انسانی تاریخ جتنی قدیم ہے اتنا ہی قدیم شکار کا شوق بھی ہے، ابتدائی ادوار کا “اَن سویلائزڈ” انسان ، جانوروں کا شکار کرکے اپنی اشتہاء اور اولین جسمانی ضرورت یعنی بھوک مٹایا کرتا تھا ۔ پھر صدیاں گزریں ، سائنس اور ٹیکنالوجی کا انقلاب آیا تو شکار کے لیے پتھروں اور تیر کمان کی جگہ جدید آلات نے لے لی۔اور آج جب ہم ایک گلوبل ولیج میں رہ رہے ہیں تو انسان اتنا زیادہ سویلائزڈ ہو گیا ہے کہ جانوروں کے شکار کے لیے استعمال ہونے والے پیلٹس ( چھروں) کو انسان پر آزمانے لگا ہے، بلاشبہ “انسان کا شکار(ہنٹ)” سویلائزیشن کا انسانیت کے نام ایک گراں قدر تحفہ ہے ۔
پاکستان کے پڑوس میں ایک چھوٹا سا خطہ ہے جسے د نیا ” کشمیر جنت نظیر” کے نام سے جانتی تھی ، مگر گذشتہ چند برسوں سے یہ ایک حوالے سے بھی عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز ہے اور وہ ہے کشمیری تحریکِ آزادی کو دبانےاور مجاہدین کی بیخ کنی کے لیے بڑے پیمانے پر ان پیلٹس کا استعمال جو دراصل جانوروں اور پرندوں کا شکار کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دنیا بھر سے ان کے استعمال کی شدید مذمت کے باوجود بھارت کسی کی پرواہ کیے بغیر آئے روز انہیں معصوم شہریوں پر داغ رہا ہے ، جن سے متاثر ہونے والوں کی کہانیاں سوشل میڈیا کے ذریعے زبانِ زدِعام ہیں ۔
گزشتہ برس کے اختتام تک ان چھروں سے زخمی ہونے والوں6000 سے زائد افراد میں سے اکثریت ایسے پر امن نوجوانوں کی تھی جن کا جہادِ کشمیر سے کہیں دور کا واسطہ بھی نہ تھا، مگر انہیں سر راہ جان بوجھ کر اس طرح نشانہ بنایا گیا کہ عمر بھر کی معذوری اب ان کا مقدر ہے ۔ زخمیوں میں آٹھ سو سے زائد کی آنکھوں کو نشانہ بنایا گیا جس سے ان کی بینائی مکمل طور پر ضائع ہو گئی یا جن کی جزوی طور پر متاثر ہوئی انکا بھی کوئی باقاعدہ علاج ممکن نہیں ہے ، جبکہ دیگر افراد کو پیٹ کے نیچے، کمر اور پسلیوں پرسامنے سے یوں تاک کر چھرے مارے گئے ، کہ ان کے اندرونی اعضاء شدید متاثر ہوئے، اور اب ان کا صحت یاب ہوکر دوبارہ زندگی کی طرف لوٹنا تقریباً نا ممکن ہے ۔ جموں و کشمیر ہری سنگھ ہسپتال کے ڈاکٹرز کے مطابق گولی کی نسبت انسانوں پر چھرے کا استعمال زیادہ تکلیف دہ ، خطرناک اور جان لیوا ہے ۔گولی سے کوئی ایک عضو شدید متاثر ہوتا ہے جبکہ ان چھروں سے نا صرف ایک سے زیادہ اعضاء ایک ساتھ متاثر ہوتے ہیں بلکہ انکا علاج بھی ممکن نہیں ہوتا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان پیلٹس سے متاثر ہونے والے افراد میں 13 کی اموات ہوئیں جبکہ وقتی یا عمر بھر کی معذوری کا شکار ہونے والوں کی تعداد 200 سے زائد تھی ۔
ان رپورٹس نے انڈین آفیشلز ار آرمڈ فورسز کے ان دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے جن کے مطابق یہ “پلیٹ گنز” دراصل کشمیری مظاہرین کو منتشر کرنے اور ان کی جارحیت کو دبانے کا ایک ” آلٹر نیٹو ” ہیں ، کیونکہ بندوق اور گولی کے استعمال سے شرح اموات بڑھ جانے کے باعث انڈین فورسز کو بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی میڈیا کی تنقید کا سامنا تھا ، مگر یہ اپنے مستقبل کے منصوبوں پر پردہ ڈالنے کی ایک ناکام کوشش کے سوا اور کچھ نہیں ، یہ ایک دور رس نتائج کا حامل سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کے مطابق اگلی کشمیری نسل کو آہستہ آ ہستہ معذور کیا جارہا ہے ، اس بات کی تصدیق ان رپورٹس سے بھی بخوبی ہوتی ہے کہ اب تک کے ہزاروں متاثرین میں چودہ فیصد بچے یا پندرہ برس سے کم عمر نوجوانوں کی تھی۔
اس کا ایک اور پوشیدہ رخ یہ بھی ہے کہ چھروں سے زخمی ہونے والے افراد کو جب سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے لیے لیجا یا جاتا ہے تو ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے آرمڈ فروسز کو مجاہدین کے بارے میں معلومات حاصل ہو جاتی ہیں ، یا جان بوجھ کر بے گناہ افراد کو دہشت گرد قرار دیکر دھر لیا جاتا ہے اور پھر کہیں کسی گھاٹی یا کھائی سے چند دن بعد اس شخص کی مسخ شدہ لاش برآمد ہو جاتی ہے ۔ اسی لیے اب اکثر کشمیری خاندان پرائیوٹ ہسپتالوں کو ترجیح دے رہے ہیں ۔
میرا ہی نہیں ہر درد مند دل رکھنے والے انسان کا بھارتی حکومت اور فوج سے یہی ایک سوال ہے کہ آخر انسانی خون کی یہ پیاس کب اور کس طرح بجھے گی ، درندگی، سفاکی، کمینگی اور بے حسی کی وہ کون سے حد ہے جسے پاٹنا ابھی باقی رہ گیا ہے ؟؟۔
انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی ،عدم مساوات، مذہبی انتہاءپسندی اور اندر ن و بیرون ملک بڑھتی ہوئی روز افزوں جارحیت کے سبب بھارت دنیا کے سب سے بڑی سیکیولر ریاست سے ، تیزی کے ساتھ ایک ایسے ” بگ بینگ” میں تبدیل ہوتا جارہا ہے جو کسی بھی وقت دھماکے سے پھٹ کر ہر شے کے پرخچے اڑا کر رکھ دیگا اور پھر دنیا کے نقشے پر ’’انڈیا‘‘ نام کا کوئی نشان نہ رہے گا۔