ہادی برحق حضرت محمد ﷺنے زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق امت کو ہدایت اور نصائح فرمائی ہیں ، آپ ﷺ کی یہ زریں نصائح زندگی کے ہر میدان میں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ، نبی کریم ﷺنے مسلمانوں کو حقوق کے متعلق وہ روشن پہلو دکھائے کہ جس پر عمل کرکے ہم اللہ اور اس کے پیارے محمد ۖ کی رضا حاصل کرسکتے ہیں جہاں سرکار رسالت ۖ نے ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ بتایا وہیں آپ ۖ نے یتیم کی سرپرستی کے حوالے سے واضح احکامات جاری کئے ، حضور اکرم ۖ نے فرمایا کہ ”میں ۖ اور یتیم کا سرپرست یتیم چاہے اس کا رشتہ دار ہو یا اجنبی ہو ، جنت میں اس طرح ہوں گے ،یہ فرماکر آپ ۖ نے اپنی دو انگلیوں شہادت کی انگہلی اور بیچ کی انگلی کو ملایا۔
(مسلم عن ابی ہریرة کتاب الزھد )
سرپرست ، یتیم کا رشتہ دار بھی ہوسکتا ہے مثلاً دادا ، چچا ، بڑا بھائی ، ماموں ، پھوپھی اور خالہ زاد اور وہ شخص بھی سرپرست ہوسکتا ہے جس کا یتیم کے ساتھ قرابت رشتے کا تعلق نہ ہویتیم کی کفالت کرنے کی معنی ہیں اس کی تعلیم و تربیت ، قیام و طعام اور ضروریات زندگی کا انتظام کرنا ۔ اس کی جائیداد کی نگرانی اور حفاظت کرنا۔ سرپرست کو یتیم کے مال سے کچھ نہ لینا چاہیے، یہ کہ وہ غریب ہو تو معروف طریقے سے یتیم کے مال میں سے اپنی خدمات کا معاوضہ وصول کرسکتا ہے ۔ کوئی سرپرست کسی بھی طرح یتیم کے مال پر بری نگاہ ڈالے گا اور مال ہضم کرنے کی سوچے گا تو ایسے سنگدل (سرپرستوں) کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :
”\\جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں ، درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے
(سورة النساء ، آیت 10)
مالدار کی کفالت بڑا کٹھن مرحلہ ہے ، لیکن غریب اور مفلس یتیم کی کفالت بھی بڑے عزم اور حوصلہ کی بات ہے ۔ جو شخص یہ ذمہ داری قبول کرتا ہے اور اسے ایمانداری اور بے غرضی سے پورا کرتا ہے وہ لازماً اس بات کا مستحق ہے کہ جنت میں اسے حضور اکرم ۖ کی قربت نصیب ہو ۔ اور جب وہ جوان ہوجائیں اور کاروبار کرنے کی ان میں صلاحیت پیدا ہوجائے تو سرپرست کو چاہیے کہ ان کا مال انہیں واپس کردے ۔ نبی کریم ۖ نے فرمایا : ”مسلمانوں کے گھروں میں سے بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہے اور اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بُرا گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے باپ کی وفات سے بچے عام طور پر احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کے دل غم و حسرت کی لہروں کی گذر گاہ بن جاتے ہیں اگر سرپرست ذی فہم اور خداترس ہو تو اپنے بہترین اخلاق سے یتیم بچے کی دلجوئی میں کوئی کسر اٹھاکر نہیں رکھتا ۔ مفلس اور غریب یتیموں کی معاشی کفالت کرنےوا لوں کو حضور ۖ نے تین باتوں کی خوشخبری دی ہے :
١۔ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ اس عابد کی طرح محبوب ہے جو ہمیشہ رات کو نوافل ادا کرتا ہے اور دن میں روزے رکھتا ہے ۔
٢۔ وہ اس مجاہد کے ہم مرتبہ ہے جو ہمیشہ اللہ کی راہ میں لڑنے کیلئے اپنی تلوار کو سونتے رہتا ہے ۔
٣۔ وہ جنت میں حضور اکرم ۖ کے قریب اور نگاہ کرم کا مستحق ہوگا ۔
ایک آدمی نے سرکار دو عالم ۖ سے شکایت کی کہ میرا دل سخت ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیراور مسکین کو کھانا کھلا،کسی کو مصیبت میں مبتلا پاکر جس کا دل نرم نہ ہو اور جو شخس کمزور اور مظلوم پر رحم نہ کرے وہ سنگدل ہے ۔ ایک شخص نے حضور ۖ کی خدمت اس روحانی بیماری کی شکایت کی تو آپ ۖ نے اس کا علاج بتایا کہ : ” تم یتیم کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا کرو اور مسکینوں کو کھانا کھلایا کرو ۔ یہ کام مسلسل کرنے سے دل میں نرمی پیدا ہوجائے گی ۔ غریبوں اور مسکینوں سے نہ تو قرابت کا تعلق ہوتا ہے اور نہ ان کی مالی وجایت ایسی ہوتی ہے ۔ جس کے بناء پر آدمی انہیں کھانا کھلانے پر مجبور ہو ۔ اس طرح کے لوگوں کو کھانا کھلانے سے آدمی میں فیاضی و وسعت قلبی اوار رحمدلی کی صفات پیدا ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں رحم وسیع قلبی پیدا کرے اور سرکار رسالت ۖ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)۔