حکیم فیروز احمد
موجودہ صدی میں انسان نے ترقی کے جو منازل طے کی ہیں اور تقریبا تمام شعبہ زندگی میں کامیابیوں کے نئے افق کو چھوا ہے . اس سب ترقی کے باوجود آج بھی ہماری صحت ایک قابل غور مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
روز آنے والے دن کے ساتھ ایک نئی بیماری کی دریافت ہمارے جسمانی مسائل کے لیے بڑھتا ہوا امتحان ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ موجودہ دور کی تمام ادویات کی وہ افادیت ختم ہوتی جارہی ہے جو کہ کچھ دہائی پہلے ہوا کر تھی اس بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے یا تو دوائی کی آفادیت جسم پر کم ہورہی ہے یا پھر جسم کی انسانی قوت مدافعت کمزور ہو رہی ہے اور وہ مرض کے خلاف وہ مدافعت نہیں دے رہی جو کہ اس کو دینی چاہئے اور شاید اسی وجہ سے ادویات کا وہ اثر بھی ختم ہورہا ہے جو کہ ہونا چاہے تھا۔
ان تمام بڑھتے ہوئے مسائل میں جو بات قابل غور ہے وہ ہمارا درست اور صحیح وقت پر درست غذا کا استعمال نہ کرنا ہے اور آج کل کی روز مرہ زندگی میں ہمارا سب سے بڑا چیلنج بھی شاید یہ ہی ہے ۔
طبعی اصولوں کے مطابق انسان کو زندگی سادہ متوازن اور پابندی وقت کے ساتھ گزارنی چاہئے ،جیسا کے دین اسلام میں گزارنے کا حکم ہے کھانے پینے کا انتخاب کرتے ہوئے عمر ، جسمانی صحت پیشہ کو لازمی مد نظر رکھنا چاہے اس طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ ہمارے جسم کو روزانہ کتنے حراروں کی ضرورت ہے ۔
BMI = Per Day Required Calories
اگر جسمانی ضروریات کے مطابق جسم میں خوراک جاتی رہے اور جز و بدن بنتی رہے تو حالت صحت ایک لمبے عرصے تک قائم رہتی ہے مگر جب ہم انسان اس تناسب میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں تو جسم انسانی بھی حالت صحت سے حالت مرض کی جانب بڑھ جاتا ہے لہذا آج کل کی زندگی میں ہمیں کیا کھانا چاہئے اس کے لیے یہ کلیہ نہایت موثر اور کار آمد ہے ۔
Body Mass Index = Required Calories per Day
جسمانی ساخت اور وزن کے مطابق جسم کو حرارت دینے چاہے ۔
بچوں کی ابتدائی صحت و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کامل نگہداشت اور توجہ سے کام لینا چاہے ۔چھوٹے بچوں کو عموما ایک سال سے کم عمر یا دودھ پینے والے بچوں کو کبھی بھی زیادہ ٹھنڈی چیزیں نہیں پلانی اور کھلانی چاہیں،خاص طور پر بازاری قسم کے ٹھنڈے مشروبات ہر گز نہ پلائیں اسی طرح اگر فیڈر میں کچھ دودھ بچا رہ جائے تو دوبارہ وہی دودھ کبھی بھی اس بچے کو نہ پلائیں۔ بچوں میں پیٹ کے زیادہ تر امراض گیسٹرو ،متلی ،قے اور اسہال وغیرہ اسی سے ہوتے ہیں، آج کل بچوں کو بہت سے زیادہ امراض گلے کی سوزش اور ٹانسلز کے لاحق ہوتے ہیں اس کی وجہ ہمارا یہی رویہ ہے
اس مقصد کے لیے بچوں کو مندرجہ ذیل ادویات دی جاسکتی ہیں جو کہ باآسانی ہر گھر میں موجود ہوتے ہیں ۔
1۔ شہد اور فلفل سیاہ (کالی مرچ)۔
2۔ شہد اور انجیر
3۔ شہد ، لہسن اورادرک
وغیرہ مسلسل چٹاتے رہنا چاہے اس سے بچہ موسمی نزلہ،زکام ،کھانسی وغیرہ سے محفوظ رہتا ہے، گلا خراب نہیں ہوتا سینہ صاف رہتا ہے اور پیٹ بھی ٹھیک رہتا ہے بچہ ہر طرح سے آپ کی توجہ کا محتاج ہے اس کو مناسب توجہ دیں تاکہ وہ ایک صحت مند زندگی کا آغاز کر سکے۔
غذا کے مطابق چند ابتدائی باتیں۔
غذا ہماری زندگی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے اس لیے غذا کے معاملے میں بڑی احتیاط اور سوچ بوجھ کی ضرورت ہے۔ اگر انسان غذا میں اعتدال اور میانہ روی سے کام لینا سیکھ جائے تو بہت سی بیماریاں اپنی موت آپ مرجاتی ہیں۔ آج کل کے دور میں چونکہ غذا کا مسئلہ بہت اہم ہوگیا ہے خالص غذائیں ناپید ہوتی جارہی ہیں اور ملاوٹ کا کام روز بروز ترقی پر ہے اس لیے ایسی بیماریاں زور پکڑ رہی ہیں جن کا غذا سے براہ راست تعلق ہے ایک سو میں سے ننانوے فیصد لوگ معدے ،آنتوں اور جگر کے مریض ہیں اور آلات ہضم کی خرابی سے پیدا ہونے والے امراض ان کی زندگی کو گھن کی طرح کھارہے ہیں بے حسی کی بات اور ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اب یہ مسئلے کی حدود سے گزر کر اجتماعی المیہ بن گیا ہے ۔
اپنے گرودو پیش پر نظر ڈالیے کتنے آدمی ایسے ہیں جنہیں آپ تندرست کہ سکیں شاید ایک بھی نہیں اور میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ بیماریوں کے اس جم غفیر میں گنتی کے لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب کے سب اپنے غذائی بے احتیاطیوں کی سزا بھگت رہے ہیں ،غذا کے بارے میں بنیادی چیز یہ معلوم کرنا ہے کہ کون کون سی غذائیں عمدہ اور کون کون سی غذائیں ناقص اور دیر ہضم ہیں۔
عمدہ غذائیں یہ ہیں۔
بکری کا گوشت ، بیٹیر ،تیتر، مرغ ،نیم ابلا ہوا انڈہ، جنگلی پرندے ،ہرن ،نیل ،گائے ،مچھلی ،گہیوں کی روٹی ،انگور ،انجیر ،انار ،سیب،شلغم ،پالک خرفہ،دودھ جیلیبی ،سری پائے لیکن سری پایوں سے خون گاڑھا پیدا ہوتا ہے اور کولیسٹرول کے مریض احتیاط کریں۔
ناقص اوردیر ہضم غذائیں
بینگن، ،مولی،سیاہ پتوں کی سرسوں کا ساگ، گائے کا گوشت ،لوبیا ،میسور ،تیل ،گڑ، ترشلی غذائیں بیماری کے دوران نہیں کھانے چاہیں اور تندرستی میں بھی اپنے مزاج کو دیکھ کر ذرا کم کھائیں ۔
البتہ جن لوگوں کا مزاج زیادہ قوی ہوں اور جو ان غذاؤں کے عادی ہوں انہیں یہ نقصان نہیں پہنچائے گی .
یعنی غذائیں ایسی ہیں کہ الگ الگ کھانے میں مضائقہ نہیں لیکن ایک ساتھ کھانے سے نقصان ہوتا ہے یعنی جب تک ان میں سے ایک چیز معدے میں ہو تو دوسری نہ کھائیں۔ اطبا کا کہنا ہے کہ دودھ کے ساتھ ترشی والی غذا اور مچھلی نہ کھائیں اس طرح دودھ چاول کے ساتھ ستو کھانے بھی مناسب نہیں۔
چکنائی کھا کر پانی نہ پئیں تیل یا گھی غیر قلعی دار برتن میں نہ رکھیں مٹی کے برتن میں پکا ہوا کھانا سب سے بہتر ہے۔
امرود، کھیرا ، ککڑی ،خربوزہ ،تربوز اور دوسرے سبز میووں پر پانی نہ پئیں ، انگور کے ساتھ سری پائے نہ کھائیں۔
کھٹائی زیادہ استعما ل نہیں کرنا چاہیے کیونکی اس سے پٹھے سست ہوکر انسان بہت جلد بوڑھا ہوجاتا ہے ،خصوصا ًعورتوں کو اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور حمل و زچگی کے دوران زیادہ احتیاط لازم ہے
اگر ترشی میں میٹھی چیز ملائی جائے تو نقصان کم ہوتا ہے غذا کے متعلق یہ چند ابتدائی معلومات تھی جن کا مزید تذکرہ میں اپنی آنے والی تحریروں میں تفصیل سے کروں گا۔
غذائی احتیاطی تدابیر
1۔ کھانے کے بعد مختصر چہل قدمی ضرور کرنی چاہے ۔
2۔ اگر آپ نے ٹائٹ زیر جامہ پہن رکھا ہے یا پتلوں میں بیلٹ لگا رکھی ہے تو نکال دیں اور بدن ڈھیلا چھوڑ دیں۔
3۔ پرتکلف دعوت کے بعد گرین ٹی ضرور پیا کریں اگر پودینہ ،سونف ،الائچی ،دار چینی ،ادرک میں کسی ایک سے سادہ سی چائے بنا کر بغیر دودھ اور شکر کے پی لینے سے معدے کا بھاری پن ختم ہوجاتا ہے مگر یہاں پر مزاج کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہوگا۔
4۔لیموں پانی بغیر شکر یا نمک ملا کر پئیں ، اسی سے بھی معدے کا بوجھل پن دور ہوجاتا ہے۔
5۔ سیب کا سرکہ گھر میں ضرور محفوظ رکھیں دو سے تین چمچ سرکے کا استعمال کر نے سے ہاضمہ بحال ہوسکتا ہے، ریاحی درد ختم ہوجاتا ہے اگر کھانے میں کوئی بیکٹریا شامل ہو تو سرکے کے استعمال سے اس کے اثرات ذائل ہوجاتے ہیں ۔
6۔ کبھی بھی دعوت سے لوٹ کر فورا سونے کی جلدی نہ کریں کھانا احتیاط سے نہ کھایا گیا ہو تو ہضم ہونے میں دیر تو لگے گی لیکن نیند کا غلبہ بھی طاری ہوگا جب دیکھیں کہ طبیعت میں گرانی باقی نہیں رہی تب ہی بستر پر جائیں۔
7۔ اسپغول کا استعمال کھانے سے کچھ دیر پہلے اور کھانا کھانے کے تین گھنٹے بعد کرنے سے طبیعت بحال رہتی ہے اور اسپغول چھوٹی اور بڑی آنت کی صفائی کرنے کا قدرتی ذریعہ ہے۔
8۔ شادیوں کے کھانے ہو یا دعوتوں کے مینو یا روز مرہ کے گھریلو پکوان۔۔ کوشش کرنی چاہیے کہ سبزیوں اور سالم اناج ،دالوں ،پھلوں اور معزیات کااستعمال کیا جائے۔ بہت زیادہ چکنائیوں والے کھانے سے احتیاط برتنا ضروری ہے کچھ چکنائیاں جسم میں جمنے والی ہوتی ہیں زیاہ آئل میں پکتے کھانے ان چکنائیوں کی بہتریں مثالیں ہیں ۔آپ زیادہ کھانے کی عادت کو رفتہ رفتہ ہی ختم کر سکتے ہیں تب تک ہر کھانے کے بعد ایک پیالہ دہی کھالیا کریں دہی جسم میں مفید چکنائی پیدا کر کے معدے کا بھاری پن دور کر دیتا ہے۔
اچھی اور درازی عمر گزارنے کے لیے چند ضروری اقدام؛
1۔ غذا طویل عمر گزارنے کی سب سے اہم وجہ ہے ہیں ہمیشہ کم مقدار میں کھانا کھانا چاہیے اور دیر ہضم غذا کا استعمال نہیں کر نا چاہیے اگر ہم زیارہ حراروں والی (calories) والی غذائیں استعمال کرینگے تو ہماری شریانیں سخت ہوجائیں گی خون کی شریانوں کا سخت اور غیر لچکدار ہونا ہی بیماری کا سبب بنتا ہے۔
2۔وزن نہ بڑھنے دیں۔
وہ لوگ جو طویل زندگی پاتے ہیں ان میں بہت سی باتیں مشترکہ ہوتی ہیں ان میں سے کسی بھی شخص کا وزن زیادہ نہیں ہوتا، وزن اور موٹاپے سے دل پر دباو پڑھتا ہے اور شریانوں کے غیر لچکدار ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے ساٹھ سال کی عمر کے بعد حراروں کی ضمن میں محتاط رہنا چاہے اور حیوانی چربی سے مکمل پرہیز کر نا چاہے کیونکہ اس میں کولیسٹرول کی زیادہ مقدار ہوتی ہے۔
3۔ بھوک چھوڑ کر کھانا کھائیں
صحت مند زندگی گزارنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے جب آپ کی 80 فیصد بھوک ختم ہوجائے تو مزید کھانا چھوڑدیں بلکہ ہو سکیں تو 70 فیصد پر ہی کھانا چھوڑدیں صحت مند زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اتنا کھائیں جس سے آپ کا وزن ایک حد سے آگے نہ بڑھے، فعال زندگی گزارنے کے لیے ایک خاص مقدار میں گوشت اور مچھلی کھانا مفید ہے اہم بات یہ ہے کہ غذا میں حرارے کم مقدار میں لیں حیوانی چربی اور شکر کی مقدار کم کر دیں۔
4۔ ورزش کرنا ضروری ہے۔
جسم میں فالتو حراروں کو جلانے کی عرض سے ہمارے لیے ورزش کر نا ضروری ہے جیسے جیسے آپ کی عمر بڑھتی ہے آپ کے لیے اپنے جوڑوں کو حرکت دینا مشکل سے مشکل ہوجاتا ہے چنانچہ جسم کو لچکدار اور قابل استعمال رکھنے کے لیے ورزش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ورزش نا کرنے سے جسمانی اور ذہنی طور پر غیر فعال زندگی انسان کو دماغی انحطاط کی طرف لے جاتی ہے۔
5۔ سال میں ایک مرتبہ اپنا جسمانی معائنہ کرانا چاہے۔
اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ کو کسی بیماری کی علامات لاحق نہیں ہیں تب بھی آپ کو سال میں ایک مرتبہ اپنا جسمانی معائنہ کرانا چاہے تا کہ صحت کو درپیش کسی مسئلے کا سراغ لگایا جاسکے اور مرض کا ابتدائی مراحل مِیں علاج ہو سکے اس طرح ہم بقایا عرصہ حیات کی شرح مِیں اضافہ کر سکتے ہیں۔
6۔زندگی سے پیار کریں۔
زندگی بہتر طریقے سے گزارنے کے لیے ہر طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں مثال کے طور پر جلدی سونا اور جلدی بیدار ہوجانا دن میں تین دفعہ اچھی غذا سے لطف اندوز ہونا وغیرہ لیکن جن لوگوں کو زندگی سے خاص دلچسپی ہے وہ ہر حال میں صحت مند رہتے ہیں . نئے تجربات سے لطف اندوز ہونے اور خود کو جسمانی و ذہنی طور پر سرگرم رکھنے سے عمر رسیدہ افراد صحت مند اور خوش و خرم رہتے ہیں۔
7۔کام سے لطف اندوز ہوں
اپنے کام میں دلچسپی لینے سے آپ کے دماغ اور صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور منفی سوچ کا رجحان بھی کم ہوتا ہے ۔
8۔جوش و جذبہ سے بھرپور زندگی گزاریں۔
بہتر راستہ یہ ہے کہ آپ جس قسم کے کام پسند کر تے ہیں ان میں اپنے آپ کو سرگرم اور فعال رکھیں لوگوں کے ساتھ مل جل کر کام کرنا اور جوش و جذبہ سے بھرپور زندگی گزارنا ایسے امور ہیں جو آپ کو رواں دواں رکھتے ہیں۔
9۔اپنے آپ کو سماجی طور پر سرگرم رکھیں۔
سماجی طور پر سرگرم رہنے سے نہ صرف ہماری صحت اور اچھے اثرات بڑھتے ہیں بلکہ ہماری معیار زندگی بھی بہتر ہوتا ہے ۔
10۔ نئے تجربات سے لطف اندوز ہوں۔
انسانی جسم میں بہت سی ایسی صلاحیتیں پوشیدہ ہوتی ہیں جن سے وہ ساری عمراستفادہ نہیں کرتا ،ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر موجود ان صلاحیتوں کا ادراک کریں اور ان سے فائدہ حاصل کریں جن کے لیے ہم نے پہلے کبھی کوشش نہیں کی ان امور میں موسیقی ، مصوری ،مختلف قسم کے کھیلیں اور بہت سے دیگر شعبہ جات شامل ہیں اس طرح کے نئے تجربات سے لطف اندوز ہونے سے آپ خود کو جسمانی و ذہنی طور پر سرگرم رکھتے ہیں اور معاشرے کی فلاح وبہبود کے لیے بھی ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے جو بھرپور انداز میں زندگی بسر کر رہے ہوں تاکہ ایک صحت مند معاشرہ وجود میں آسکے ۔