حسیب شیخ
ویسے تو اسلام میں مصافحہ کرنا ایک سنّت عمل ہے اور اس میں پہل کرنا بھی افضل ہے. لیکن میرے اس عنوان کا نام ” مصافحہ کرنا منع ہے” کیوں ہے تحریر پڑھنے کے بعد آپ کو واضح ہو جائے گا۔کہتے ہیں کہ جب دو مسلمان آپس میں ملیں تو مصافحہ کریں تو الله تعالیٰ ان کے بچھڑنے سے پہلے ان کے گناہ معاف فرما دیتا ہے. لیکن ہمارے معاشرے میں اس نیک عمل کو بھی کاروبار بنا لیا ہے۔اور کاروبار بھی وہ جوشریعت کی نظر میں حرام اور گناہ کبیرہ ہے‘ کیوں اور کیسے اس کو میں آگے تحریر میں واضح کروں گا۔
آپ نے اکثر پولیس والوں کو مرکزی شاہراہوں پر لوگوں سے ہاتھ ملاتے دیکھا ہوگا اور کبھی یہ اتفاق اگر آپ کے ساتھ ہوا ہو تو آپ اس سے بخوبی واقف ہوں گے کے اگر جناب ہاتھ ملانے کا کہہ رہیں ہیں تو خالی ہاتھ ملانے سے کچھ نہ ہوگا اور جناب آپ سے ہاتھ ملانے کے بعد سیدھا جا کر اپنے افسر سے ہاتھ ملاتے ہیں اور یوں یہ مصافحہ کا عمل مٹھی گرم کرنے تک جاری رہتا ہے ۔میں یہ نہیں کہ رہا کے غلطی پولیس اہلکاروں کی ہے اس میں آپ اور ہم جیسے عام لوگ بھی شامل ہوتیں ہیں جو قانونی تقاضے پورے نہ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور پکڑے جانے پر مٹھی گرم کرنے اور مصافحہ کرنے پر اتفاق کرتے ہیں۔
اگر ہم قانونی تقاضے پورے کریں تو مجال ہے جو کوئی پولیس اہلکار مصافحہ کرنے کی جرات کرے لیکن ہمارے پاس وقت کہاں!۔
یہ عمل صرف پولیس اہلکاروں کی حد تک محدود نہیں بلکہ سرکاری ہسپتالوں میں بھی جمعدار سے لے کر کمپاونڈر تک پورا دن مصافحہ کرنے کے عمل میں مصروف رہتا ہے اور یہ کچھ سنی سنائی نہیں میری آپ بیتی ہے ۔
ہوا کچھ یوں کے میرے نانا جان ہسپتال میں داخل تھے اور ایک وقت میں ایک ہی فرد مریض کے ساتھ رہ سکتا ہے مجھے گھر والوں نے نانا جی کے لیے کھانا دے کر کہا بیٹا ہسپتال دے آؤ ۔ جب میں ہسپتال پہنچا تو وہاں ڈیوٹی پر معمور چوکیدار نے روک لیا اور کہا مریض سے ملنے کے لئے پاس دکھاؤ ۔ میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوے کہا وہ کارڈ تو اوپر مریض کے پاس موجود میرے ماموں کے پاس ہے میں کھانا دینے آیا ہوں ۔ جناب نے مجھے ایسی نظروں سے گھورا جیسے میں نے ان سے ان کا ایک گردہ مانگ لیا ہو ، اور کہا انھیں اوپر سے بلائیں اور پھر کھانا انھیں دیں دے جو کہ ایک معقول بات محسوس ہوئی ۔ خیر میں نے فون کر کے ماموں کو بلالیا ور سامنے کرسی پر انتظار میں بیٹھ گیا ۔ اتنی دیر میں ایک صاحب بمہ اہل وعیال آئے اور چوکیدار سے مصافحہ کیا اور پورے اہل خانہ کے ہمراہ اوپر چلے گئے ۔
یہ دیکھ کر تو میرے نوجوان خون میں ابال آیا اور میں ان صاحب سے لڑنے پہنچ گیا تو جناب نے بڑے معصومانہ انداز میں کہا آپ بھی ہاتھ ملائیں اور چلے جائیں اور میں دنگ رہ گیا ۔یہ واقعہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ قصور ہر دفع اس چوکیدار یا اس پولیس اہلکار کا نہیں ہوتا جو مصافحہ کر رہا ہوتا ہے بعض اوقات قصوروار سامنے والا شخص بھی ہوسکتا ہے۔
یہی حالات و واقعات دیکھ کر میں نے یہ عنوان ” مصافحہ کرنا منع ہے “رکھا ہے ۔اب یہ فرض ہمارا ہے کے ہم کس طرح اپنے معاشرے میں تبدیلی لاتیں ہیں صرف دوسرے پر تنقید کرنے سے تبدیلی نہیں آتی اور خاص طور پر جب تنقید برائے تنقید ہو تو اس سے صرف بحث بڑھتی ہے تبدیلی نہیں آتی، لہٰذا تنقید برائے اصلاح کی جائے اور خود کو بھی بہتر بنایا جائے اور معاشرے کو بھی ۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں