The news is by your side.

گھلنے لگے زباں پہ مزے چاکلیٹ کے

سائنسدانوں کی ایک مزیدار تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ چاکلیٹ کھانا دل کے لیے اچھا ہے۔ ہالینڈ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑی عمر کے وہ افراد جو چاکلیٹ کھاتے ہیں ان کا بلڈ پریشر کم رہتا ہے اور اس طرح سے دل کی شریانیں بند ہو کر دورے پڑنے کا امکان بھی کافی کم ہوجاتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کوکو میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جن سے دوران خون صحت مند رہتا ہے۔

برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک ایسی چاکلیٹ تیار کی ہے جس کو کھانے کے بعد آپ کی عمر بڑھنے کا عمل نہ صرف کم ہو جائے گا بلکہ انسان کے چہرے پر پڑنے والی جھریاں بھی ختم ہو جائیں گی اور 50 سے 60 سالہ انسان کی جلد 20 سالہ نوجوان شخص کی طرح ترو تازہ اور توانا نظر آئے گی۔

تاہم برطانوی سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ چاکلیٹ کے شوقین افراد یہ تحقیق پڑھ کر چاکلیٹ کھانے کے لیے اپنے آپ کو آزاد نہ محسوس کریں کیونکہ اس ایک فائدے کے ساتھ ساتھ چاکلیٹ کھانے کے کئی نقصان بھی ہیں۔

اس کی بہت زیادہ مقدار کا استعمال موٹاپے کا خطرہ بڑھا دیتا ہے جبکہ کچھ شواہد ایسے بھی سامنے آئے ہیں کہ چاکلیٹ منشیات کی طرح لوگوں کو اپنا عادی بنادیتی ہے جبکہ اس میں کچھ ایسے ایسڈ شامل ہوتے ہیں جو طبی نقصانات کا باعث بن سکتے ہیں خاص طور پر گردوں میں پتھری کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

آخر یہ چاکلیٹ سب سے پہلے کہاں سے آئی؟ اس کی پروڈکشن کیسے ہوتی ہے؟

بچوں اور بڑوں کی بلکہ سب کی پسندیدہ چاکلیٹ کا عالمی دن منایا جاتا ہے 7 جولائی کو۔ اس دن دنیا بھر کے لوگ مختلف قسم کی چاکلیٹس ایک دوسرے کو تحفے میں دیتے ہیں، چاکلیٹ کی مدد سے مزیدار ڈشز بنائی جاتی ہیں جن میں کیک، آئس کریم، شیک، موز، ڈونٹس اور مفنس شامل ہیں۔ چاکلیٹ بنانے کی بڑی بڑی کمپنیاں نئی، منفرد شکل اور قسم کی چاکلیٹس متعارف کراتی ہیں، کئی ملکوں میں چاکلیٹ کے فیشن شوز ہوتے ہیں، چاکلیٹ کی نمائش بھی لگائی جاتی ہے۔

رواں سال مارچ میں پرتگال میں چاکلیٹ کی عالمی نمائش میں دنیا کی سب سے مہنگی چاکلیٹ کی رونمائی کی گئی۔ نو ہزار ڈالر کی اس چاکلیٹ میں سونا اور زعفران استعمال کیا گیا ہے۔ ہیرے کی شکل جیسی اس چاکلیٹ کو تجوری میں رکھا جاتا ہے اور اسکے اندر پانچ سو پچاس کرسٹل کے ٹکڑے بھی استعمال کیے گئے ہیں۔

چاکلیٹ دراصل ہزاروں سال قبل جنوبی امریکا میں ایمازون اور رینوکو کی وادیوں میں اگتے تھے، چاکلیٹ کے بیج کوکوا کے درخت سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ کوکوا کے ان بیجوں کا کسی نہ کسی صورت بطور خوراک استعمال گیارہ سو قبل مسیح سے جاری ہے جو تبدیل ہوتے ہوتے پانچ صدیاں پہلے چاکلیٹ کی شکل اختیار کر گیا۔ ان بیجوں کو پودے سے اتار کر خشک کیا جاتا ہے، بھونا جاتا ہے اور پھر لیکویڈ یعنی مائع کی شکل دے کر خوبصورت اور ذائقے دار چاکلیٹ کی شکلوں میں ڈھالا جاتا ہے۔

تقریباً 5 سو سال قبل 7 جولائی کو چاکلیٹ یورپ میں متعارف کروائی گئی جس کے بعد چاکلیٹ کے دن کو عالمی سطح پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ امریکی طبی جریدے میں شائع ایک تحقیق کے مطابق باقاعدگی سے چاکلیٹ کھانا دماغی کارکردگی میں اضافہ کرتا ہے۔

رواں سال اپریل میں جرمنی کی خواتین چاکلیٹ چور گروپ پکڑا گیا جن کے قبضے سے ایک دو درجن چاکلیٹ نہیں بلکہ 60 کلو گرام چاکلیٹ برآمد ہوئی جس کی مالیت ایک ہزار یورو یعنی ایک لاکھ 43 ہزار پاکستانی روپے بنتی ہے۔

اور کیا آپ کو پتا ہے:

چاکلیٹ کا سب سے بڑا 10 فٹ اسٹرکچر آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں بنایا گیا ہے۔

صرف بیلجئیم میں 17,000 افراد چاکلیٹ انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔

نپولین بونا پارٹ ہر وقت اپنے پاس چاکلیٹ رکھتے اور چستی اور چاق وچوبند رہنے کے لیے کھاتے تھے۔

چاکلیٹ کے تقریباً 6 سو فلیور متعارف کروائے جا چکے ہیں۔

برسلز ایئر پورٹ دنیا کا سب سے بڑا چاکلیٹ فروخت کرنے والا ایئر پورٹ ہے جہاں ہر سال 8 سو ٹن سے بھی زیادہ چاکلیٹ فروخت کی جاتی ہے۔

ترکی کے محکمہ شماریات کے مطابق سال 2016 میں 182.6 ملین ڈالر مالیت کی 71.3 ٹن چاکلیٹ کی پیداوار ہوئی جس میں سے 35.3 ملین ڈالر مالیت کی چاکلیٹ عراق کو، 17.1 ملین ڈالر مالیت کی چاکلیٹ سعودی عرب کو اور14.7 ملین ڈالر مالیت کی چاکلیٹ متحدہ عرب امارات کو برآمد کی گئی۔

اور ہاں ایک پریشان کن بات یہ ہے کہ 2020 تک یعنی آئندہ 2 سال میں چاکلیٹ دنیا سے ختم ہوجائے گی اور اس کی وجہ بنے گی چاکلیٹ کی طلب میں اضافہ اور پیداوار میں کمی۔


 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں