدامات کرنا تو دور کی بات ہے، ہم اپنے اندرونی سیاسی بحرانوں سے ہی باہر نہیں نکلتے۔ سونے پر سہاگہ ہم نے کشمیر کمیٹی کا سربراہ بھی مولانا فضل الرحمن کو بنا رکھا ہے جنہوں نے تادم تحریر اس تحریک آزادی کشمیر کے حق میں کوئی بیان نہیں دیا۔ جو کہ معصوم کشمریوں کے بے گناہ لہو کے ساتھ غداری کے مترادف ہے جو دفن بھی پاکستانی پرچم میں ہونا پسند کرتے ہیں۔

آج کشمیر میں کوئی گھر ایسا نہیں جہاں سے جنازے نہ اٹھے ہوں، کوئی قبرستان ایسا نہیں جہاں اس تحریک آزادی کے شہداء کے مزارات موجود نہ ہوں۔ برہاں وانی کی شہادت کے بعد اس تحریک میں ایک نئی لہر نمودار ہوئی ہے جس سے قوی امید ظاہر کی جاری ہے کہ کشمیریوں کی منزل اب بہت قریب ہے۔ لہٰذا انہیں ان کی منزل تک پہنچانے کے لئے پاکستان کو بھی اپنا مثبت کردار ضرور ادا کرنا چاہیئے۔ اس ضمن میں پاکستان کو چاہیئے کہ وہ اپنے ملک میں موجود تمام ممالک کے سفراء کو کشمیر میں بھارتی مظالم اور تیزی سے رواج پکڑتی تحریک آزادی پر گاہے بگاہے خصوصی بریفنگ دے تاکہ وہ اپنے اپنے ممالک کو کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کر سکیں۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حق میں رائے عامہ ہموار ہونے میں خاصی مدد ملے گی۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں