تحریر: علی عبداللہ
سرگودھا کے گاؤں موری وال اور ابل کے درمیان برگد کا ایک بہت پرانا درخت موجود ہے جو ساڑھے تین ایکڑ سے بھی زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا ہے ۔ یہ برگد کئی سو سال سے موجود ہے اور مقامی لوگوں کے مطابق اسے ایک بزرگ مرتضی شاہ نے اپنے شاگرد بابا روڈھے شاہ کے ساتھ لگایا تھا۔ اسے روڈھے شاہ کی مائی بوڑھ بھی کہا جاتا ہے۔
اندازاً اس درخت کی عمر چھے سو سے سات سو سال تک ہے۔ تقریباً تین ایکڑ پر پھیلے اس درخت کے نیچے اتنی وسیع جگہ ہے کہ لوگ آرام بھی کرتے ہیں، اپنے مویشی بھی باندھتے ہیں اور ساتھ ہی ایک قبرستان بھی موجود ہے۔ قدیمی برگد سے متعلق بہت سی توہمات ہونے کی بنا پر مقامی لوگ نہ تو اسے کاٹتے ہیں اور نہ ہی اس درخت پر چڑھتے ہیں۔ لوگوں کے مطابق جب بھی کسی نے اس درخت کی کوئی شاخ کاٹی ہے، اسے سخت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
درخت کے بڑھنے کی وجہ سے لوگ اپنی جگہ تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن کوئی اسے کاٹتا نہیں ہے۔ دربار کے متولی کے مطابق بوڑھ کے اس درخت کو نقصان پہنچانے والے کو ہمیشہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ درخت کے پیچھے چار بھائی رہتے تھے اور ان کے گھر میں برگد کی جڑیں جا پہنچیں تو میرے روکنے کے باوجود ان جڑوں کو انھوں نے کاٹ دیا۔ چاروں عمر بھر بے اولاد رہے اور بے اولاد ہی فوت ہوئے۔ مزار کے متولی نے یہ بھی بتایا کہ لوگ اپنی منتیں مرادیں پوری کروانے کے لیے بھی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ کاروبار کی بہتری ہو یا کسی نے بیرون ملک جانا ہو، لوگ یہاں درخت پر آکر منتیں مان کر درخت کے تنے اور ٹہنیوں کے ساتھ منتوں کے دھاگے باندھتے ہیں۔ دعا قبول ہونے کے بعد اپنی منتیں چڑھاکر دھاگے کھول جاتے ہیں۔
جہالت اور کم علمی کا ایسا مظاہرہ اگر کسی پڑوسی ملک میں ہوتا جہاں اسلام کی روح سے لوگ نا آشنا ہوں تو شاید اسے ہضم کیا جا سکتا تھا مگر ایک ایسے ملک میں جو خالصتاً اسلامی ملک کہلاتا ہے اور جہاں دین کی ترویج میں کسی قسم کی رکاوٹ بھی موجود نہیں وہاں پر ایسے جاہلانہ اقدامات شرکیہ تو ہیں ہی لیکن لوگوں کی کم علمی اور ہندوانہ رسومات کی عکاسی بھی ہیں۔
درباروں، مزاروں اور ان میں مدفون بزرگان کے بارے تو ہمہ قسم کے عقائد دیکھنے کو ملتے تھے لیکن ایک قدیم درخت سے لوگوں کے ایسے عقائد اور وابستگی قابل تشویش ہے۔ برگد کا درخت اپنی طویل عمری، گھنے پن اور پراسرار شکل و شباہت کی بنا پر صدیوں سے انسان کو اپنی طرف کھینچتا چلا آ رہا ہے۔ ہندومت اور بدھ مت کے علاوہ دیگرکئی معاشروں میں بھی اسے ایک خاص روحانی اہمیت حاصل ہے ۔ اسی بنا پر دیگر مذاہب کے لوگ اس کی پوجا بھی کرتے ہیں اور اسے دیوتااور بھگوان مانتے ہیں۔
برگد کا درخت ہندومت میں موت اور زندگی کے دیوتا یاما سے منسوب ہے اسی لیے اسے بر صغیر میں قبرستانوں کے قریب زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ ہندو شادی شدہ خواتین اپنے شوہروں کی بہتری اور حفاظت کے لیے ایک خاص روزہ رکھتی ہیں جسے وت ساوتری ورات کہا جاتا ہے اور اس کا ایک اہم رکن برگد کے درخت کے ساتھ دھاگہ باندھنا ہے۔ مزید ہندومت میں برگد کے پتے کو ان کے دیوتا کرشنا کی آرامگاہ سمجھا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کو جب گیان ملا تو وہ 45 روز تک برگد کے درخت کے نیچے مراقبے میں رہا تھا تاکہ اس گیان کو اپنے من میں ڈھال سکے۔ اسی طرح فلپائن میں برگد کے درخت کو مختلف روحوں اور شیطانوں کا مسکن سمجھا جاتا ہے جن میں سے ایک ایسا بھی ہے جس کا آدھا دھڑ گھوڑے جیسا اور آدھا انسانوں جیسا ہے۔ بچوں کو اس بات سے سختی سے روکا جاتا ہے کہ وہ برگد کے درخت کی جانب کسی بھی قسم کا اشارہ کریں خصوصاََ جب وہ کسی نئی جگہ جائیں۔ فلپائن کے لوگ برگد کو نقصان نہیں پہنچاتے اور ان کا خیال ہے کہ برگد میں موجود غیر مرئی مخلوق ان کو بخار، موت یا کسی ناگہانی آفت میں مبتلا کر سکتی ہے۔
برگد کا سائنسی نام فائیکس بینگلینسز ہے (Ficus benghalensis) یہ درخت ایک وسیع علاقے میں پھیلتے ہیں اور ان کی جڑیں بہت دور دور تک جاتی ہیں چونکہ ان کی شاخیں طویل اور وسیع ہوتی ہیں اسی لیے ان کو سہارا دینے کے لیے ان میں سے جڑیں نکل آتی ہیں۔
جی سی یونیورسٹی کے شعبہ نباتات کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر ظہیر الدین خان کے مطابق برگد چونکہ نہایت گھنا اور بڑا ہوتا ہے اس وجہ سے اسے پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ جب انھیں زمین سے مطلوبہ معیارمیں پانی نہ ملے تو یہ اپنی شاخوں سے کچھ جڑوں کو نکال کر ہوا میں موجود نمی جذب کرنے لگتا ہے۔ کشش ثقل کی بنا پر پھر یہی جڑیں زمین میں دھنس کر برگد کی شاخوں کے لیے ستون جیسا کردار ادا کرنے لگتی ہیں۔
برگد کے درخت میں پائے جانے والے دودھیا پانی کو لیٹکس کہا جاتا ہے جو صدیوں سے مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔وطن عزیز میں اس قدیم درخت کو ایک قومی ورثہ سمجھ کر اس کی حفاظت کرنا اور اس کے غیر معمولی حجم کے بنا پر اسے خاص اہمیت دینا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن دیگر مذاہب کی طرح انہیں مددگار تصور کرنا ایک قبیح عمل ہے۔ غیر اللہ سے کسی بھی قسم کی توقعات اور منتیں مرادیں مانگنے کا تصور بلاشبہ شرک میں شامل ہے۔
حدیبیہ کے مقام کر بیعت رضوان جس درخت کے نیچے ہوئی حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اسے کٹوا دیا تھا کیونکہ لوگوں کی غیر معمولی وابستگی نے یہ اندیشہ پیدا کر دیا تھا کہ کہیں اس درخت کو مقدس سمجھ کر اسے مددگار نہ سمجھا جانے لگے۔ قران پاک کی سورہ الزمر میں اللہ تعالی فرماتے ہیں، ”کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے عمل برباد ہو جائیں گے اور تم زیاں کاروں میں ہو جاو ٔ گے“۔ اسی طرح سورہ لقمان میں ارشاد باری تعالی ہے، ”بے شک شرک تو بڑا (بھاری) ظلم ہے“۔ سورہ النسا میں اللہ تعالی فرماتے ہیں، ”خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کر دے اور جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا“۔
شرک کی مذمت میں کئی احادیث بھی موجود ہیں۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک میری امت کے کچھ قبیلے مشرکین سے نہ جا ملیں اور میری امت کے کچھ قبیلے بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں“۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داو ٔد)ایک اور جگہ عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ”جس آدمی کو اس حال میں موت آئی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو پکارے تو وہ جہنم میں داخل ہو گا“۔ (صحیح البخاری) ان کے علاوہ حیات صحابہ اور بزرگان دین کی زندگیوں میں کئی واقعات ایسے موجود ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ توہمات، شرکیہ رسومات اور اس جیسے دیگر عوامل کی کتنی شدت سے تردید کی گئی ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو اس ہندوانہ رسم سے نکال کر انہیں حقیقت کی جانب مائل کیا جائے اور اس درخت کو ایک نایاب و قدیم ورثہ سمجھنے کے علاوہ اس سے کسی قسم کی امیدیں اور توقعات لگانے سے گریز کیا جائے۔ وگرنہ یہ بعید نہیں کہ لوگ مزاروں کے بعد قدیم درختوں کو بھی روحانیت کا مظہر سمجھ کر ان سے مدد مانگنے لگیں۔