مئیر کراچی وسیم اختر اور ضلعی بلدیات کے چئیرمین ان دنوں کم وسائل سے محظوظ ہونے کے ساتھ سر کو گھٹنوں کے درمیان رکھ کر یہ سوچنے پر مجبور کر دئیے گئے ہیں کہ کون سی گھڑی تھی جب انہوں نے بلدیاتی اداروں کی قیادت سنبھالی، البتہ تمام بدترین حالات کے باوجود ان کے ”ذاتی مالی مفادات“ میں کمی نہیں ہے، سندھ حکومت کچھ بھی کر لے کچھ چیزیں ایسی ہیں جس سے بلدیاتی اداروں کو دور نہیں کیا جا سکتا اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بلدیاتی نمائندگان شہریوں کے سامنے اختیارات کا رونا رو کر اپنی جیبیں بھرنے میں کامیاب ہیں۔
بلدیہ عظمٰی کراچی اور ضلعی بلدیات سے صرف ایک سوال پوچھ لیا جائے کہ شہر میں ترقیاتی کام تو کہیں ہوتا نظر نہیں آ رہا تو پھر کروڑوں کے ٹینڈرز کس مد میں کئے جا رہے ہیں، یہ ٹینڈرز آئے دن اخبارات کی زینت بنتے ہیں اسی طرح تجاوزات کے خلاف آپریشن، پارکوں کے حوالے سے کام، ٹیکسز وصولی کے 14 سے زائد طریقوں سے رقم کا سرکاری اکاؤنٹس میں جمع ہونے کے بجائے نجی جیبوں میں جانا سمیت اب بھی کئی ذرائع کا استعمال کر کے شہریوں کے مسائل ایک طرف رکھ کر شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جا رہا ہے کیونکہ مذکورہ طریقے سے رقوم بٹورنےکے علاوہ انہیں عوامی مسائل میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔
ایک اہم بات جو ہر خاص وعام کے لیے اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کے اختیارات کی کمی سے انکار نہیں ہے مگر اندرون ِخانہ عوامی مسائل کے حل کے علاوہ تمام کام جاری وساری ہیں، شہریوں کے سامنے او زیڈ ٹی کی کمی کو جواز بنا کرآنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بلدیاتی اداروں کو سب سے بڑے فنڈ آکٹرائے ضلعی ٹیکس کی مد میں کمی کا سامنا ہے اور جب بھی اس مد میں حقائق سامنے آئیں گے بلدیاتی ادارے حق بجانب قرار دئیے جائیں گے، بلدیاتی ادارے صرف ٹیکس ریکوری کر لیں تو ترقیاتی کام سر انجام دینا کوئی مشکل امر نہیں ہوگا مگر چونکہ مائنڈ سیٹ ہے کہ ایک دوسرے پر بہتان تراشی کر کے مسائل حل نہیں کرنے ہیں، اسی لئے راستے موجود ہونے کے باوجود اسے ذاتی مفادات کی تسکین کیلئے استعمال میں لایا جا رہا ہے ۔
عوام، یعنی آپ اور میں اس وقت اندھیروں کے پردے میں زندگی بسر کر رہے ہیں، صورتحال کچھ ہے اور دکھائی کچھ جا رہی ہے، سندھ حکومت اور کراچی کے بلدیاتی ادارے ایک ایسے فارمولے پر عمل کر رہے ہیں جس کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے، سندھ حکومت باہمی سیٹنگ ہونے کے باوجود بلدیاتی اداروں کو ایک دائرے میں قید رکھنا چاہتی ہے تاکہ اسے اس کے مفادات حاصل ہوتے رہیں، زمینوں پر قبضے آج بھی جاری ہیں، چائنا کٹنگ اب بھی ہو رہی ہے ضلع ملیر اس وقت زمینوں پر قبضے کا گڑھ ہے ، جہاں کھربوں روپے کی زمینیں اونے پونے داموں فروخت کرنے کے ساتھ سرکاری املاک تک کو بیچے جانے کے انکشافات سامنے آئے ہیں۔
اسی طرح شہر کا کوئی حصہ کیوں نہ ہو جہاں مواقع میسر آ رہے ہیں، زمینوں پر قبضے جاری ہیں، کراچی کو مال مفت دل بے رحم سمجھ کر آج بھی استعمال میں لایا جا رہا ہے، بڑے بڑے کام حکومت سندھ کی سرکردہ جماعت نے سنبھال لئے ہیں اور جو کبھی ان کاموں میں ملوث تھے اب تماش بینوں کی طرح کھیل دیکھ رہے ہیں۔ تبدیلی صرف اس حد تک آئی ہے انہیں اربوں، کھربوں سے کروڑوں تک محدود کر دیا گیا ہے جب بھی وہ اربوں، کھربوں کی طرف دیکھنا شروع کرتے ہیں، کوئی نہ کوئی آئینہ دکھا کر انہیں خاموش کر دیا جاتا ہے۔
بلدیاتی اداروں میں اہم پوسٹوں پر تعیناتی اس وقت تک نہیں ہوتی ہے جب تک سندھ حکومت تعیناتی کے احکامات جاری نہ کر دے، بلدیاتی منتخب سربراہان نے اپنے آنے کے بعد شروع میں اس سلسلے میں شدید اعتراضات اٹھائے مگر سندھ حکومت نے نوٹی فکیشن پر نوٹی فکیشن جاری کر کے بلدیاتی اداروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔اہم پوسٹوں پر اپنی مرضی کی تعیناتیاں ہی یہ طے کرتی ہیں کہ بلدیاتی اداروں کا سورج طلوع و غروب کون کرے گا، سرکاری افسران اسی جانب جھکتے ہیں ،جہاں پلڑا بھاری ہوتا ہے اور پلڑا جس طرف بھی بھاری ہوگا ،اسی کی جی حضوری کی جاتی ہے۔
بلدیاتی منتخب سربراہان کو کمائی کا راستہ بھی وہ افسران بتا رہے ہیں جن کو تعینات سندھ حکومت نے کیا ہے لیکن ساتھ ہی کراچی کے ہر بلدیاتی ادارے میں بڑے بڑے کام سندھ حکومت کی مرضی سے ہو رہے ہیں اور بلدیاتی نمائندوں کو کمائی کے راستے پر لگانے والے افسران وزارت بلدیات میں ان کی کالی کرتوتوں کی فائلوں پر فائلیں تیار کروانے میں بھی مصروف ہیں، جو بلدیاتی سربراہ کنٹرول سے باہر ہونے لگتا ہے اسے آئینہ دکھا کر خاموش کروا دیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب تک ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے انتہائی راست اقدام اٹھانے سے پرہیز کیا جا رہا ہے،اب صورتحال یہ ہے کہ بلدیاتی نمائندے شہریوں کے لیے جنگ لڑنا بھی چاہیں تو نہیں لڑ سکتے، تشہیر کے ذریعے بہتان تراشی تک تو یہ چل رہا ہے، مگر اندرون ِخانہ معاملات طے ہیں کہ کراچی کو بے یارومددگار رکھ کر ایم کیوایم پاکستان کو کراچی کے شہریوں کی نظروں میں گرانا ہے، گزشتہ ایک سال سے یہ کوشش جاری ہے مگر بلدیاتی نمائندگان نے اختیارات کی کمی کا ایسا رونا شروع کر رکھا ہے جس سے بعض اوقات حکومت سندھ آئینہ دکھانے کے بجائے آئینہ دیکھنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
کراچی پر حکمرانی کے لیے سندھ حکومت نے کئی ناکافی پیکیجز کا اعلان کیامگر شہری پھر بھی سندھ حکومت سے نالاں ہیں کیونکہ ان کا اس وقت مطالبہ شہر کو کچرے سے پاک کرنے کے ساتھ پانی کی متواتر فراہمی اور سیوریج کے گھمبیر مسائل کا حل ہے، شہریوں کے تین بنیادی مسائل کا ترجیحی بنیادوں پر حل ہی آئندہ بلدیاتی انتخابات میں کراچی کے مستقبل کا تعین کرے گا ۔
کراچی کے شہری اس وقت اس قدرعاجز ہو چکے ہیں کہ ان کے مذکورہ تین مسائل پائیدار بنیادوں پر حل کر دئیے جائیں تو وہ ماضی بھول کر اس کا ساتھ دینے کو تیار ہو جائیں گے جو ان کے مسائل حل کروانے میں ان کا ساتھ دے، شہری اس وقت سمندر کی متوازی لہروں کی طرح ساکت ہو چکے ہیں انہیں اپنے مسائل کا حل کہیں سے ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے، ان میں ہلچل مچانے میں کوئی سیاسی پارٹی کامیاب نظر نہیں آ رہی ہے۔
ایم کیوایم پاکستان کے ساتھ ان کی ہمدردیاں لازم وملزوم سے باہر آچکی ہیں اور اس وقت وہ تلاش میں ہیں کہ کوئی آئے اور ان کے زخموں کو بھرتا چلا جائے، سندھ حکومت میں حزب ِاقتدار پیپلز پارٹی پر شدید حیرت ہوتی ہے کہ وہ ان کے بنیادی مسائل سے نظریں چرا کر وہ مسائل حل کر رہی ہے جو ضروری تو ہیں مگر ترجیحی نہیں، کراچی کو کنٹرول میں لینے کے لیے کچرے، سیوریج اور گندگی سے متعلق مسائل دور کرنا اب ناگزیر ہو چکا ہے، شہری اب تیار نہیں ہیں کہ وہ اب اپنے ووٹوں کو ضائع کریں لہذا بلدیاتی انتخابات میں معدوم ہونے سے بچنے کے لیے تمام ہی سیاسی جماعتوں کو کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔