کیا یہ ضروری ہے کہ میں دوسروں کی زباں میں ہی بات کروں؟ میں کیوں وہ زبان نہ بولنے پر مجبور کی جاتی ہوں جس کو عمر بھر میں نے سیکھا ہے،جیا ہے ، پیا ہے۔ جس زبان میں سوچا ہے جس میں سیکھا ہے، وہی جو ہمارے معاشرے ہماری علاقے ہمارے اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی زباں تھی جو ہمارے ملک کے اسی فی صد سے زیادہ میڈیا کی زباں ہے ، وہ زباں جو ہماری اپنی ہمارے گھر کی ہماری بہترین آواز ہے اور مجھے کیوں شرمندہ ہونا پڑے اس لیے کہ میں دنیا کے دوسری طرف بسنے والے ملکوں علاقوں اور لوگوں کی زبان نہیں بول پاتی، یا بولوں تو اٹک جاتی ہوں، غلط بول اور لکھ جاتی ہوں اور اپنی زباں تک ڈھنگ سے نہ بول پانے والے میری انگلش کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر ہنس پڑتے ہیں۔
کوئی دس سال پہلے عرب امارات میں نئی نئی آمد تھی تو ہمیں بھی اس عظیم موقع سے فائدہ اٹھا نے کی جلدی تھی، بچوں کو انگریز بنانے اور انگلش سکھانے کی خواہش تھی تاکہ وہ احساس کمتری جو ہماری رگوں سے لپیٹ دیا گیا تھا دور کیا جا سکے، چناچہ چھوٹی عمر سے ہی ہم نے بچوں کو ہر لفظ اور فعل انگریزی میں سکھایا ،کھیرا نہیں ککمبر ، چہرہ دھونا نہیں فیس واش ،نہانا نہیں ٹیک باتھ ۔
چھوٹی عمر کی یہ محنت جلد رنگ لائی اور چونکہ آس پاس بھی کوئی بہت سا پنجابی یا اردو ماحول نہ تھا تو بچے بھی وہی کچھ سیکھتے گئےجو ہم سکھاتے گئے، رہی سہی کسر اسکول نے نکال دی، زبان کا اسلحہ سارا ہم نے ہاتھ میں تھما دیا تھا اسکول کے ایک ہی سال نے زبان کی لکنت کو روانی میں بدل دیا، ہمارے بچے جلد از جلد انگریزی میڈیم ممی ڈیڈی بنتے چلے گئے۔
ہمارے شوق کو بھی چین نصیب ہوا، انگلش زبان کا شوق انگریزی ادب کی بدولت اور اس کا کمپلیکس اپنے معاشرے کی بدولت ہمیں بھی خوب دبا کر ملا تھا، سو اب جب دوست احباب میں ،مارکیٹ میں یا پارٹیز میں بچے ضخیم لہجے میں انگریزی بولتے تو ہمارے دل کے سارے نہاں خانوں میں ٹھنڈ پڑ جاتی۔
مگر یہ کاٹھ کی ہنڈیا بہت دیر تک راس نہ آئی چونکہ بچے جلد از جلد درجے بدلتے اوپر چڑھتے چلے گئے اور چند ہی سالوں میں انگلش ادارے کے انگریز اساتذہ کے باعث ان کی انگلش ہماری سولہ سالہ منہ زبانی انگریزی کو پیچھے چھوڑتی چلی گئی، ہم جو اندھوں میں کانے راجہ بنے ایک عدد انگلش ادب کی ڈگری یادگار کے طور پر ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے اب بڑی سخت مشکل کا شکار ہوئے۔
بیٹی ہماری بالکل ہم پر گئی اور ڈھیروں ڈھیر کتابوں کے مطالعے کی شوقین، انگلش اسکول کا خالص انگریزی ماحول، اساتذہ کی فی البدیہہ بٹر بٹر انگلش اور بڑی بڑی موٹی کتابوں کی ورق بینی، وہ دو منٹ میں دس فقرے بولتی اور ہم پہلے دو فقروں کے ترجمے میں پھنس جاتے۔ پھر بتاؤ! وہ پھر بتاتی ہم پھر تین چار فقروں سے آگے نہ بڑھ پاتے، انگلش کو پڑھا تھا حسب توفیق اور حسب اوقات سیکھا بھی تھا اور پھر پاس بھی کیا تھا ہمیں ہمارے اردو میڈیم انگریزی اساتذہ نے۔ مگر اس طرح سے اک غیر زبان کا بے دریغ اور بے سروپا استعمال نہ ہمیں ہمارے عظیم اساتذہ اور قدیم اداروں نے سکھایا اور نہ ہمیں آیا۔
اب ہمیں احساس ہوا کہ کیسی بڑی خلیج کے اس پار رہ چکے ہم، بچوں کو فر فر کی انگلش میں جھونک کر ہم اے فار ایپل پڑھنے والے اپنے بچوں سے کس قدر فاصلے پر جا رہے ہیں، ہر وقت کا زباں اور کانوں پر پڑنے والا دباؤ بڑھنے لگا، ایک تو ماں کی نوکری جس میں دھیان اور دماغ ویسے ہی ایک جگہ پر مشکل سے ملتے ہیں اوپر سے بچوں کی زبان دانی ہر وقت کا دھیان اور کان مانگنے لگی۔
جب بات ہاتھوں سے نکلنے لگی تو ہمیں اپنے گھر کی باندی اردو کی قدر ہوئی، کیسے بن پوچھے بن بتائے کانوں میں گھس کر دل تک جا کر ساری بات بغیر پریشان کیے سمجھا آتی ہے نہ سارے کام چھوڑ کر سننا پڑتا ہے نہ ساری طاقت لگا کر بولنا پڑتا ہے وہ جو کہتے ہیں “سب کہہ دو” تو یہ سب کہہ دینا کسی دوسرے کی زباں میں ممکن نہ تھا۔
تھوڑا سا کہنا پڑتا تھوڑا سا چھوڑنا پڑتا، ہزار فقرے جملے اور ہی شی اٹ ٹھیک کرتے کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی لفظ آگے پیچھے ہو جاتا اور پھر اپنے ہی بچوں کی تصحیح سہنی پڑتی، جب صحیح معانی میں اس ظلم سے ہمارے کان پک گئے اور زباں سُوج گئی تو ہم نے بچوں کو سختی سے منع کیا کہ خبردار اگر گھر کے اندر انگریزی بولی! اپنے بھی سارے دس اور دیٹ والے فقرے چھوڑے اور کھل کرجی بھر کر لمبے لمبے اردو کے فقرے بولنے لگے۔ یوں لگا جیسے قدم زمین پر لگ گئے ہوں یا گم گشتہ روح کو سکون مل گیا ہو، جیسے کوئی اپنا گھر کو لوٹ کر آیا ہو۔
کیا واقعی اس قدر ضروری ہوتی ہے آپ کی اپنی زباں کہ آپ کی زندگیوں کا حسن اور چین غارت کر سکتی ہے؟ جی ہاں ایسی ہی قریب ترین اور عزیز از جان ہوتی ہے اپنی زبان، یہ آپ ان سے پوچھیں جو اپنی زباں کے ساتھ کسی دوسرے علاقے میں کسی دوسری زبان کے بیچ بے زباں ہو جاتے ہیں، تب سمجھ میں آتا ہے گونگا ہونا کسے کہتے ہیں۔
محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ جذبے اور احساس اپنی زبان میں بیان کرنا کس قدر سکون بخش عمل ہے، بجائے اس کے کہ آپ ہر وقت کسی کی جیب میں ہاتھ ڈالے رکھیں اور کسے دوسرے کی زباں کے ہجے اور آوازیں ٹھیک کرتے رہیں، آپ کی اپنی زبان جو آپ کی زبان سے ایسے فی البدیہہ نکلتی ہے جیسے کسی وادی میں اک خوبصورت جھرنا بے ساختگی سے گرتا ہے، بغیر کسی عجلت کے بغیر کسی محنت کے، یہ ادراک تب تک نہیں ہوتا جب تک دل میں کسی اور کے گال کی لالی کی طلب اٹھتی رہتی ہےاور دماغ میں کچھ اور ہو جانے کا ارمان جاگتا رہتا ہے۔
کچھ سچ حدوں سے پار نکلنے پر ہی پتا چلتے ہیں، اپنی زبان کی اہمیت تب کھلتی ہے جب یہ آپکے ہاتھ سے نکلنے لگتی ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ آج کے بعد آپ کھل کر پورے ناز اور انداز کے ساتھ بول نہ سکیں گے، حالِ دل نہ کہہ سکیں گے احوال روح نہ کہہ سکیں گے کہ ان سب کے بیان کے لیے سب سے بہتر وہی زبان ہے جو آپکی دھڑکنوں کے ساتھ جواں ہوئی ہو، جس کی گود میں آپ نے لوریاں سنی اور سنائی ہوں۔
میں کسی کی زباں سیکھ سکتی ہوں لیکن اپنی سیکھی زبان کے ساتھ کسی اصل انگریز کو ہرا نہیں سکتے، اس پر کمال نہیں دکھا سکتی ،اسے زبان و ادب میں اپنی مہارت اور کمال سے محکوم نہیں کر سکتی، میرا میداں وہی ہے جس پر میری عمر بھر کی ریاضت لگی ہے، مجھے اپنا ہنر دکھانے کو‘ دل کی بات سنانے کو اپنی زبان اور اپنے کان چاہئیں۔کسی کی مستعار لی زباں مجھے ہمیشہ ہراتی رہے گی، مجھے آگے نکلنا ہے تو اپنے میدان میں کھیلنا ہو گا۔
پاکستان میں انگریزی اعلیٰ طبقے کی زبان صرف اس لیے سمجھی جاتی ہے کہ اتنے بڑے ملک کے دو چار ادارے ایک خاص امیر کلاس کے کچھ ہزار بچوں اور جوانوں کو اعلیٰ انگلش تک رسائی دیتے ہیں باقی ہر جگہ چاکلیٹ کے نام پر گنڈیریاں بیچی جاتی ہیں، اور ہمیں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ شاید امریکہ اور برطانیہ کے خاکروب، موچی نائی سڑک چھاپ سب جیسے اردو بولتے ہیں ہمارے ہاں کے نوابوں کی زبان انگلش نہیں بولتے۔ اسی طرح جیسے پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں جینز جیکٹ کو امیرانہ لباس بنا کر پیش کیا گیا جبکہ یہ وہاں کے محنت کش طبقے کا لباس ہے جو امریکہ کے فقیر اور چرسی شاید سب سے زیادہ پہنتے ہیں بلکہ ہمارے ہاں کے نوابوں کی طرح کئی کئی دن پہن کر گندی گلیوں میں ننگی زمیں پر پڑے رہتے ہیں۔
اس پر ستم ظریفی یہ بھی کی گئی کہ جتنے اہتمام سے اس کے نہ آنے پر عوام کو جاہل اور ان پڑھ سمجھا جاتا ہے اتنی محنت اسے سکھانے پر کہیں نہ کی گئی، چناچہ تھوڑے سے لوگ بولنے والے باقی سارے سر دھننے والے، رشک کرنے والے، ترسنے والے اور کبھی نہ جان کر بھی دوسروں پر ہنسنے والی کلاس وجود میں آئی۔ اردو میں پنجابی ملاؤ، پنجابی میں سرائیکی، سندھی میں پشتو تو کوئی نہیں ہنستا مگر انگلش میں جو ذرا سا پاؤں ادھر سے ادھر رکھ دو تو وہ بھی زور زور سے ہنستے ہیں جو کبھی انگریزی لازمی میں بھی پاس نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ انگلش کی اہمیت نہیں ہمارا احساس کمتری رہا۔
ہم نے جیسے دو نمبر بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگائے اور سستی چیز مہنگی خریدی ایسے ہی ہم نے دو نمبری سے تھوڑی سی زباں درآمد کی اور سزا بنا کر ساری قوم پر تھوپ دی، صرف یہی نہیں عوام پر اس کے دروازے بھی بند رکھے گئے، ہندوستان کی طرح گلی محلے میں ہر فقیر اور غریب گھر میں بانٹی نہیں گئی، پچھلے دنوں ایک اردو کی ترویج کے ادارے میں درخواست اردو میں بھیجی تو جواب انگلش میں آیا، یعنی اردو تک پہنچنے کے لیے بھی انگلش کو سلامی دے کر گزرنا پڑے گا۔
ہم نے ساری قوم کے کالے بالوں پر لال رنگ پھیر کر انہیں ایک نمبر نہیں دو سے بھی چار نمبر کے لوگ بنا چھوڑا ہے جن کے پاس احوال بتانے کو، نوکری مانگنے کو، جواب دینے کو اپنی زباں تک نہ رہی، سچ تو یہ ہے کہ یہ ہم نے اپنے اوپر اپنے غرور پر اپنی شناخت پر اور اپنی نسل کے شعور پر بڑا ظلم کیا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ جیسے ہمارے بہت سے حکمران باہر جا کر پرچیاں پڑھ کر اپنی بات کہتے ہیں ایسے ہی ہماری ساری عوام کہیں گونگی نہ ہو جائے۔
اردو کے ساتھ ایسا سوتیلا سلوک کرتے کرتے کہیں خدانخواستہ بحثیت قوم کہیں ہم بے زبان نہ ہو جائیں پھر وہ سب نہ کہہ سکیں جو ہمارے دلوں سے نکلے اور اگر ہمارے منہ سے یہ زبان نکل بھی آئے تو کوئی سننے والا ، سر دھننے والا ہی نہ رہے۔ آپ کی زبان کے ساتھ آپ کی بقا کھڑی ہے، سفید رنگ پھیر لینے سے کوا بگلا تو نہ بن سکے گا خود اپنے آپ سے بھی جائے گا۔ دھیان رہے کہ ہمارا آج کا کمپلیکس ہمارا کل گونگا نہ کر دے۔