The news is by your side.

درد آگیں مجسمہ

شکر ہے کہ بات بن گئی ، کم از کم ایک وقت کے لیے کچھ رقم تو مل ہی جائے گی ۔ پوری نہ سہی ادھوری ہی سہی۔ ہر اک کا منہ تکنے یاکسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے انسان محنت کرے ، خود پرجبر کرے ۔
تحسین نے معظم کوتھپکی دی ،، ،
تحسین : کاش! میں تیرے لیے کچھ کر سکتا ، میری پہنچ یہیں تک تھی ، مجھےافسوس ہورہا ہے کہ میں مشکل وقت میں تیرے کام نہیں آسکا۔( تحسین کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے)
معظم : پریشان کیوں ہور ہےہو ، ہرقدم ہر لمحہ تم ہی تو ساتھ رہے ، اس بار بھی دوستی نبھائی ۔ بس! میرے ساتھ رہنا ، میں اس کام میں ڈگمگا نہ جاؤں ۔
17 اپریل کو جب مجھے اپنے دوست کے ساتھ ہونا تھا۔ میں دفتر کے مصروف شیڈول میں پھنس گیا،سیمینار کی کوریج اور نمائش سے لائیو بیپر دینا تھا اور بہترین پیکج کیلئے اعلی ٰ شاٹس اور ساٹس اکٹھے کرنے تھے ۔
کسی خاص مرض کی آگہی فراہم کرنے کے لیے پہلی بار مجسموں کی صورت میں اس نمائش کا اہتمام کیاگیا۔ کوئی تخلیق کار اپنے لفظوں سے تو بات سمجھا سکتا ہے ، لیکن درد کو مجسمے کی شکل میں ڈھالنا ایک نہایت مشکل امر ہے ، شاید اسی لیے اس نمائش کو اہمیت دی جارہی ہے ۔کیمر ا پرسن اور ضروری اشیا کے ساتھ مطلوبہ جگہ پر پہنچے۔
سیمینار کے ابتدائیے میں ملکی و غیرملکی ڈاکٹر زاور مقررین کاتعارف ہوا۔ 17 اپریل کو ہیموفیلیا ڈے پر اس تقریب کا اہتمام کیاگیا ہے ، تاکہ ہیموفیلیاسے آگہی اور بچاؤ کیلئے معلومات فراہم کی جاسکیں، ہیموفیلیا میں مبتلا افرادکو مہنگے علاج کے دوران شدید مشکلات کا سامناکرناپڑتا ہے ،ہیموفیلیا ڈےکی تھیم رکھی گئی ہے ،’’ شئیرنگ نالج ‘‘۔امید ہے ہم یہاں سے کچھ سیکھ کر اور سکھا کر جائیں گے ۔
مسکراہٹوں اور تالیوں میں میزبان نے مہمان خصوصی کو مدعو کیا ۔
کئی ننھے تارے خون کی موروثی بيماری ہيمو فيليا ميں مبتلا ہيں، اس مرض میں خون جمنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ زخم لگنے کی صورت میں خون رکنا مشکل ہوجاتا ہے ۔یہ مرض صرف لڑکوں ميں ہی پایا جاتا ہے۔
ہيمو فيليا کی صورت میں انجکشن کے ذریعے بھی خون کا بہاؤ بہتر بنایا جاتا ہے لیکن یہ انجکشن بہت قیمتی ہے، دوسری صورت میں مریض کو پلازمہ ایف ایف پی دیا جاتا ہے جسے نارمل انسان سے حاصل کئے گئے خون سے نکالا جاتا ہے۔ اس لیے دوسروں کی مدد کریں اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کریں ،خون کے زیادہ سے زیادہ عطیات د ے کر آپ کئی زندگیاں بچا سکتے ہیں ۔
بہت زبردست ۔۔ تالیوں کی گونج میں ڈاکٹر اسٹیج پر پہنچ گئے ۔
ہیموفیلیا کا شکار مریض کے جسم کے کسی بھی حصّے پر معمولی نوعیت کا زخم بھی لگ جائے تو اس سے دیر تک خون بہتا رہتا ہے۔ میڈیکل سائنس کے مطابق بعض مریضوں کےجسم کے اندر بھی اچانک ہی خون بہنے لگتا ہے۔اس کی مختلف وجوہ ہو سکتی ہیں۔ اندرونی طور پر خون بہنے کے باعث جوڑوں اور اعضا میں شدید درد ہو تا ہے اور مریض کو چلنے پھرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔
طبی محققین کے مطابق یہ بیماری والدین سے اولاد کو منتقل ہوتی ہے۔اس مرض کی علامات میں جوڑوں کی سوجن، جسم پر نشانات نمودار ہونے کے ساتھ زخم لگنے کی صورت میں دیر تک خون بہتے رہنا شامل ہیں۔ خون دراصل سرخ اور سفید خلیات اور پلیٹلیٹس پر مشتمل ہوتا ہے، جن کے ساتھ مل کر جسم میں موجود پروٹین کلوٹنگ کا عمل انجام دیتی ہے، لیکن ہیموفیلیا کی صورت میں یہ قدرتی نظام ناکارہ ہو جاتا ہے۔ اس بیماری کی وجہ جین میں ہونے والا نقص ہے۔ ایکس (X) کروموسوم کے نقص سے جنم لینے والا ہیموفیلیا کا مرض زیادہ تر مردوں کو لاحق ہوتا ہے۔ اس بیماری کی دو بڑی اقسام ہیں، جنہیں طبی ماہرین ہیموفیلیا A اور ہیموفیلیا B کے نام سے شناخت کرتے ہیں۔
ایک طبی ماہر شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہنے لگے :
ہیموفیلیا سے متعلق عدم آگاہی کے علاوہ علاج نہ کروانے کی بڑی وجہ غربت بھی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ہیموفیلیا کے مریضوں کی تعداد چھ لاکھ اور پاکستان میں 20 ہزار کے قریب ہے ۔
سیمینار میں شریک لوگوں نےمقررسے اس سے بچاؤ کی ترکیب اوراحتیاطی تدابیرپوچھیں؟
دانتوں کی صفائی اور شیو کرتے ہوئے خود کو زخم لگنے سے بچانا چاہیے۔ نارمل انسان کے مقابلے میں چلنے پھرنے، دوڑنے، سڑک پار کرنے اور نوکیلی یا تیز دھار اشیا کے استعمال کے دوران بھی احتیاط کرنی چاہیے۔
ایک غیرملکی ڈاکٹر نے شرکا سے خطا ب میں بتایا کہ طبی سائنس اس بیماری اور اس کے علاج کے طریقوں پر تحقیق کررہی ہے۔ چند ماہ قبل محققین نے اس سلسلے میں جین تھراپی کا کامیاب تجربہ کیا۔۔ایک سال تک ان میں خون کے جمنے کی صلاحیت برقرار رہی۔
ایک مقرر تو ہیموفیلیا کی تاریخ میں بہہ گئے،کہنے لگے :
ہیموفیلیا ایک شاہی بیماری ہے جس نے 19ویں اور 20ویں صدی میں انگلینڈ، جرمنی، روس اور اسپین کے شاہی خاندانوں کو متاثر کیا ، انگلینڈ کی ملکہ وکٹوریا جنھوں نے1901-1837ء تک حکومت کی، خیال کیا جاتا ہے کہ ہیمو فیلیا بی یا فیکٹر 9 کی کیریئر تھیں۔ انہوں نے یہ جین اپنے 3 بچوں میں منتقل کیا اور پھر یہ بیماری نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔
ورلڈ ہیموفیلیا ڈے ہر سال 17 اپریل کو فرینک شینابل (Frank Schnabel) کی سالگرہ کے دن منایا جاتا ہے، فرینک شینابل (Frank Schnabel) ورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیا کے بانی ہیں۔ اِس دِن کو منانے کا مقصد ہیموفیلیا میں مبتلا مریضوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی اور عام آدمی کو اِس بیماری کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے۔
اگرچہ ہیموفیلیا کے شکار مریضوں کی تعداد کم ہے لیکن یہ کمیاب مرض زندگی کا روگ بن جاتا ہے۔پاکستان میں اِس بیماری میں مبتلا مریض اپنی مدد آپ کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مریض کے علاج پر ہر سال کئی لاکھ کا خرچ آتا ہے ۔ سرکاری اسپتالوں میں ہیموفیلیا کا علاج نہ ہونے کے برابر ہے اور نجی اسپتالوں میں علاج بہت مہنگا ہوتا ہے ۔ اور ہر کوئی ان اخراجات کا بوجھ نہیں اٹھا پاتا۔
ٹی بریک کے بعد ہیموفیلیا نمائش کی طرف بڑھیں گے ،جہاں ہیموفیلیامیں مبتلاافراد کی زندگی کے حوالے سے کچھ تصاویر ہیں اور قدآدم مجسمے بھی ۔ جو اپنادرد خود بیان کررہے ہیں ۔
ایک کپ چائے کے بعد میں اپنی کوریج اور بیپر کے لیے مناسب جگہ ڈھونڈنے لگا ،کئی ایک تصاویر میں ہیموفیلیا کا کرب نمایاں تھا، چند ایک میں مجبور والدین دہائی دیتے نظر آئے ،،شرکا تصویر کو بغور دیکھ کر باتیں کرتے آگے بڑھ جاتے۔۔کوئی بھی ایسا صاحب نظر نہ ملا جو تبصرہ کرتا۔ نمائش کے سب سے خوبصورت مجسمے پر میری نظر پڑی ، جو ہیموفیلیا کا مکمل عکس تھا، اس میں تکلیف کا احساس بھی تھا، اور غربت کے آثاربھی ، خاندان کی بے بسی اور حکمرانوں کی بے حسی بھی جھلک رہی تھی ،نمائش میں آئے لوگوں نے اس کے ساتھ تصاویر بھی بنائیں ۔
ایک قریبی شاٹ لیتے ہوئے مجسمے کے چہرے پرآنسو چمکا ،، اور پوری روداد کہہ گیا،
تحسین : (حیرانی سے )معظم ۔۔ یہ تم ہو، تصویر کو بھی ہزاروں روپے مل جاتے ، مگرمجسمہ ہی کیوں؟


شاید آپ یہ بھی پسند کریں