مسلم لیگ ن نے کئی برسوں تک پنجاب پر حکمرانی کی، کسی آمر کا دور ہو یا پھر جمہوری شاید ہی کوئی ایسا دور گزرا ہو کہ ن لیگ کا کوئی رکن پنجاب اسمبلی کا حصہ نہ بنا ہو۔اگر صرف گزشتہ پانچ برسوں کی بات کرلی جائے تو مسلم لیگ ن نے واضح اکثریت کے بعد وفاق اور پھر پنجاب میں حکومت بنائی، مخالف جماعتوں نے اکثر یہ الزامات بھی عائد کیے کہ اب ہر سرکاری ادارے میں مسلم لیگ کے ہمدرد موجود ہیں حتیٰ کہ پولیس کا محکمہ بھی پٹواریوں سے بھرا ہوا ہے۔
مسلم لیگ ن کی صوبائی یعنی پنجاب حکومت نے 2014 میں پاکستان عوامی تحریک کے مرکز ماڈل ٹاؤن سے رکاوٹیں ہٹانے کے لیے آپریشن کیا اور پولیس کا استعمال کرتے ہوئے 14 انسانی جانوں کے چراغ گل کیے، ان سب تمام لوگوں کا تعلق تحریک منہاج القرآن سے تھا۔ بعد ازاں منہاج القرآن کے بانی اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے 2014 میں ہی وطن واپس آنے کا اعلان کیا تو اُس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے علامہ اقبال ائیرپورٹ جانے والے تمام راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں، کارکنان کے خلاف ایک روز قبل کریک ڈاؤن کیا، موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند کرنے کے ساتھ سڑکوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی جس نے مختلف علاقوں سے آنے والی ریلیوں کو روکا اور آخری وقت میں تو یہ تک ہوا کہ جہاز کا رخ موڑنے کی بھی کوشش کی گئی۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دو برس قبل چار حلقوں کے کھولنے کا مطالبہ کیا اور پنجاب کے لوگوں میں سیاسی شعور پیدا کرنے کی کوشش کی تو ان ہی شہباز شریف نے تحریک انصاف کے کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ، سیاسی جلسے ناکام بنانے کے لیے ریاستی مشینری کا ہر طریقے سے استعمال کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ ’وقت ایک جیسا نہیں رہتا‘ بالکل اب وقت تبدیل ہوچکا، نوازشریف پاناما کی گرفت میں آئے، کرپشن کی تحقیقات ہوئیں اور اُن پر جرم ثابت ہوا جس کے باعث قومی احتساب بیورو کی عدالت نے انہیں ، بیٹی، داماد اور بیٹوں کو مجرم قرار دیتے ہوئے قید و جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی۔
ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے سے قبل نوازشریف اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی عیادت کے لیے لندن روانہ ہوگئے اور وہیں بیٹھ کر انہوں نے عدالتی فیصلہ سُنا اور اس کے بعد عدالتِ عظمیٰ پر خوب زبانی حملے بھی کیے ، اب وہ اپنے اعلان کے مطابق پاکستان واپس آرہے ہیں تو مسلم لیگ ن کے رہنما اور مرکزی قیادت سمیت کارکنان نے ائیرپورٹ پر استقبال کے لیے پہنچنے کا اعلان کررکھا ہے مگر نگراں حکومت نے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر اقدامات کیے۔حکومتی اقدامات پر مسلم لیگ کی قیادت نے اعتراضات اٹھائے اور الزامات بھی عائد کیے، میں کراچی میں بیٹھ کر لاہور کی سیاست پر تبصرہ تو نہیں کرسکتا البتہ وہاں موجود دوستوں سے جو اطلاعات ملیں اُن کی بنیاد پر بس اتنا ہی کہ سکتا ہوں کہ ’مسلم لیگ نے جو بویا وہی کاٹ رہی ہے‘۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں