قراردار پاکستان ہرباریہ احساس دیکر خوشی کے ساتھ غم منانے پر بھی مجبور کردیتی ہے کہ خوشی اس بات کی ہوتی ہے آج ہم ایک آزاد قوم ہیں اور غم اس بات کا ہے (70)سال گزر جانے کے بعد بھی ہم ایک قوم نہیں بن سکے۔جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے بیرونی او راندرونی سازشوں نے اس کو کھوکھلا کرنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہیں ، لیاقت علی خان کی شہادت ، سقوط ڈھاکہ ، بے نظیر بھٹو کی شہادت ،جنرل ضیاء کی شہاد ت. سانحہ پشاور، ماورائے عدالت قتل ، ایسا کونسا سانحہ نہیں ہے جوہمیں (72) سالوں میں دیکھنے کو نہیں ملا ۔
آزادی ایک فرد کی ہویا ایک قوم کی ہودنیابھر کے انسانوں کے لیے موجب تشکر ہے، سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آزادی ایک نعمت ورحمت ہے ، آزادی شخصی ہویا قومی اس کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے جب تک کوئی قوم آزادی کے لیے قربانی کی اہمیت سے واقف نہیں وہ قوم آزادی حاصل نہیں کرسکتی ، ہم نے بھی آزادی کیلئے اتنی بڑی قیمت چکائی ہے کہ دنیا میں کہیں اسکی مثال نہیں ملتی ۔
مسلمانوں نے برصغیر ہندوپاک پر ایک ہزار سال سے زیادہ حکومت کی مگر وہ انگریزوں کی غلامی سے نہ بچ سکے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کبھی انہیں پلاسی کے میدانوں میں اپنے جوہر دکھانے پڑے اور کسی سرنگا پٹم کے کارزار میں کسی میرٹھہ چھاؤنی میں اور کبھی لاہور ودہلی کے لال قلعے میں۔۔ تاریخ انکے کارناموں پر فخر کرتی رہے گی ، بعدازیں مسلمانوں کو خداوند کریم نے سرسید احمد خان، وقار الملک محسن الملک مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبال ، اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسے عظیم رہنما فرمائے جنہوں نے انگریزوں اور ہندوؤں کی نہ صرف ہر چال کو مات کیا بلکہ ہر محاذ پر ان کا مقابلہ کیا۔
ہندوؤں کی بے رخی اور نظریاتی فرق نے مسلمانوں کو سوچنے پر مجبورکردیا ان مظالم سے متاثرہ مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ تحریک ہوئی کہ ہمارا مذہب ہمیں ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کا روشن راستہ دکھارہاہے اس ناگفتہ بہ حالت میں ایک درویش ہمدرد ملت اٹھا جس نے اپنی مایوس پس ماندہ قوم کو امید محنت اور ترقی کا وہ زندگی بخش پیغام دیا جس سے قوم کی آنکھیں کھل گئیں یہ مرد خدا سرسید احمد خان تھے ، سرسید احمد خان نے قدامت پسند مسلمانوں کونئے نئے زمانے کی ضروریات سے آگاہ کیا ۔
اپنی مذہبی تصانیف اور رسالہ تہذیب الاخلاق کے اجراء سے انہوں نے ثابت کردکھایا کہ اسلام عقل کے اصولوں پر مبنی ہے ، سرسیداحمد خان نے لاہور میں انجمن حمایت الاسلام کا ادارہ قائم کیا1886 ء سرسید احمد خان نے آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیادڈالی جس کے اجلاس ہرسال مختلف مقام پر ہوئے جس سے مسلمانوں میں ایک نئی زندگی پیداہوئی سرسید احمد خان نے اپنی مشہور تصنیف ”اسباب بغاوت ہند”میں لکھا ہے کہ ہندوستانیوں کو ملک کی سیاسی کونسلوں میں شامل نہ کیاگیا آپ نے مسلمانوں میں ایک سیاسی تعلیمی شعور پیدا کیا1898 ء میں سرسید احمد خان کا انتقال ہوگیا لیکن جوبیداری وہ مسلمانوں میں پیداکرگئے تھے ، اس بیداری کانام تھا ایک آزاد مسلم ریاست کاقیام سرسید احمد خان کے اس سفر کو مولانا الطاف حسین حالی، نذیر احمد، ذکاء اللہ، شبلی صاحب نے جاری رکھا ۔
علامہ اقبال نے اپنا خاص اسلامی فلسفہ قوم کے سامنے پیش کیا ، انہوں چار چیزوں پر زور دیا توحید، رسول اللہ سے محبت اور انکی مکمل تقلید،قرآم کا مطالعہ اسکی تعلیمات کی پیروی ، رجائیت یعنی مایوسی اور غم پسندی کو ترک کرکے امید ہمت اور جرأت کی راہ اختیار کرنا، اقبال نے سچے مومن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ
ہرلخطہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری وغفاری وقدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
دسمبر 1906 ء میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اور 1909 ء کی اصلاحات میں مسلمانوں نے جداگانہ انتخابات کا اہم حق حاصل کرلیا، تقسیم بنگال، 1911ء اور جنگ بلقان وطرابلس 1912ء سے جب مسلمانوں کو یہ یقین ہوگیا کہ ان کے قومی اور بین الااقومی حقوق حکومت برطانیہ کے ہاتھوں میں محفوظ نہیں رہ سکتے تو انہوں نے ہندوستان کیلئے 1913 ء میں ”سیلف گورنمنٹ ” کا مطالبہ کیا۔
کانگریس اور مسلم لیگ میں ”مثیاق لکھنو” کا مشہور معاہدہ ہوا جس کی وجہ برطانیہ 20 اگست 1917 ء کویہ اعلان کرنے پر مجبور ہوا کہ ہندوستان کو بتدریح خود مختار حکومت دی جائے۔1937ء میں جب کانگریس برسراقتدار آئی اور اس نے مسلمانوں کی قومی ہستی کو ختم کرنا چاہا تو سوال یہ پیداہوا کہ کون ہوگا جو مسلمانوں کو اس نازک صورتحال سے باہر نکالے گا؟ کون ان کو آزادی کا خوبصورت احساس دلائے گا؟ مسلم لیگ کی قیادت جن ہاتھوں میں آئی وہ شخصیت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ تھے۔قائد اعظم کی شاندار شخصیت نے کانگریس کو یہ باروکرایا کہ ہندواور مسلمان دوعلیٰحدہ قوت ہیں ۔مسلم قوم کایہی نظریہ حیات تحریک پاکستان کی اساس بناانہوں نے یہ واضع کردیا کہ مسلمان اپنی انفرادی واجتماعی ہدایات ورہنمائی قرآن اور رسول ۖ کی سنت سے حاصل کرتے ہیں ۔
مارچ1947 ء میں حکومت برطانیہ نے لارڈ ویول کو واپس بلالیا اور اس کی جگہ لارڈ مائونٹ بیٹن کو وائسرے بناکر بھیجا کانگریسی اور مسلم لیگی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچاکہ ملک کی تقسیم کے بغیر کوئی اور چارہ نہیں ہے ہندو ستان میں تحریک آزادی نے ایک طوفان کاروپ اختیار کرلیا اس جدوجہد آزادی میں تحریک پاکستان ایک شاعر نے ولولہ انگیزتاریخی نظم جس کے ایک شعر نے تاریخی حیثیت حاصل کرلی یہ تحریک پاکستان کے نامور شاعر ومقرر سید یاور حسین کیف بنارسی تھے۔
(لے کے رہیں گے پاکستان بٹ کے رہے گا ہندوستان)
ہمیں پاکستان سے محبت ہے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سے عقیدت ہے اس کے مصور سے لگاؤ ان مجاہدین کیلئے ہمارے پاس مغفرت کی دعائیں ہیں، لاکھوں قربانیوں کا ثمر ہے لہٰذا ہمیں اگر واقعی پاکستان سے محبت ہے اور اگر ہم اسکا تحفظ چاہتے ہیں تو ہمیں اسلامی اصولوں پر عمل پیراہوکر فطری وحدت اور قومی اتحاد پیدا کرنا ہوگا،تعصب نے اس پیارے وطن کے بہت نقصان پہونچایا ہے وسیع قلبی نہ جانے کہاں چلی گئی ہے پاکستان کی تعمیروترقی میں اپنا کردار مفاداتی طرز فکرسے ہٹ کرادا کرنا ہوگا ناراض دلوں کو پیار سے تسخیر کرنا ہوگا جب جاکر ہمیں وہ پاکستان مل جائے گا جو بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے ہمیں باری تعالیٰ کی رضا کے طفیل دیاہے
یہی ہماری آبرو ہے یہی ہمارے خوابوں کی تعبیرہے اور یہی پاکستان اسلام کا قلعہ بھی ہے، شدت پسندی کو اپنے ذہنوں سے نکال کر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا۔
موج بڑھے یاآندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے
گھرکی خاطر سودکھ جھلیں گھرتو آخر اپنا ہے
اللہ تبارک تعالیٰ پیارے وطن پاکستان میں امن وسکون پید افرمائے اس پاک سرزمین کو سرسبزوشاداب اور اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔(آمین)۔