تحریر: عنایت اللہ شہزاد
’’ابوجان! میں نے آپ کو ای میل کردی ہے، یہ میرے پسندیدہ کھانوں کی لسٹ ہے ، میں جب واپس آؤں گی تو آپ نے یہ سب مجھے کھلانا ہے، اچھا ابو میں نے علی کے لئے سرپرائز گفٹ خریدا ہے، سوہا کے لئے کپڑے بھی لئے ہیں، امی جان اور آپ کے لئے ابھی کچھ نہیں لیا مگر ابھی تو 20دن باقی ہیں نا واپس آنے میں؟ تو کیوں اتنی جلدی ساری چیزیں خریدوں؟
سبیکا عزیز شیخ امریکی شہر ہیوسٹن سے ویڈیو کال کے ذریعے اپنے والد سے مخاطب تھیں، وہ اپنے ابو عبدالعزیز شیخ کو بولنے کا موقع نہیں دے رہی تھیں اور مسلسل بات کئے جارہی تھیں، ان کے ابو خاموشی سے ان کی باتیں سن رہے تھے اور مسکرائے جارہے تھے۔
سبیکا نے بات ختم کی تو ان کے والد نے کہا کہ ’’ سبی آپ کی امی اور میرے لئے آپ سے بڑھ کر اور کیا تحفہ ہوسکتا ہے، کھانا تو آپ کو گھر میں بھی پسند کا ہی ملے گا اور ہاں باہر کے جتنے بھی آپ کے پسندیدہ ریسٹورنٹس ہیں وہیں لے چلوں گا اپنی پیاری بیٹی کو لے کر‘‘۔ سبیکا نے تھینک یو بابا کہا اور ساتھ ہی آئی مس یو سو مچ کہتی ہوئی کال منقطع کردی، عبدالعزیز نے مسکراتے ہوئے مس یو ٹو مائی لو کہا اور ای میل کھول کر سبیکا کے پسندیدہ کھانوں کی لسٹ دیکھنے لگے۔
سبیکا عزیز شیخ کراچی کے رہائشی عبدالعزیز شیخ کی ہونہار بیٹی تھیں، بچپن سے ہی ذہانت کے اعتبار سے نہایت ہی قابل، محنتی اور پراعتماد شخصیت کی مالک تھیں، اسکول میں ہمیشہ اچھی پوزیشن حاصل کرتی تھیں، غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں اورمختلف مقابلوں میں فرسٹ پرائز لے کر ہی گھر لوٹتی تھیں۔ عبدالعزیز کی یہ قابلِ فخر صاحبزادی اگست 2017میں یوتھ ایکسچینج اسکالرشپ کے تحت امریکہ چلی گئیں۔
اس اسکالرشپ کے حصول کے لئے پاکستان بھر سے ہزاروں امیدوار امتحان دیتے ہیں اور ان میں سے 70یا 80 امیدواروں کو اسکالرشپ کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔ سال 2017میں پاکستان بھر سے 6000سے زائد طلباء و طالبات نے اس اسکالرشپ کے لئے ٹیسٹ دیئے، اور ان میں سے کم و بیش 78 امیدواروں نے انٹرویو بھی کوالیفائی کر لیا، سبیکا شیخ بھی ان میں سے ایک تھیں۔
سبیکا کو اسکالرشپ میں کامیابی کی خبر ملنے کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو پیغام دیا،جس میں وہ کہتی ہیں کہ جب ان کے ابو نے ان کو بتایا کہ انہوں نے اسکالرشپ کے حصول میں کا میابی حاصل کی ہے تو انہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا، ان کے ابو نے ان کو یقین دلایا کہ انہیں ایک کال موصول ہوئی ہے جس میں کہا گیا کہ سبیکا کا انتخاب اسکالرشپ میں کے لئے ہوگیا ہے۔ سبیکا نے اپنا ای میل چیک کیا تو کوئی ای میل موصول نہیں ہوئی تھی، وہ پریشان ہوگئی تو ان کے ابو نے کہا کہ صبح تک میل آجائے گی لہٰذا سبیکا نے بے صبری سے صبح تک انتظار کرنے کے بعد ای میل ایک بار پھر چیک کیا تو ادارے کی طرف سے ای میل آچکی تھی۔
سبیکا کہتی ہیں کہ ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور وہ بے قراری سے اگست کے مہینے کا انتطار کرنے لگی کیونکہ اگست سے لے کر جون تک امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن کے نزدیک ایک اسکول میں ان کو تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا موقع مل چکا تھا۔ امریکہ جانے کے سبیکا بہت خوش تھیں، یوتھ ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکا جانا بچپن سے ان کا خواب تھا، ان کا یہ خواب بڑی محنت اور کوششوں کے بعد پورا ہوگیا تھا، وہاں پر بھی انہوں نے اپنی محنت جاری رکھی اور بہت جلد اپنے اساتذہ کے پسندیدہ طلبہ میں شمار ہونے لگی۔
پڑھائی کے ساتھ ساتھ سبیکا امریکی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے بھی جاننے کا شوق رکھتی تھیں، مگر انہیں پاکستان کی طرزِ زندگی زیادہ عزیز بھی تھی اور پسند بھی، یہی وجہ ہے کہ سبیکا کو پاکستان کی یاد ستاتی رہتی تھی۔ وہ بے صبری سے اپنے واپسی کے دن گنتی رہتی اور اپنے ابو کو بتاتی رہتی تھیں، خدا خدا کرکے محض 19دن باقی رہ گئے تھے، واپسی کی خوشی میں وہ صبح جلدی اٹھیں اور تیار ہوکر اسکول گئیں، مگر انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ دن ان کی زندگی کا آخری روز تھا۔
اٹھارہ مئی کو سبیکا صبح اسکول پہنچتے ہی کلاس روم میں دوستوں کے پاس بیٹھی تھیں، ان کا ایک ہم جماعت لڑکا اندر داخل ہوا،دونوں ہاتھ پھیلاتے ہوئے سرپرائز بولا تو کلاس میں موجود تمام اسٹوڈنٹس اس کی جانب متوجہ ہوگئے، پھر اس نے پستول نکالی اور فائرنگ شروع کی، گولی لگنے سے 20سے زائد طالب علم زخمی ہوئے جبکہ 10افراد زندگی کی بازی ہار بیٹھے، بد قسمتی سے سبیکا بھی ان افراد میں شامل تھیں، سبیکا اور سبیکا سے جڑے تمام خواب محض چند منٹوں میں ریزہ ریزہ ہوچکے تھے۔ واپس آنے کی خوشی میں اسکول جانے والی سبیکا کو معلوم نہیں تھا کہ اب وہ کبھی اپنے ماں باپ کے پاس واپس نہیں جا سکتی۔
فائرنگ کرنے والے دہشت گرد کو گرفتار کر لیا گیا، تفتیش کے بعد کہا گیا کہ لڑکا کسی ذہنی بیماری یا ڈپرشن کا شکار تھا مگر کسی امریکی ذمہ دار نے یہ نہیں کہا کہ لڑکا دہشت گرد تھا، شاید انہیں اب بھی یہ وہم ہے کہ دہشت گردی صرف مسلمان ممالک میں ہوتی ہے اور امریکہ میں جو دہشت پھیلاتے ہیں وہ دہشت گرد نہیں بلکہ ڈپرشن کا شکار ہوتے ہیں۔ شاید وہ یہ سب اس لئے کر رہے ہیں تاکہ مسلمان ممالک کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کے ان کے رویے میں نرمی نہ لانی پڑے۔
دوسرا اہم سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ اگر وہ لڑکا کسی ذہنی یا نفسیاتی بیماری کا شکار تھا کیا تو پوری دنیا میں سب سے اچھے اساتذہ رکھنے کے دعویدار امریکی محکمہ تعلیم کا ایک بھی ایسا ٹیچر نہیں تھا جس نے اس لڑکے کی نفسیاتی پہلو پر غور کیا؟ ہم امریکی حکومت سے یہ بھی سوال کر سکتے ہیں کہ ان کے بقول امریکہ میں دنیا کا سب مظبوط قانونی ادارے ہونے کے باوجود اس لڑکے کو بندوق کہاں سے ملی؟
مجھے آج بھی یاد ہے جب 16دسمبر2014کو پشاور آرمی پبلک اسکول میں حملہ ہوا تھا تو مغربی میڈیا پاکستان کو فیل اسٹیٹ قرار دے رہا تھا۔ مجھے سب سے زیادہ تکلیف اس وقت ہوئی تھی جب اس سانحے کے فوراً بعد بجائے پاکستان کا دورہ کرکے دکھ میں ساتھ دینے کے اس وقت کے امریکی صدرباراک اوبامہ نے بھارت کا دورہ کیا اوران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کر کے واپس چلے گئے۔
سبیکا تو چلی گئی لیکن امریکہ اور ان تمام ممالک کے لئے سبق دے گئی جو پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے کہ دہشت گرد کوئی بھی ہو سکتا ہے اور کسی ایک مذہب کے پیروکاروں یا مخصوص ریاست کو دہشت گرد قرار دے کر بدنام کرنے کی سازش کرنیوالے خود بھی اسی گڑھے میں گر سکتے ہیں۔ دعاگو ہوں کہ رب العالمین سبیکا کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام سے نوازے اور ان کے لواحقیں کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، ثمہ آمین