امریکی ریاست ٹیکساس میں شہرہوسٹن کے سانٹا فے ہائی اسکول میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس میں سترہ سالہ پاکستانی طالبہ سبیکا شیخ سمیت 10 طالبعلم جاں بحق ہوئے، پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کرلیا۔
ایک روز بعد امریکا میں موجود پاکستانی سفارت خانے نے واقعے میں ہلاک ہونے والی پاکستانی طالبہ کی شہادت کی تصدیق کی اور بتایا کہ سبیکا شیخ ایکسچینج ایئر پروگرام کی طالبہ تھی، وہ گزشتہ سال21 اگست کو یوتھ ایکسچیج اینڈ اسٹڈی پروگرام کے تحت تعلیم حاصل کرنے امریکا گئی تھیں اور6جون کو اُسے وطن واپس آنا تھا مگر اب یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ اپنے گھر پر زندہ لوٹ سکے۔
سبیکا کا جسد خاکی گزشتہ روز نجی ائیرلائن سے دو روز کا سفر طے کرنے کے بعد کراچی ایئرپورٹ پہنچا جہاں اے ایس ایف نے میت کو امریکی سفارت خانے کے قونصل جنرل اور والد کے حوالے کیا جس کے بعد مقتولہ کو سخت سیکیورٹی میں گھر منتقل کیا گیا۔
علم کی شمع کو تقویت دینے کے لیے امریکا جانے والی پاکستانی طالبہ کراچی کے علاقے گلشن اقبال کی رہائشی تھیں وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی اور ذہین تھیں، والدہ بہن بھائی اور لواحقین غم سے تاحال نڈھال ہیں اور مقتولہ کے کمرے میں رکھی شیلڈ و اعزازت کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ وہ اب اس کی یادگار ہیں۔
وزیراعظم ، گورنرسندھ اور مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین سمیت سب نے ہی سبیکا کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا، امید تھی کہ اس معاملے کو حکومتی سطح پر اُسی طرح اٹھایا جائے گا جیسے امریکا ہم پر الزام عائد کرتا ہے مگر کسی نے دہشت گردی کے واقعے پر لب کشائی کی زحمت تک گوارا نہ کی اور نہ ہی ٹرمپ انتظامیہ کو آئینہ دکھایا۔
اسی اثناء مجھے وہ واقعہ بھی یاد آیا کہ اسلام آباد میں موجود امریکی سفارت خانے کا ایک اہلکار کرنل جوزف تھا جس نے وفاقی دارالحکومت کے رہائشی عتیق نامی نوجوان کو نشے کی حالت میں گاڑی چلاتے ہوئے روند ڈالا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ کو ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا مگر وزارت داخلہ نے کرنل جوزف کو بلیک لسٹ قرار دے کر رپورٹ عدالت میں جمع کرائی تھی۔
حیران کُن طور پر وہ مذہبی جماعتیں جو ریمنڈ ڈیوس اور کرنل جوزف کے معاملے پر چیخ چیخ کر احتجاج کررہی تھیں اور یہ ثابت کررہی تھیں کہ اگر مذکورہ ملزمان واپس چلے گئے تو یہ ملک کی ساکھ کو متاثر کریں گے وہ بھی سبیکا کے معاملے پر ایک لفظ تک نہ بول سکیں۔
پوری قوم سمجھ رہی تھی کہ اب کرنل جوزف کو پاکستانی قوانین کے تحت سخت سزا دی جائے گی مگر ہماری بے حسی اور مہمان نوازی اس قدر کی تھی کہ خود ہم نے خصوصی امریکی طیارے سے اُس مہمان کو روانہ کردیا اور بات تین روز بعد میڈیا کی زینت بنی جس کے بعد یہ معاملہ بھی ریمنڈ ڈیوس کی طرح عمر بھر کے لیے دب گیا۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اور امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی باتیں کرتے کرتے اتنے مجبور کیوں ہوجاتے ہیں؟ آخر کیوں ہم اپنی بیٹیوں کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے آواز نہیں اٹھا سکتے جبکہ یہ ٹرمپ کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد ایوان یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ اب امریکا سے برابری کی بنیاد پر تعلق رکھے جائیں گے۔
آخر کیوں ہم اتنے بے بس ہوگئے کہ اپنی ہی بیٹی کے قاتل کو دہشت گرد تک کا لفظ نہ کہہ سکے بلکہ ستم ظریفی تو یہ بھی رہی کہ سبیکا کے لیے کسی نے لفظ ’شہادت‘ تک استعمال کرنا گوارا نہیں کیا اسی طرح بے گناہ نوجوان عتیق کو بھی ہم ہلاک ہی کہتے رہے۔
کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ہم سبیکا کے معاملے میں بے بسی کی تصویر بننے کے بجائے کرنل جوزف اور ریمنڈ ڈیوس کی طرح اپنی بے گناہ بیٹی کے قاتل کو سفارتی طریقے سے پاکستان لائیں اور اُس کو قرار واقعی سزا دیں؟ اگر نہیں ہوسکتا تو صاحب اقتدار اس بات کو تسلیم کریں کہ 70 سال بعد اور ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی ہم آزاد نہیں بلکہ غلام قوم ہیں اور یہ بڑھکیں محض باتیں ہی ہیں۔