تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے گریگوری پوتمکن کا نام نیا نہیں ہے۔ یہ وہی پوتمکن ہے جو روس کی عظیم ملکہ زارینہ کیتھرائن کے مصاحبوں میں شامل تھا جسے بعدازاں نئے مفتوحہ جنوبی صوبوں کریمیا وغیرہ کا گورنر تعینات کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب زارینہ ان صوبوں کے دورے پر آئی تو پوتمکن زارینہ کی مزید عنایات لینےکی غرض سے اپنے زیرانتظام علاقوں کی خوشحالی دکھانے کے لیے ایسے جھوٹے اور نمائشی گاؤں کیتھرائن کے پڑاؤ کے راستے میں بناتا رہا جنہیں زارینہ کے قافلے کے گزرنے کے بعد اکھاڑ کر اگلی منزل پر دوبارہ لگادیا جاتا۔ ایسے گاؤں میں پوتمکن کے اپنے ہی قابل اعتماد لوگ اور کارندے کسان اور دیہاتی بنے گھوم پھر رہے ہوتے تھے۔ فریب کی چادر تلے بنے ان دیہات میں چونکہ بہترین سہولیات اور ترقی دکھائی دیتی لہذٰا ملکہ پوتمکن سے مطمئن ہوکر اس پر مزید مہربان ہوتی گئی۔
اب ہم آتے ہیں اپنی بات پرکہ ہم کیوں آج گریگوری پوتمکن کو یاد کرنے بیٹھے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے ملک میں تعلیم کا شعبہ اور اسکی کارکردگی ہے۔ شواہد، اعداد و شمار، مشاہدات اور تجربات بتاتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم کی صورتحال بھی لگ بھگ پوتمکن کے گاؤں جیسی ہی ہے۔ جہاں دور سے تو سب بہترین اور قابل ستائش لگتا ہے لیکن تھوڑی سی گہرائی میں اترتے ہی اوپرکی لیپا پوتی غائب ہوجاتی ہے اور اندر سے وہی پرانا کھوکھلا بوسیدہ نظام نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے جسے تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سرکاری سرپرستی میں چلنے والے تعلیمی ادارے ہوں یا نجی، سب کی حالت کم و بیش ایک جیسی ہے جہاں درس و تدریس کے نام پر دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا۔
پاکستان میں سرکاری اسکول، کالج اور یونی ورسٹی عدم دلچسپی اور عدم توجہی کا منہ بولتا ثبوت بن چکے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب خبروں میں سرکاری اسکول میں جانوروں کا باڑہ بننے یا اسکول میں شادی ہال کھلنے کی خبر نہ آئے۔ یہ نہیں تو عمارت کی خستہ حالی یا اساتذہ کی کمی سامنے آجاتی ہے۔ فائلوں کی حد تک تو سرکاری تعلیمی ادارے پوتمکن کا ایسا مثالی گاؤں ہیں جو اپنے تعلیمی معیارکے باعث آپ کو چاند پر بھیجنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن کاغذی کارروائی سے باہرآتے ہی گھوسٹ اساتذہ، ٹوٹے نلکے اور بااثر افراد کا تعلیم کیلئے مختص جگہ کو اپنے ذاتی تصرف میں لانے ، گھوسٹ اسکول اور بچوں کے کھلے آسمان کے نیچے چٹائی پر بیٹھ کر پڑھنے جیسی سنگین صورتحال سامنے آجاتی ہے۔
ایسی بدانتظامی اور نااہلی بدقسمتی سے چاروں صوبوں میں یکساں ہے پھر بھی ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں کھوکھلے وعدوں سے ہٹ کراس جانب مکمل توجہ نہیں دے رہیں۔ کبھی غور کیجئے گا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اشتہارات کے ذریعے ترقی کا جو ڈھول یہ حکومتیں پیٹتی ہیں اس میں تعلیم کا اصلیت میں کتنا فیصد حصہ ہوتا ہے یا رنگ برنگی تصویروں کے ذریعے دکھایا جاتا ہے اور دعوٰے کے برعکس حقائق کی روشنی میں علم کی ٹمٹماتی شمع کس حال میں ہے۔
چھوٹے شہروں، قصبات اور دیہات کو چھوڑیں یہاں تو کراچی جیسے بڑے معاشی حب میں موجود جامعہ کراچی کے بھی اکثر شعبہ جات بدحالی کا شکار ہیں۔ کہیں فنڈ نہیں ہے توکہیں چھتوں کا پلستر گر گیا ہے۔ زیادہ تر لیب میں سہولیات کا فقدان ہے۔ کئی شعبے طالب علموں کی کمی کا شکار ہیں اور کہیں پوسٹ گریجویٹ سطح پر درکار انتظامیہ کی مستعدی اور عزم ہی ناپید ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کراچی یونی ورسٹی کے زیاہ تر اساتذہ بہترین معلم ہیں جو پوری جانفشانی سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں لیکن اب اس جامعہ کا معیار گررہا ہے کیونکہ نئے آنیوالے اساتذہ کے پاس ڈگری تو ہے لیکن علم منتقل کرنے والے جذبے کا فقدان ہے جبکہ درس و تدریس کا شعبہ قابلیت کے علاوہ دیانت دارانہ لگن کا متقاضی ہے۔ اس کے علاوہ فنڈز کی فراہمی اور انکا استعمال دوسرا اہم مسئلہ ہے جو فوری توجہ کا طالب ہے۔ کسی زمانےمیں بہترین جامعات میں شمار ہونے والی جامعہ کراچی کی اس ابتر صورتحال کی ذمہ داری کون اور کب اٹھائے گا؟ یہ سب عوامل ہیں ملکرگورنمنٹ سیکٹر کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کو پوتمکن کا گاؤں بنادیتے ہیں جہاں ہیں کواکب کچھ اور نظر آتے ہیں کچھ ۔
نجی سطح پر چلنے والے تعلیمی ادارے اور زیادہ بڑے پوتمکن کا گاؤں ہیں۔ یہاں کی تو چمک دمک ہی نرالی ہے۔ اسکول سے لے کراعلیٰ تعلیم تک، نجی تعلیمی شعبہ والدین کا زبردست مالی اور معاشی استحصال کررہا ہے۔ اس شعبے کے تحت چلنے والی اعلیٰ تعلیم کی درسگاہیں فیس کھینچنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ یہاں پڑھنے والے اکثر طالب علم اس بات سے ہی لاعلم ہوتے ہیں کہ زندگی کے ناقابل واپسی چار پانچ سال اور لاکھوں روپے لگانے کے بعد جو ڈگری ان کے ہاتھ آئے گی اسے ہائر ایجوکیشن کمیشن یعنی ایچ ای سی مانتی بھی ہے یا نہیں۔
اعلیٰ تعلیم کیلئے ایڈمیشن کے وقت بہت سے والدین یا خود طالب علم بغیر سوچے سمجھے سہولیات سے آراستہ شاندار عمارت اور الفاظ کے گورکھ دھندے پر مشتمل انٹرنیٹ پر کی گئی پبلسٹی کی بدولت ایچ ای سی سے غیر الحاق شدہ یونی ورسٹیز میں داخلہ لیکر پھنس جاتے ہیں- کئی دفعہ گورنمنٹ یونی ورسٹی کی ناگفتہ بہ حالت یا سہولیات کی کمی طلبا کو نجی سیکٹر کی طرف دھکیل دیتی ہے جبکہ کچھ نمود و نمائش کے ماروں کےنزدیک سرکاری اعلیٰ تعلیمی درسگاہیں کم فیس کی بدولت ’اسٹینڈرڈ‘ نہیں رکھتیں اس لئے وہ یہاں سے فارغ التحصیل طالب علموں کو خود ساختہ کمتری کے بریکٹ میں رکھ کر انکا مذاق بنائے رکھتے ہیں اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو پرائیوٹ سیکٹر کے ان دیکھے فوائد گنواتے رہتے ہیں۔ رہی سہی کسر سرکاری تعلیمی اداروں میں سیاسی جماعتوں کی طلبہ تنظیموں کی ہنگامہ آرائی پوری کردیتی ہے۔
در حقیقت نجی یونیورسٹیوں کی اکثریت معیار تعلیم کے معاملے میں بہت پیچھے ہے۔ کیونکہ یہاں توجہ فیس پر ہوتی ہے اس لئے اسٹوڈنٹ کی قابلیت کوامتحانات میں سخت مارکنگ کے ذریعے جلا بخشنے کے بجائے متعلقہ شعبے کی واجبی سمجھ بوجھ پر ہی ڈگری دے دی جاتی ہے تاکہ ادارے کے کریڈٹ پر پہلی دفعہ میں ہی ڈگری پانے والے طالب علموں کی عددی اکثریت رہے کیونکہ یہی پیمانہ انہیں نئے داخلوں کے پکڑنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ طلبہ کی قابلیت کی جانچ کا ایسا بناوٹی نظام پرائیوٹ سیکٹر کے ہر ادارے اور ہر جامعہ بشمول میڈیکل کالجز میں نافذ ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ جب اس میکنزم سے ڈگری یافتہ ڈاکٹر، انجینئر، آرکیٹیکٹ وغیرہ پیشہ ورانہ زندگی میں آتے ہیں تو متعلقہ شعبوں میں سنگین نقصان کا باعث بن جاتے ہیں۔ ان کے لئے محدود مہارت اور علم کے باوجود نوکری کے حصول میں آسانی یوں پیدا ہوگئی ہے کہ گزشتہ سالوں میں انہی اداروں کے فارغ التحصیل لوگ ہر جگہ ہیومن ریسورس کا شعبہ سنبھالے بیٹھے ہیں لہذٰا وہ، تو مجھے بچا میں تجھے بچاؤں کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
اسکول بنیادی اور ابتدائی تعلیم کا ذریعہ ہے جہاں بچے کی صلاحیتوں کو نکھار کر اسے اگلے مدارج کے لیے تیار جاتا ہے۔ والدین کے لیے بچے کی ابتدائی اسکولنگ بے حد اہمیت رکھتی ہے کیونکہ ہی وہ سال ہوتے ہیں جو بچے کی ذہنی استعداد میں اضافہ کرنے کے علاوہ اس کی کردار سازی میں کلیدی کردار ادا تے ہیں لہذٰا والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے بچے کے لیے بہتر سے بہتر درسگاہ کا انتخاب کریں۔ خوب سے خوب تر کی تلاش کے اس عمل کے دوران ان کےسامنے سرکاری اور نجی دونوں اسکول ہوتے ہیں۔ گورنمنٹ اسکول عموماً اردو میڈیم ہوتے ہیں اس لئے لوگوں کی اکثریت انہیں خاطر میں نہیں لاتی، یہ نکتہ وزن بھی رکھتا ہے کیونکہ آج کے دور میں انگریزی کے بغیر عملی زندگی کا تصور ناممکن ہے۔ پھر انٹرمیڈیٹ کے بعد توتقریباً تمام چھوٹے بڑے کورسز اور نصاب انگلش میں پڑھایا جاتا ہے ا سلئے اردو میڈیم کے پڑھے ہوئے طالب علم کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہےَ۔ ایسے میں وہ دلبرداشتہ ہوکر اپنی تعلیم ادھوری چھوڑدیتا ہے یا پھر اس کے پاس واحد حل یہ بچتا ہے کہ مزید پیسے خرچ کرکے کہ انگلش اسپیکنگ کا اضافی کورس کرے ۔ ذرا سوچیں کہ سفید پوش طبقہ جن کے مالی حالات ایسی اجازت نہیں دیتے وہ بے چارے کہاں جائیں؟ اسی وجہ سے فہم و ادراک رکھنے والے والدین استطاعت نہ رکھتے ہوئے بھی نجی اسکول کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
بس! یہیں سے پوتمکن کے تعلیمی گاؤں میں ان کا استقبال ہوتا ہے ۔ جہاں قدم قدم پر سہولیات سے آراستہ خوبصورت نقش ونگار، چارٹ، اقوال زریں اور کارٹون سے مزین عمارت میں ریسپشنسٹ سے لیکر چپراسی تک کا عملہ بچے کی مکمل ذمہ داری اٹھانے اور نبھانے کیلئے مسکراہٹ سجائے قواعد و ضوابط سمجھاتا نظر آتا ہے۔ بڑے نامی گرامی اسکولوں کی تو بات ہی کرنا عبث ہے کہ ان کے نخروں کو اٹھانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں لیکن متوسط طبقے کی پہنچ میں سمجھے جانے والے اسکول بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔
آپ کسی پرائیوٹ اسکول میں بچے کا ایڈمیشن کروانے چلے جائیں یا اخبار میں ان کی طرف سے دیا گیا ’ضرورت ٹیچر‘ کا اشتہار دیکھ لیں۔ بے جا لفاظی اورجملوں کے الٹ پھیر میں ان اسکولوں کے ایچ۔ آر والے آپ کو چکرا کر رکھ دیں گے۔ معلوم ہوتا ہے کوئی درمیانے درجے کا اسکول نہیں بلکہ پروٹوکول اور شاہی آداب سے بھرپور کوئی دربار ہے جہاں آپ کی حاضریاں لگ رہی ہیں اور تمام ترذہنی کوفت اور مالی بوجھ اٹھانے کے باوجود آپ کو پھر بھی حقارت سے دیکھا جارہا ہے۔ ایڈمیشن کے مراحل میں اکثر سادہ لوح والدین جنمیں کم پڑھی لکھی گھریلو ماؤں کی تعداد زیادہ ہے، انٹرویو میں فیل ہوجاتے ہیں اوراگر والدین انتظامیہ کو بھا جاتے ہیں تو بچہ ٹیسٹ یا انٹرویو میں ناکام ہوجاتا ہے۔ ایسے میں عموماً اپنی مالی پوزیشن شو کرتے ہوئے فیس اور اضافی اخراجات برداشت کرجانے کے وعدے کام آتے ہیں۔ آسان الفاظ میں پیسہ پھینک کر تماشا دیکھا جاتا ہے کیونکہ مقابلہ بازی اور بھیڑچال کے اس معاشرے میں یہ ہی چلن بن چکا ہے۔
اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ بچے کی تعلیمی بنیاد بنانےکے ساتھ ساتھ اس کی رجحان سازی اور تربیت میں بھی اولین کردار ادا کرتے ہیں اس لئے ٹیچر کا قابل اور مثبت سوچ کے ساتھ طالب علموں کیساتھ تعلق استوار کرنا بے حد ضروری ہے لیکن پوتمکن کے تعلیمی گاؤں میں استاد کی قابلیت اور اپنے مضمون پر اس کی گرفت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ یہاں ٹیچر کو اس کی ظاہری شخصیت یا انگریزی بولنے کی صلاحیت پر پرکھا جاتا ہے۔ زیادہ لطف کی بات یہ ہے اکثر پرائیوٹ اسکول اردو پڑھانے کیلئے بھی شستہ انگریزی بولنے والے استاد مانگتے ہیں۔ اسی لئے آپ کو اسکولوں میں اے لیول پاس یا اپنی تعلیم ادھوری چھوڑے بیٹھے لوگوں کی کثرت ٹیچرز کے روپ میں ملے گی جن کی تعلیمی قابلیت صفر ہوگی لیکن ایچ آر کے معیار پر وہ شاید نہیں یقیناً پورے اترتے ہوں گے۔ اسی لیے جونیئر ٹیچر، سینئر ٹیچر، کو آرڈینٹر اور چیکرجیسی لایعنی عہدے رکھے بیٹھے ہیں۔ ویسے سچ بات یہ ہےکہ ایک ہی کلاس کو ایک ہی مضمون پڑھانے کے لئے ٹیچر پر ٹیچر، چیکر پر چیکر رکھنے کی تک کیا ہے؟ سمجھ نہیں آتی ایک کلاس میں ایک مضمون پڑھانے کے لئےایک استاد والا کلیہ کیوں قابل عمل نہیں رہا۔
پہلے تو اپنے مضمون سے مکمل آگاہی رکھنے والا استاد کلاس میں بچوں پر نہ صرف بہترین توجہ دیتا تھا بلکہ مضمون سے متعلق معلومات کی کسوٹی پر بھی پورا اترتے ہوئے تسلی بخش نتائج دیتا تھا لیکن اب ایک ہی کلاس کیلئے ایک سبجیکٹ پر ٹیچرز کا پورا لشکر تعینات کرنے کے باوجود طالب علموں کواسی مضمون سے متعلق اکثر ضمنی معلومات حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ سے مدد لینے پر اکسایا جاتا ہے۔ ہمارا معیار تعلیم گرنے کی بنیادی وجہ یہ ہی ہے کہ اساتذہ کی اپنی قابلیت پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے لہذٰا وہ بچوں کو جدید طریقہ تعلیم کے نام پر بیوقوف بناتے ہیں۔ نہ والدین نہ اسکول انتظامیہ، کوئی انکی روک ٹوک کرنے والا نہیں ہے۔ ہم نصاب میں تبدیلی کا خوب شور مچاتے ہیں لیکن اساتذہ کی قابلیت پر چپ سادھے پڑے رہتے ہیں۔
نجی اسکولوں میں تعلیم پر کم اور غیر نصابی سرگرمیوں کے نام پر فضولیات کا زیادہ رواج ہوچکا ہے۔ بچوں کی ذہنی صلاحیتیں اس طرح تو کیا ہی اجاگر ہوتی ہیں بےچارے والدین کی جیب ضرور بد حالی اجاگر کرنے لگتی ہے۔ یہاں کبھی کاسٹیوم ڈے ہورہے ہوتے ہیں کبھی فیلڈ ڈے کے پردے میں اضافی فیس نکلوائی جاتی ہے۔ ون ڈش، روز ڈے اور روڈ سیفٹی ڈے، خدا جانے اور کون کون سے ڈے اسکول انتظامیہ کے زرخیز دماغوں سے نکلتے ہیں اور بے مقصد کی راگنی الاپتے ہوئے والدین کے سر پر تھوپ دیئے جاتے ہیں۔ پہلے کیمبرج اسکول اسکے بعد عام میٹرک اسکولوں کی کیمبرج سسٹم میں منتقلی اور اب لوڈشڈینگ نے ائیر کنڈشن اور جنریٹر کی آڑ میں پرائیوٹ اسکولوں کے ہاتھ میں ایسا سدابہار نسخہ دیا ہے جسے کبھی فیس میں اضافے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی نئے داخلوں کیلئے کی جانیوالی اشتہاری مہم میں۔ یوں لوازمات سے سجے گاؤں میں پوتمکن پوری سج دھج سے بیکار چیزوں پر آپکا پیسہ ضائع کروانے میں ہلکان ہوتے رہتے ہیں انکی دلچسپی اور توجہ کا محور ہر فضول کام ہے- بس توجہ نہیں دی جاتی تو نصاب کو مکمل دیانت داری کیساتھ بچوں تک پہنچانے پر حالآنکہ اسکول کی اصل ذمہ داری یہ ہی ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں تعلیم کے ساتھ کیا جانیوالا ایسا بھونڈا مذاق قابل افسوس ہے ۔ عوام کی بنیادی تعلیم کا بندوبست کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن ریاست کا انتظام سنبھالنے والی حکومتیں اپنے اس فرض سے باآسانی چشم پوشی کر جاتی ہیں۔ ہماری شرح خواندگی کسی طرح بھی اطمینان بخش نہیں ہے پھر بھی ہر سال تعلیمی بجٹ کم رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں برین ڈرین کی جو رفتار اور تناسب ہے اس کو مدنظر کھتے ہوئے گورنمنٹ اور پرائیوٹ، دونوں سیکٹرز کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اور بلا تفریق تمام طبقات تک تعلیم پہنچانے کا بندوبست کرنا چاہیئے۔ نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے علاوہ ٹیچنگ پوسٹ کے امیدواروں کی قابلیت، ان کی معلومات کو مد نظر رکھ کر اساتذہ کی تقرری کی جائے نیز حکومت نجی شعبے کے تعلیمی اداروں کی فیس کے تعین کا ایسا نظام بنائے جوقابل قبول اور قابل عمل ہو۔
پوتمکن کے جھلملاتے تعلیمی گاؤں سجانے کے بجائے والدین اور طالب علم میں علم کی قدر اور افادیت کا تصور اجاگر کرنے کیلئے حصول تعلیم کے مراحل کو سہل بنائیں تبھی ملک و قوم کا بھلا ہوگا۔