بچپن میں ہمارے اردو کے استاد ماسٹر فرمان علی بتایا کرتے تھے کہ زمانہ جہالت میں جزیرہ نما عرب میں کسی کے گھر لڑکی پیدا ہوتی وہ اسے زندہ درگور کردیا کرتے تھے ،ہم اکثر پوچھا کرتے تھے کہ سر وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟ تو ان وہ ہمیں ایک چھوٹی سی توضیع کہ عرب لوگ اس بات کو طعنہ سمجھتے تھے کہ کوئی ان کو کہے کہ وہ دیکھو تمھاری بیٹی کا خاوند جارہا ہے دے کر مطمئن کردیا کرتے تھے لیکن عمر کے اس حصہ میں جب ہماری نسل نے معاشرے کی ایک نسل کو رخصت ہوتےاور دوسری کو پروان چڑھتے ہوئے دیکھ چکی۔ تو پتہ چلتا ہے کہ ماسٹر فرمان ہم سے کچھ چھپا جاتے تھے جن کو نہ صرف ہم اب جان چکے ہیں بلکہ ہرروز ایک نیا واقع ہمیں یہ باور کرادیتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتے تھے ۔
ہم آج اکسیویں صدی کے آغاز کے ڈیرھ عشرہ بھی پورا کرچکے ہیں، سائنسی معاشی تعلیمی ترقی بھی اپنی انتہا پرہے، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا ہماری زندگی کا کے لیے لازم و ملزوم بن کے رہ گیا ہے جو ہمیں دن رات بلواسطہ آگاہی اور تعلیم دے رہا ہے۔ سماج اور مذہب کے ٹھکیدار بھی یہ وعوی کرتے نہیں تھکتے اس جیسا مثالی معاشرہ پوری دنیا میں نہیں ہوگا جس میں ہم رہ رہے ہیں ۔لیکن لگتا ہے کہ جیسے ابھی تو وہ دورِ جہالت شروع ہوا ہے جسے ہم تو سمجھے بیٹھے تھے کہ یہ ختم ہوچکا ہے ۔
حال ہی میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پیش آنے والے واقعہ نے میرے اس دعوے کی سچائی پر مہر ثبت کردی جب ایک ریپ کے ملزم سے بدلہ لینے کے لئے ریپ ہونے والی لڑکی کے گھر والوں نے یہ شرط رکھی کہ اب ریب کا شکار ہونے والی کا بھائی ریب کرنے والے کی بہن کا ریب کرے گا ۔معاشرے کی بے حسی پر ماتم کرنے کو اس وقت جی چاہا جب ریب کے ملزم اور اس کے خاندان نے اس کو قبول ہی نہیں کیا بلکہ باقاعدہ اسے قانونی شکل دے دی گئی یعنی سرکاری کاغذات پر یہ معاہدہ لکھا گیا۔ اور پھر آسمان نے یہ بھی منظر بھی دیکھا کہ ملزم کی بہن کے ساتھ بھی ریپ کیا گیا ۔
انسانیت کی تذلیل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اب تو ایسا لگتا ہے یہ عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے مختاراں مائی کیس، قصور میں بارہ بچیوں کا قتل اور بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیو بنا نے کا کیس ابھی وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ ادھر قصور سے ایک نجی ٹی چینل کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زینب قتل کیس کے بعد پچاس سے زیادہ مزید کیس رجسٹرڈ ہوئے ہیں جن میں معصوم بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ میں نے اوپر مختاراں مائی کا کیس کا ذکر کیا ۔ اس کیس کا کیا بنا اس کے تمام ملزمان کو ناکافی ثبوت کی بنا پر باعزت بری کردیا گیا تھا اور اب وہ پھر سرِ عام اسی معاشرے میں د ندناتے پھر رہے ہیں ۔ اگر کسی کو یاد نہ رہا ہو اتو اس کی تفصیل مختصراً بتا دیتا ہوں کہ مختاراں مائی کے خلاف بھی لوکل پنچایت نے اس کے بھائی پر لگے الزام کے بعد اسی قبیلے کے بائیس افراد کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ اس کا ریپ کریں ۔ ادھر سوسائٹی کا یہ عالم ہے کہ جب تک مختاراں مائی کا معاملہ نیشنل لیول پر رہا اس کے خلاف پھرپور ردعمل نظر آیا لیکن جیسے ہی اس خبر کو انٹرنیشنل میڈیا پر اٹھایا گیا سماج کے ٹھیکدار جن میں عالم دین تک شامل تھے نے مختاراں مائی کو جھوٹا قراد دے دیا تھا ۔ اسے این جی او کی اعلیٰ کار اور ملک دشمن طاقتوں کا ایجنٹ قرار دے دیا گیا۔
ادھر حال ہی میں دو نئی سٹوریز بھی سامنے آئی ہیں ۔ایک ٖفیصل آباد سے جہاں فیصل آباد یونیورسٹی کی ایم اے کی طالبہ کو اغوا کرکے چار دن تک اس سے زیادتی کرنے کے بعد اسے قتل کرکے پھینک دیا گیا جبکہ مدرسہ جاتی ہوئی ایک دس سال کی بچی کا ریپ کرکے قتل کرنے کی خبر کا بھی سوشل میڈیا پر چرچا میں ہے ۔ تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی خبر پاکستان کے کسی نہ کسی حصہ سے آجاتی ہے جو کہ جنسی جرائم سے مطلق ہوتی ہے ۔ذرا ان سرخیوں پر نظر ڈالیں۔۔۔۔۔۔۔۔ فورٹ عباس: مزدور کا اکلوتا بیٹا زیادتی کے بعد قتل ،والدین پر سکتہ ۔۔۔۔۔ قصور: غریب کی بیٹی سے زیادتی کی کوشش مقدمہ پر با اثر لوگ دشمن ،پولیس بھی ساتھ مل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خان پور: لڑکی سے اغوا کے بعد زیادتی، پولیس کا مقدمہ کیلئے رشوت کا مطالبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ سرائے سدہو: اغواہ، زیادتی ویڈیو سکینڈل مرکزی ملزم گرفتار پولیس نے اسلحہ ویڈیو کی دفعات نہ لگائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میاں چنوں: پانچ اوباشوں کی خاتون کو اغوا کرکے اجتماعی زیادتی، نازک حصوں پر تیزاب ڈال دیا ۔۔۔۔۔۔ علی پور: سود خور کی یتیم لڑکی سے زیادتی ، بلیک میلنگ کرکے چار لاکھ بھی لے لیے۔۔۔۔۔۔۔ قصور: شرابی نوجوانوں کی بارہ سالہ بچی سے اغوا کے بعد اجتماعی زیادتی زخمی حالت میں نہر کنارے پھینک کر فرار۔
غرض اس قسم کی سینکڑوں خبریں ہم روزانہ پرھتے ہیں لیکن ہمیں قانون کی علمداری کہیں بھی نظر نہیں آئی سوائے چند ایک کیس کے جس میں میں خاص طور پر زینب قتل کیس کا ذکر کروں گا وہ واحد واقع تھا جب قانون حرکت میں نظر آیا لیکن اس لئے نہیں کہ قانون نافذ کرنے والوں کا ضمیر جاگ اٹھا بلکہ حکومت سوشل میڈیا، الیکٹرونک میڈیا، سول سوسائٹی اور بڑے پیمانے پرعوامی دباو میں آگئی اور اگر اس کیس پر اتنا ردعمل نہ آتا تو شاید اس کیس کا بھی وہی حشر ہوتا جو کہ دوسرے واقعات میں ہوا یا جو کہ اب بھی ہورہا ہے کہ ہر ایسے معاملے کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہےسائل کو ڈرا دھمکا کے کیس واپس لینے کو کہا جاتا ہے کہ تمھاری بدنامی ہوگی یا پیسوں کا لالچ دے کر اسے چپ کروانے کی کوشش کی جاتی ہے
اسی تحریر لکھنے کے دوران ایک نئی خبر چیچا وطنی سے بھی آئی کہ چچہ وطنی میں ایک آٹھ سالہ بچی نورفاطمہ کوجنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد زندہ جلا دیا گیا۔ یہ واقعہ بھی الیکٹرونک و سوشل میڈیا پر دس اپریل کو سر فہرست رہا۔ میں نےعرصہ پہلے اپنی ایک تحریر میں لکھا تھا غالباً زینب قتل کیس کے بعد کہ خبروں سے سوشل میڈیا پر چیخنے چلانے سے یا احتجاج کرنے سے یہ جرم کم نہیں ہوگا بلکہ جب تک قانون سازی کرکے ایسے مجرموں کو سخت سے سخت اور عبرتناک سزائیں نہیں دی جاتی یہ درندے اسی طرح معصوم کلیوں کی عصمت دری کرکے انہیں مارتے رہے گے۔اگر ان درندوں کو روکا نہ گیا تو کہیں وہ وقت لوٹ نہ آئے کہ اس ملک کے کمزورغریب عوام اپنی بچیوں کو ایک دفعہ پھر زمانہ جہالت کی طرح پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کرنا شروع کردیں۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں