قدرت نے یہ قانون اور ضابطہ طے کردیا کہ کسی بھی جاندار مخلوق کی پیدائش مؤنث کی کوکھ سے ہوتی ہے، انسان اور بالخصوص اگر مرد کی بات کی جائے تو اُسے بھی ایک عورت اپنے رحم میں 9 ماہ تک رکھتی اوردنیا میں لانے تک اُس کا بھرپور خیال رکھتی ہے۔
پیدائش کے بعد یہ سلسلہ ختم یا تھم نہیں جاتا بلکہ تربیت، دیکھ بھال کا کام بھی ایک عورت نے ہی کرنا ہوتا ہے، ایک بات جسے اکثر طارق عزیز دہراتے ہیں وہ یہ کہ’مرد کا کام گھر بنانا اور عورت کی ذمہ داری اسے سجانا سنوارنا ہے ‘۔
مرد پیدائش کے ساتھ ہی شاید ایک غیرت کا جذبہ لے کر پیدا ہوتا ہے بعض اوقات تو اس معاملے میں وہ اتنا حساس ہوجاتا ہے کہ غیرت کی ساری حدیں عبور کر کے بے غیرت بن جاتا ہے۔
ایک مرد جس کا پیدائش سے لے کر جوانی اور پھر بڑھاپے تک خیال رکھنے میں کسی نہ کسی صورت عورت کا کردار ہوتا ہے وہ اپنی برتری کو ہمیشہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ صرف ہمارے معاشرے میں نہیں بلکہ دنیا کے جدید ترقیاتی ممالک میں بھی کچھ اسی طرح کے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔
اب عورتوں کے عالمی دن (ویمنز ڈے) کی ہی بات کرلی جاوے تو بہت سارے مرد خواتین کے حقوق کی بات کرتے نظر آئیں گے اور اُن کی نظر میں یہ مطالبہ درست بھی ہوگا مگر جو حد انہوں نے مقرر کی اُس کے بعد وہ اسی مطالبہ کو غلط، ناجائز اور خرافات قرار دے کر قرآن و حدیث سے بھی ثابت کر بیٹھیں گے۔
اگر ہم بات کریں اپنے معاشرے اور بالخصوص ایشیائی ممالک کی تو یہاں پر ایک سوچ پائی جاتی ہے، جو اپنی والدہ کو خراج تحسین تو پیش کرتی ہے مگر جب کوئی اپنے نام کے ساتھ والدہ کا نام لگائے تو پڑھے لکھے لوگ بھی اپنی تعلیم و تربیت بھول کر شدت پسندی کی عکاسی کرتے ہیں۔
خدائے رب ذوالجلال نے حضرتِ آدم علیہ السلام کے ساتھ اماں حوا کی تخلیق کر کے اس برتری کو برابر کرنے کی مثال قائم کی، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم ، آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی ازواج مطہرات اور بالخصوص ابتدائی دو جن سے آپ اپنے دل کی ہر بات کرلیتے تھے یہ تمام باتیں برتری کو ختم کر کے ایک سبق دیتی ہیں کہ عورت اور مرد ایک جوڑ ہے جو ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔
عورت کا ایک روپ نہیں یہ ہر صورت آپ کی ساتھی ہوتی ہے، کبھی ماں، کبھی بہن ، کبھی بیٹی تو کبھی شریک حیات کی شکل میں، دنیا میں آنے والا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس کا بلواسطہ یا بلاواسطہ خاتون (عورت) سے کوئی تعلق نہ جڑا ہوا۔
جب ایسا ہے تو پھر برتری اور ابتری کا تصور ختم کیا جائے، ہاں شرعی طور پر مرد کو ایک درجہ اونچا مقام تفویض کیا گیا ہے جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ خواتین کی تضحیک ، تذلیل کرے یا پھر ایسی سوچ کے ساتھ معاشرے میں رہے کہ گویا عورت رعایا اور صرف خادم ہے بلکہ اس کا مقصد مرد کی جسمانی قوت کے سبب اس پر خواتین سے زیادہ ذمہ داریاں عاید کرنا ہے ، خصوصاً کسبِ معاش کی ذمہ داری مرد کی دی گئی ہے۔
تحریر کے آخر میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ آج کے دن تمام مرد اپنے پورے دن کا جائزہ لیں، صبح جاگنے سے رات کو سونے تک، اس دوران خاتون کی صورت میں آپ کے ارد گرد رہنے والی ماں، بہن ، بیٹی اور بیوی کیا کچھ نہیں کرتے، آپ کو کپڑے استری، گھر کی صفائی، کھانا پکانے، بچوں کی پرورش، گھر کے نظم و ضبط کی فکر نہیں ہوتی کیونکہ آپ نے اپنے ذمہ صرف ایک ذمہ داری یعنی پیسے کمانا لے رکھی ہے باقی وہ آشیانہ جہاں آپ سکون کی خاطر آتے ہیں اس کو سجانے سنوارنے اور گھر بنانا عورت کا ہی کام ہے جو آپ کسی صورت بھی احسن انداز سے انجام نہیں دے سکتے لہذا اپنے ارد گرد موجود خواتین کی قدر کیجئے کہ انہی کے دم سے آپ کی زندگی میں نظم وضبط قائم ہے۔