The news is by your side.

زمانے کی دھول میں گم شدہ کردار

وقت کے ساتھ ساتھ معاشرہ تغیر و تبدیلی کے عمل سے گزرتا رہتا ہے سماجی علوم کے ماہرین کے مطابق ہر تیس سال کے بعد معاشرتی اقتدار رسم رواج تک تبدیل ہوجاتے ہیں اگرآج سے تیس سال پہلے کا کوئی شخص زندہ ہوکر واپس آجائے تو اس کے ردعمل سے ہمیں یہ پتا چلے کہ سماج میں کیا تبدیلی آئی ہے کیونکہ ہم زندہ انسان ان تبدیلوں کو اس لئے محسوس نہیں کرتے کہ یہ بہت آہستہ سے آتی ہیں اور ہم وقت کے ساتھ ان تبدیلیوں سے سمجھوتہ کرتے چلے جاتے ہیں۔اس سماجی تبدلی کی زد میں کئی معاشرتی کردار اور پیشے بھی وقت کے گرداب میں کہیں گم ہو جاتے ہیں آج میں ایسے ہی کرداروں اور پیشوں کو جن کا وجود ہمارے معاشرے میں گم ہوگیا کو موضوع بناؤں گا ۔

میراثی


پاک و ہند کے معاشرے میں میراثی کا کردار بہت اہم رہا ہے ایک دور تھا جب کسی کی بیٹی کو دیکھنے جانا معیوب تصور کیا جاتا تھا۔ رشتے کروانے کا کام میراثی کیا کرتے تھے، اسے ہی پتہ ہوتا تھا کہ کس کے گھر کتنے بیٹے اور بیٹیاں ہیں اور کون شادی کی عمر کو پہنچ چکا ہے صرف میراثی یہ پیغام لے کر لڑکی والوں کے گھر جاتا تھا کہ ان کی بیٹی کے لئے فلاں گھر کارشتہ آیا ہے۔ لڑکے لڑکی کے ماں باپ اور میراثی کے علاوہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا تھا کہ رشتہ آیا ہے رشتہ کی ہاں ہوجاتی توٹھیک لیکن اگر لڑکی والوں نے انکار کردیا ہے تو اس بات کو چھپانے میں ہی عزت محسوس کی جاتی تھی اور کیا مجال کہ میراثی کے منہ سے کوئی بات باہر نکلے وہ اس راز کوتمام عمر کیلئے اپنے سینے مین دفن کرلیتا تھا۔

 

میراثی کا ایک اور اہم کام کسی خاندان کے حسب نسب کو یاد رکھنا تھا ہر خاندان کا ایک میراثی خاندان ہوتا تھا جو کہ اس کے شجرہ نسب کو یاد رکھتا جب ایک میراثی خاندان کا بڑا زندگی کی آخری گھڑیاں گزار رہا ہوتا تو اپنے بیٹے کو یہ شجرہ نسب یاد کروا دیتا اور اس طرح یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا۔ انہیں عام طور پر خاندانی میراثی کہا جاتا تھا یہ خاندانی میراثی ناصرف اس خاندان کا شجرہ نسب یاد رکھتے بلکہ ان کے آباو اجداد کیا کرتے تھے، کیسے کیسے واقعات ان کے دادا پڑداد کی زندگی پیش آئے ان کو ازبر ہوتے تھے ۔

ان کی روزی روٹی کا دارومدار بھی اس پیسے پر ہوتا تھا جو کہ ان خاندانوں کی طرف سے ان کو وقتاً فوقتاً دیا جاتا بعض بڑے خاندانون نے ان کا وظیفہ تک مقرر کر رکھا تھا یا فصل کی کٹائی پر اناج کی صورت میں ان کی مدد کی جاتی تھی خاندان میں شادی ہو یا کسی کی موت واقع ہوجائے تو رشتہ داروں کو پیغام پہنچانے کا فرض انہیں کے سر ہوتا تھا ۔ شادی کی صورت میں یہ کئی کئی مہینہ پہلے آکر ڈیرے ڈال دیتے اور شادی کی تیاری میں ہاتھ بٹاتے اگر کسی خاندان مییں کوئی موت واقع ہوجاتی تو ختم دعا اورخاندان کے نئے سربراہ کی دستار بندی پر ان کی موجودگی لازمی ہوتی تھی ۔ایک اور اہم بات یہ تھی کہ یہ لوگ فخر سے بتایا کرتے کہ ہم فلاں خاندان کے میراثی ہیں۔ ان کی اپنی برادری میں ان کی حیثیت کا تعین بھی اس سے کیا جاتا تھا کہ کون کتنے بڑے خاندان کا میراثی ہے، اسی کی دھائی تک یہ کردار معاشرے میں موجود رہا لیکن پھریہ کئی دوسرے پیشوں سے وابستہ ہوگے اور آہستہ آہستہ اب نہ ہونے کے برابر ہیں ۔

نائی (حجام)


تقریباً اسی کی دھائی تک ہر گھر کے مردانہ حصہ میں صبح سویرے ایک شخص جو کہ دھوتی کرتے میں ملبوث ہوتا، ایک چھوٹے صندوق کے ساتھ آ بیٹھتا اسے حجام نائی یا بعض اوقات عزت سے خلیفہ جی کہہ کر بھی پکارا جاتا تھا ۔ اس کےصندوق میں اس کے اوزار، استرہ قینچی ہاتھ سے چلائی جانے والی بال کاٹنے کی مشین کے ساتھ ایک سفید رنگ کا کپڑا کالے رنگ کا پتھر اور پٹھکری ہوتی ۔ اس زمانے میں حجام کی دوکانیں تو ہوتی تھیں لیکن لوگ زیادہ تر اسی نائی سے جو کہ روزانہ ان کے گھر ہی آجاتا تھا شیو بناتے یا حجامت کروایا کرتے تھے گھر میں پیدا ہونے والے نومولود کے پہلے بال وہی کاٹتا تھا جس پر اسے گھر کے لوگ انعام و اکرام سے بھی نوازتے اور مٹھائی یا اناج بھی دیئے جاتے۔

 

دیہاتوں میں تو یہی نومولود بچے کے ختنہ تک کیا کرتے تھے۔ صبح آتے ہی وہ سب سے پہلے گھر کے بڑے کی شیو بنایا کرتے اور پھر گھر کے دوسرے لوگ یہاں تک کہ ملازم تک اسی سے حجامت یا شیو کروایا کرتے تھے۔ ان نائیوں کا ایک اور کام شادی بیاہ کے موقع پر کھانا پکانا ہوتا تھا اکثر نے دیگیں کرچھے اور دوسری پکانے والی اشیا اپنے پاس ہی رکھی ہوتیں تھیں ۔گھر میں کوئی وفات پاجائے تو ختم کا کھانا پکانا بھی انہی کا کام ہوتا تھا ۔ شادی بیاہ پر بلاوے کیلئے بھی خلیفہ جی کو ہی تکلیف دی جاتی اور وہ جہاں بھی جاتا، بلائے جانے والا اسے کرایہ اور ییسے دیا کرتے ۔ عید اور شب بر ات پر علیحدہ سے بخشش دی جاتی ۔ میراثی کی طرح اس کی روزی کا داورومدار انہی عنایتوں بخششوں پر ہوتا تھا۔ زرعی علاقوں میں انہیں فصل آنے پر اناج ہر چھ ماہ بعد دیا جاتا اسی اناج کے عوض وہ یہ سارا کام کیا کرتے تھےماہانہ تنخواہ بہت کم لوگ دیا کرتے تھے اور وہ بھی بڑے شہروں میں۔

ماشکی


ایک مضبوظ جسم کا شخص جس نے اپنے کندھے پر چمڑے کی ایک مشک ڈالی ہوتی تھی ماشکی کہلاتا تھا اس کا کام گھروں میں پانی فراہم کرنا ہوتا تھا۔ اس دور میں پانی کی موٹریں سرکاری پانی کےنل نہیں ہوا کرتے تھے اس لئے زیادہ تر لوگوں کا انحصار انہی ماشکیوں پر ہی ہوا کرتا تھا، نلکا بھی کسی کسی گھر میں ہوتا تھا اور وہ بھی امیر لوگوں کے گھر، نلکا کسی نعمت سے کم نہ ہوتا تھا ماشکی دور کسی کنویں یا ندی نالے سے پانی بھر کر لاتا اور ہر گھر میں رکھے ہوئے مٹی کے گھڑوں میں ڈال دیتا جو کہ سارا دن استعمال کیا جاتا کھانا پکانے سے لیکر نہانے تک یہی پانی استعمال کیا جاتا۔

 

ان وقتوں میں اس پیشے کی اس وقت کیا اہمیت ہوتی ہو گی کہ جس دن وہ نہ آتا ہوگا پورا گھر پانی پانی کو ترستا ہوگا لیکن پھر زمانے نے کروٹ لی ،پہلے ہینڈ پمپ یعنی نلکے عام ہوئے تو ہر گھر میں نلکا آگیا جس سے ہر وقت تازہ پانی حاصل کیا جا سکتا تھا پھر انگریز دور میں میونسپل کیمٹیاں بنی تو سرکاری پانی فراہم کیا جانے لگا لیکن پھر بھی یہ ماشکی کہیں کہیں کسی جگہ چھڑکاؤ کرتے ہوئے نظر آجاتے۔ لیکن جیسے ہی بجلی کے موٹرپمپ لگنا شروع ہوئے تو یہ پیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا اگر یہ کہا جائے کہ ساٹھ کے عشرے میں ہی اس پیشے سے وابستہ لوگ غائب ہونا شروع ہوگئے تھے تو غلط نہ ہوگا۔

ڈاکیا


خاکی وردی میں ملبوث سر پر خاکی طرہ دار پگڑی پہنے سائیکل پر سوار ڈاکیا کے انتظار ہر گھر کو رہتا تھا، کسی کو شادی منگنی کے دعوت نامہ کا انتظار ہوتا تو کوئی اپنے کسی رشتہ دار کے بیٹے بیٹی کے عقیقہ سالگرہ یا رسم ختم قران خوانی کی دعوت کا۔ کسی عاشق کی آنکھیں اس نامہ بر کی تلاش میں ہر وقت دروازے پے لگی رہتی ۔ کوئی ماں اپنی اولاد کے خط کی منتظر ہوتی کہ اس کی خیر خیریت معلوم ہوتی رہے ۔ تو کوئی بوڑھا باپ اپنے بیٹے کے بھیجے ہوئے منی آڈر کا انتظار کررہا ہوتا۔

کسی گاؤں محلہ میں جیسے ہی وہ داخل ہوتا ہر ایک کے دل کی دھڑنک تیز ہوجاتی ۔ بعض اوقات تو وہ کسی رشتے دار کے مرنے کی اطلاع لاتا جیسے مرے ہوئے بھی ایک ہفتہ گزر گیا ہوتا ۔ کوئی طالب علم اپنے نتیجہ کے انتظار میں بار بار اس کو راستہ روک لیتا تو کوئی ریٹائرڈ سرکاری ملازم اسے روک کر اس سے گلہ کرتا کہ اس کے پینشن کے پیسے جو آنے تھے وہ جان بوجھ کر نہیں لاتا ۔رمضان کے دنوں میں اس کا کام دو گنا ہوجاتا پہلے ہفتہ ہی گزرتا کہ عید کارڈ آنے کا تانتا بندھ جاتا ایسا بھی ہوتا کہ ڈاکیا صاحب آنے والے عید کارڈ کو عین عید سے ایک ہفتہ پہلے دینا شروع کرتا اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ عید کارڈ لینے والا اسے عیدی بھی دے دیتا ،جتنے کارڈ اتنی ہی زیادہ عیدی لیکن عید والے دن وہ پھر عید ی کیلئے آدھمکتا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب کہ خط ہی رابطہ کا واحد ذریعہ تھا لہذا معاشرے میں اس پیشے کی اہمیت بھی تھی لیکن پھر کہیں کہیں ٹیلفون لگنا شروع ہوگئے سب سے پہلے ڈاک خانوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر ٹیلفون لگائے گئے جہان لوگ خود آکر ٹیلفون نمبر دے کر آدھا گھنٹہ کال ملنے کا انتظار کرتے بعد ازاں ہر گھر میں ٹیلفون آگیا لیکن ڈاکیے کی اہمیت کم نہ ہوئی لیکن جیسے ہی غیر ملکی کورئیر کمپنیوں کو لائسنس دیئے گئے اور پھرموبائل فون ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی متعارف ہوئی تو ڈاکیا ہمارے ذہنوں سے محو ہونا شروع ہوگیا، گو کہ نہ تو ڈاکخانہ کا محکمہ ختم ہوا اور نہ پوسٹ مین لیکن ان کی ضرورت اب اس طرح سے نہیں رہی جیسے ماضی میں ہوا کرتی تھی ، آج ہماری نئی نسل شاید ہی اس سے واقف ہو۔

ٹال والا


ملک میں سوئی گیس اور ایل پی جی آنے سے پہلے ہر شہر قصبہ اور گاوں میں ایک چیز ضرور نظر آتی تھی یہ تھی لکڑیوں کا ٹال۔ اس کی صورت کچھ یوں ہوتی تھی ایک کھلی جگہ پر کٹی ہوئی لکڑیوں کا ایک چوکور شکل ڈھیر لگا کر ایک جانب سے آراستہ چھوڑ دیا جاتا تھا اور مالک جوزیادہ تر پٹھان ہوتے تھے ان کی رہاش بھی چھوٹی سی جھگی یا چھوٹا کمرہ بھی وہیں ہوتا ۔ان کا کام لوگوں کو جلانے والی لکڑی فراہم کرنا ہوتا تھا کیوں کے اس دور میں یہی ایک واحد سستی چیز تھی جو کہ ایندھن کے طور پر استعمال کی جاتی تھی یہ کاروبار زیادہ تر شمالی علاقہ جات کے مضبوط جسم اور جفا کش لوگ کے ہاتھ میں تھے۔ ان کا کام گھروں کو جلانے کیلئے لکڑی فراہم کرنا ہوتا تھا گھر میں جیسے ہی لکڑیوں کا ذخیرہ ختم ہوتا کسی بچے یا ملازم کے ہاتھ پیغام بجھوا دیاجاتا کہ آکے لکڑیاں دے جائے ۔ ٹال والہ خواہ گھر سے کتنی دور ہوتا اپنے کندھے پر من دو من لکڑی اٹھا کر گھر ضرور پہنچاتا۔

 

اس ٹال والے کے بغیر کسی بھی گھر کا چولھا ٹھنڈا پڑ سکتا تھا لہذا ہر دوسرے تیسرے دن یہ ہر گھر میں اس کی آمد لازم تھی لیکن جیسے ہی سوئی گیس آئی ان ٹال والا کا کام ختم ہوتا چلا گیا اور آج دیکھنے کوبھی کہیں کوئی ٹال نہیں ملتی اور اس سے وابستہ ان جفا کش لوگوں نے دوسرے پیشے اختیار کرلئے ۔ ممکن ہے کسی دور آفتادہ علاقوں میں یہ پیشہ یا وہ تمام پیشے جن کا میں اوپر ذکر کرآیا ہوں آج بھی موجود ہو۔ لیکن پاک ہند کے وہ تمام علاقے جو جدید ٹیکنالوجی اور نئے سورس آف انرجی سے مستفید ہوچکے ہیں وہاں ان کا وجود ختم ہوچکا ہے ۔

 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں