The news is by your side.

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو

عصر حاضر میں بھی جب دنیا کتابوں سے دور اور ٹیکنالوجی کے زیر اثر زندگی گزار رہی ہے اور یہ سب ضرورت بھی بن چکا ہے ،میں پڑھنا اور لکھنا واقعی زندہ دل ہونے کا عکاس ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اب معاشی مسائل میں صرف گلیمر کی دنیا لکھی اور پڑھی جاتی ہے جبکہ سماجیت میں پیار محبت جیسے فرسودہ خیالات کو لفظوں کی شکل میں بیچا جا رہا ہے ۔ ایسا بہت کم اور بعض بعض ہی ملتا ہے کہ آج کوئی شخص نظریہ شریعت کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے لفظوں میں سماجی اور معاشرتی مسائل پر بحث کرے ۔

ایک لکھاری وہ ہوتا ہے جو اپنے ماحول کو پرکھے ،تولے اور پھر اسے لفظوں میں بیان کر ے ، لیکن ایک اچھا قلم کار وہ ہوتا ہے جو لوگوں کے دل و دماغ سے احساسات کو لے کر اپنے خون میں کھپائے اور پھر انہیں لفظوں کی صورت میں واپس لٹائے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج زبان و کردار میں تضاد ہے اور یہ شخصیتی تضاد اس قدر ہے کہ کوئی بھی اب واپسی کا سفر نہیں کر سکتا ۔

لوگ اس بات کو تسلیم تو کرتے ہیں کہ نفاذ شریعہ سے ہی حقیقی انسانی معاشرے کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے اور زندگی کو ترقی و اطمینان کے راستے پر گامزن کیا جا سکتا ، یہی ایک نظریہ ہے جس کی بدولت انسان اپنی حقیقی منزل کو پا سکتا ہے ۔ لیکن وہ عملی طور پر اسے اپنی زندگی کا حصہ بنانے سے ڈرتے ہیں ، کیوں ڈرتے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے ۔ لیکن ان کےلیے میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ حقوق کا مطالبہ کرنے سے پہلے ایک مرتبہ سوچ لینا چاہئے کہ کیا ہم اپنے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں؟ خیر ہم بات کرتے ہیں شعور و آگہی کی ۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں تعلیم و شعور اور آگہی کی بہت زیادہ کمی ہے ، شرح خواندگی بھی بہت کم ہے اور اس طرح معاشرہ مسلسل زوال و پستی کا شکار ہے ۔

ہم دیکھتے ہیں کہ جس ملک کے دستور و آئین کا لوگوں کو شعور نہیں وہ انتہائی مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں ، جس سے پھر وہ سہارا ڈھونڈتے ہوئے شخصیت پرستی کا با آسانی شکار ہو جاتے ہیں بالکل یہی حال ہمارے ملک پاکستان کا بھی ہے ۔ شخصیت پرستی کا یہ حال ہے کہ حق کی تو کوئی بنیاد رہ ہی نہیں! گئی بس مادیت کو پوجا جا رہا ہے حالانکہ اللہ کے نزدیک مادہ ایک حقیر چیز ہے اور حق ہمیشہ کے لیے ہے اور ایک دن باطل کو فی نفسی ختم ہو جانا ہے ۔

میں بارہا اپنی تحریروں میں اس بات پر زور دے چکا ہوں کہ اسلام میں شخصیت پرستی کی کوئی جگہ نہیں ، لیکن حد ہے کہ کوئی بھی سمجھنا نہیں چاہتا ، میں سیاست سے زیادہ قانون کی حاکمیت پر یقین رکھتا ہوں اور ایسا قانون جو سب کو یکسانیت دے ، ہندو مذہب میں انسانیت کے چار درجے ہیں اور انہیں اسی لحاظ سے عزت دی جاتی ہے جو کہ اصل میں انسانیت ہے ہی نہیں ، لیکن الحمد للہ ! اسلام میں کسی کو بھی کوئی اس طرح کی برتری حاصل نہیں سورۃ الحجرات میں ایک آیت کا مفہوم ہے کہ اے لوگوں تمہیں ایک مرد اور عورت یعنی آدم ؑ اور حواؑ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں اس لئے تقسیم کیا تاکہ تمہاری پہچان ہو سکے لیکن تم میں سے اللہ کے نزدیک بہترین وہی ہے جو تقویٰ پر ہے ، یعنی اللہ کے نزدیک اگر کسی شخص کو کوئی برتری حاصل ہے تو اس کی بنیاد تقویٰ ہے !نہ رنگ و نسل ، نہ ذات پات ،نہ پیسہ اور نا ہی کوئی سیاسی یا سرکاری درجہ ۔

پاکستا ن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور وہ یہ اچھے سے سمجھتی ہے کہ اسلام میں برتری کی بنیاد تقویٰ ہے لیکن اس کے باوجود وہ ایسا کرتی ہے حیرانگی کی بات ہے ! اول دن سے اب تک ایسی بری مثالیں قائم کی گئیں شخصیت پرستی کی کہ جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ، چلو تاریخ میں جو بیت گیا اپنی جگہ لیکن اب اس اکیسویں صدی میں کیا ہورہا ہے ؟ سوچ سے باہر ہے !آج قانون کی حاکمیت کی بات کرنے والے تو بہت ہیں لیکن اس پر عمل کرنے والے بہت کم ہی نظر آتے ہیں اور زیادہ بھاگتے ہیں ۔

قانون کی حاکمیت کی بات کریں تو اس بارے میں بڑا ایک اہم کردار ادا کیا ہے میاں محمد اشرف عاصمی نے ۔انہوں نے اس کے لیے بڑی جدو جہد کی ہے اور بڑے آسان الفاظ میں آئین و قانون کا شعور اجاگر کرنے والی کتاب جس کا عنوان ہی قانون کی حاکمیت ہے لکھی اور شائع کروا ئی ۔ میاں محمد اشرف عاصمی صاحب ایک اچھے وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی و سماجی معلم اور سلسلہ نوشاہی کے روشن ستارے بھی ہیں ، وہ قلم کاروں کے قبیل کے بھی مرکزی عہدیدار ہیں ۔ ان کی تحریریں قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف اخباروں کی زینت بنتی رہتی ہیں

۔ انہوں نے اپنی کتاب میں شعبہ وکالت میں جو مقدمات ڈیل کئے ان کی ساری کارگزاری اردو میں آسان فہمی سے رقم کئے ہیں جو کہ واقعی قوم کیلئے ایک بڑا کام ہے ۔ اس سے انتہائی درجے کی آگہی عوام میں پھیلے گی اور کم از کم وہ اپنے ساتھ ہونے والے مسائل کی قانونی حیثیت بخوبی جان سکیں گے نا کہ انہیں کسی شخصی چیز کا سہارا لینا پڑے گا ۔صاحبزادہ اشرف عاصمی صاحب کا یہ عمل ان شاء اللہ جب تک کتابیں باقی رہیں گی یاد رکھا جائے گا اور اس کی جزا اللہ پاک انہیں ضرور دے گا ۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر ‘ صاحب کتاب نہیں


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں