تحریر : کرن مہک
احساس دنیا کا خوبصورت ترین اور طاقتور رشتہ ہے۔احساس ہی ہے جو انسان کو انسانیت کے رشتے سے جوڑتا ہے ۔ اجنبی افراد کو اپنا بناتی ہے ۔احساس جب کسی رشتے میں شامل ہوجائے تب ایسے رشتے موت کی آغوش میں جاکر بھی زندہ رہتے ہیں اور دعاؤں میں شامل رہتے ہیں ۔دین اسلام ہمیں احساس کی تربیت یوں دیتا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔۔یہاں تک کہ اگر ایک مسلمان بھائی کو تکلیف ہو تو دوسرا بھائی اس کی تکلیف محسوس کرے اور جہاں تک ممکن ہو اپنے بھائی کی تکلیف دور کرنے کی کوشیش کرے۔ خواہ راستے میں پڑا پتھر ہی کیوں نہ یٹا دیں احساس کی قیمت حساس انسان ہی جانتا ہے۔
کہنے کو دنیا میں احساس کی باتیں صرف لفظی ہی رہ گئی ہیں ۔ یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب لوگ سچے اور مکان کچے ہوا کرتے تھے ۔جب ان کچے گھرندوں سے محبت کہ خوشبو ہوا میں گردش کرتی ہوئی دور دور تک سفر کرتی۔ جب خونی اور دل کے رشتے ہر قیمت میں نبھائے جاتے ۔ جب پڑوسیوں کے بچوں کو بھی حق سے ڈانٹا جاتا تو وہ سہم جاتے ، جب پڑوسیوں کے دکھ سکھ سب سانجھے تھے ۔ اس وقت اگر کسی کے گھر مہمان آجاتا تو گھر والوں کے علاوہ وہ مہمان پورے علاقے کا مہمان تصور ہوتا اور سب پڑوسی اس کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نا رکھتے ۔ چھوٹے گھروں میں بہت بڑے دل والے دلوں میں راج کرگئے ۔۔مگر اب وقت بدل چکا ہے ہر بندہ جیسے بدل چکا ہے کچے گھروں کے سچے لوگ بڑی بڑی دیواروں کے پیچھے کہیں چھپ گئے ہیں اور احساس بےحسی کی چادر میں کہیں چھپ گیا ۔ آج انسان اپنوں کے درمیان رہ کر اپنوں کو ڈھونڈ رہا ہے ۔
احساس کو محبت کی پہلی سیڑھی بھی کہہ سکتے ہیں جس پے چڑھتے چڑھتے انسان انسانیت کی اس معراج تک جا سکتا ہے اور اللہ کا پیغام بھی یہی ہے کہ انسان اپنی ذات کے علاوہ اپنے اطراف رہنے والوں کو اپنی ذات سے فائیدہ پہنچائے۔۔حساس انسان اس سایہ دار درخت کی مانند ہے جس کے سائے میں بیٹھ کر سب سکون سے بیٹھ کر کچھ وقت خوشگوار بنا لیں ۔ آرام کر لیں یا سوجائیںاور حسین خوبصورت خواب دیکھیں ۔
پھر کسی کے حسین خوابوں کی تکمیل کے لیےاس کی وجہ بن جائیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ رشتے درختوں کی مانند ہیں ۔ کبھی کبھی انسان خود غرض بن کر اپنی ضرورتوں کی خاطر ان درختوں کو کاٹ کر خود کو گھنے سائے اور ٹھنڈی ہوا سے محروم کردیتا ہے ۔ہمارےاحساس کے حقدار سب سے پہلے ہمارے ماں باپ ہیں جن کے حقوق ہم ان کی زندگی میں کیا مرنے کے بعد بھی ادا نہیں کرسکتے ۔رشتوں کی موت بےحسی میں چھپی ہے ۔ جو ہمارے اپنوں کو تل تل مارنے پے مجبور کرتی ہے ۔جناب اشفاق احمد بھی کیا خوب کہہ گئے کہ فاتحہ لوگوں کے مرنے پے نہیں بلکہ احساس کے مرنے پہ پڑھنی چا ہیے کیونکہ لوگ مر جائیں تو صبر آجاتا ہے مگر احساس مرجائے تو معاشرہ مرجاتا ہے ۔
آج جب ہم اپنے معاشرے کو نظر اٹھاکر دیکھتے ہیں تو ہر شخص ہمیں اضطراب کا شکار نظر دیکھائی دیتا ہے ۔ آج زندگی کی سب سہولیات کے باوجود دل اضطراب کا شکار ہے ۔۔ ہر چہرے پے بےسکونی ہے۔یہ دلی سکون کیسے ملے ۔ جب زندگی سے اپنوں کی محبت ، انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کو نکال دیا جائے ۔ آپس میں ایک دوسرے کی بات سنے کا حوصلہ نہیں جو کچے گھروں میں رہنے والوں میں پایا جاتا تھا ۔جب بھائی کی غلطی چھپانے کے لئے دوسرا مار کھاجاتا تھا ۔جب دوست اپنے دوست کی خاطر جان دے جاتا تھا ۔جب مسافروں کو روک روک کر کھانا کھلایا جاتا تھا ۔ جب بچے انے گھروں کے سامنے گلی ڈنڈا کھیلتے کھو کھو گھیلتے اور مذاق میں بھی ڈنڈا اپنے ساتھی کو نہ مارتے ۔
یہ احساس ہی تھا بچہ اپنے گھر کے سامنے محفوظ رہتا ۔یہ احساس ہی تھا جو ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے آج سب اپنی خوشیاں ایک دوسرے سے چھپا رہیں ہیں ۔۔سب ایک دوسرے سے اگے نکلنے کے لئے ایک دوسرے کو دھکا دے کر کچل کر آ گے بڑھنے کو تیار ہیں۔مگر یہ ریس کب تک ۔۔کس کے لئے سب بھاگ رہیں ہیں ؟؟؟؟ کیوں بھاگ رہیں ہیں؟؟؟ اپنے بھائی کو دھکا دے کر آپ جیت بھی گئے تو کیا کتنا برا ہے کہ آپ بھائی کی دعا سے تو نکل گئے ۔۔ اور کتنا برا ہے ایک انسان کا اپنی زندگی میں ہی دعا سے نکل جانا ۔اس لیے کوشش کریں کہ اپنے حسن سلوک سے زندگی کے اس مختصر سفر کے خاتمے سے قبل سب کو اپنا بناتے چلیں اور اپنی ذات کو میٹھے چشمے کی ماند بنا لیں جس کے کنارے پر بیتھ کر مسافر ٹھنڈی ہوا کا احساس پاتا ہے جس کے پاس بیٹھ کر ہر غم خوشی میں بدل جائے ۔ جس کے ساتھ چل کر قافلے کے لوگ خوشی محسوس کریں لوگ آپ کی عدم موجودگی میں بھی آپ کا نام عزت و احترام سے لیں ۔