The news is by your side.

مربھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے

آج بھی اردو ادب میں جب ایک مکمل شاعرہ کی بات کی جائے تو پروین شاکرکے نعم البدل کے طور پر کوئی شاعرہ ادبی منظر پر نظر نہیں آتی۔24 نومبر کو کراچی میں پیداہونے والی پروین شاکر کے والد سید ثاقب حسین خود بھی شاعر تھے اور شاکر تخلص کرتے تھے، اس نسبت سے پروین شاکر اپنے نام کے ساتھ شاکر لکھتی تھیں۔

وہ زندگی سے محبت کرنے کا جرم پورے غرور کے ساتھ قبول کرتی ہے۔ بہاروں کے رنگ اسے خوشی دیتے ہیں تو خزاں اسے دکھی کر دیتی ہے، مگر وہ اس سے دشمنی نہیں رکھتی۔ وہ تنہائیوں اور سنّاٹوں سے گھبراتی ہے، مگر نفرت نہیں کرتی۔ خواہشوں کا ادھورا پن اس میں جو خلاء پیدا کرتا ہے وہ اسے فن کی بلندیوں پر جا کر پورا کرتی ہے۔

جس طرح خواب میرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کر بکھرے کوئی

پروین شاکر نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی پھر لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور دونوں میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد پی ایچ ڈی کے لیے’جنگ میں ذرائع ابلاغ کا کردار‘ پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی ہوئیں لیکن ان کا تعلیمی سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ ہارورڈ یونیورسٹی امریکا سے وابستہ ہو گئیں، جہاں سے انھوں نے بینک ایڈمنسٹریشن میں ایم اے کیا۔

پروین شاکر نے اپنی شاعری میں صرف رومانوی موضوعات پر قلم نہیں اٹھایا بلکہ اُن کے اشعار میں بھرپور عصری شعور بھی ملتا ہے۔ پروین نے اپنی شاعری میں نسائی جذبات کی تہذیب یافتہ شکل کو متعارف کرایا۔

مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی

میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں

محبت میں ناکامی کا دکھ اُن کے اشعار میں جا بجا محسوس ہوتا ہے۔

ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا

میں نے تو ایک بات کی، اس نے کمال کر دیا

اور

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

پروین شاکر نے کم سنی ہی میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اردو ادب پڑھنے والوں کے دِل میں گھر کر لیا تھا۔ ’خوشبو‘ کی رومانوی فضا سے لے کر ’صد برگ‘ تک کا شعری سفر کچے جذبات رکھنے والی لڑکی کے عصری اور قلبی تجربات کی بھٹی میں تپ کر کندن بننے کا سفر ہے۔

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

چھبیس دسمبر کو پاکستان کی اس معروف شاعرہ کی برسی منائی جاتی ہے اور اس موقع پر سُخن و ادب سے شوق رکھنے والے افراد پروین شاکر کو نہ صرف یاد کرتے ہیں بلکہ اُن کے کلام کی خوشبو محسوس کرنے اور اسے پھیلانے کے لیے خصوصی نشستوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔

گئے موسم میں جو کِھلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے مرے خوابوں کی طرح
کون جانے کہ نئے سال میں تُو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح

دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔

رات ابھی تنہائی کی پہلی دہلیز پہ ہے
اور میری جانب اپنے ہاتھ بڑھاتی ہے
سوچ رہی ہوں
ان کو تھاموں
زینہ زینہ سناٹوں کے تہ خانوں میں اتروں
یا اپنے کمرے میں ٹھہروں
چاند مری کھڑکی پہ دستک دیتا ہے

سنہ 1976 میں اُن کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی۔ 1978ء میں ان کا بیٹا مراد علی پیدا ہوا اور1987ء میں ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی۔

کوئی سوال کرے تو کیا کہوں اس سے
بچھڑنے والے سبب تو بتا جدائی کا

پروین شاکر کا کلام ’’خوشبو‘‘ کی طرح چار سو بکھرتا ہوا ہر کسی کو مسحور کر لیتا ہے حتیٰ کہ یہ نوجوانوں کو ہی اپنی لپیٹ میں نہیں لیتا بلکہ سنجیدہ قاری کے پختہ احساس پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔

وہ رت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی
مہک میں چمپا، روپ میں چنبیلی ہوئی
مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں

پروین شاکر کی شاعری میں فنی دسترس کے باوجود نثری نظمیں بھی ملتی ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ ان کے فن کا بحربے کراں عروض و بحور کے محدود کناروں سے باہر تلک رسائی چاہتا تھا۔

کس شخص کا دل میں نے دُکھایا تھا، کہ اب تک
وہ میری دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے

اُس نے ’خوشبو‘ ’خودکلامی‘ ’صد برگ‘، ’انکار‘ اور ‘کفِ آئینہ’ جیسے ناقابلِ فراموش شعری مجموعوں کو تخلیق کر کے ’’ماہ تمام‘‘ کو اُردو ادب کے ماہِ ناتمام کے سپرد کر دیا۔

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
فقظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں