سعد فاروق
ankara escort
çankaya escort
eryaman escort
etlik escort
ankara ucuz escort
balgat escort
beşevler escort
çankaya escort
cebeci escort
çukurambar escort
demetevler escort
dikmen escort
eryaman escort
esat escort
etimesgut escort
etlik escort
gaziosmanpaşa escort
keçiören escort
kızılay escort
maltepe escort
mamak escort
otele gelen escort
rus escort
sincan escort
tunalı escort
türbanlı escort
ulus escort
yenimahalle escort
کشمیر برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا کہلاتا ہے۔ ماؤنٹ بیٹن نے نہرو کے ساتھ ساز باز کرکے کشمیر کو پہلے ہی بھارت کے ساتھ شامل کر لیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت کانگریس تحصیل کی سطح جبکہ مسلم لیگ ضلع کی بنیاد پر تقسیم کی حامی تھی لیکن لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے سازش کرتے ہوئے ضلع گورداسپور کے مسلم اکثریتی علاقے بھارت میں شامل کرکے بھارت کو کشمیر جانے کا رستہ دیا۔
دوسرا دھو کا مسلم اکثریتی علاقے مقبوضہ جموں کشمیر کے مہاراجا ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ چوری چھپے نام نہاد معاہدہ کرکے دیا جس کے نتیجے میں مقبوضہ جموں کشمیر پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ ہری سنگھ کے ساتھ بھارت معاہدے کے تحت بھارتی آئین میں دفعہ 370 قائم کی گئی جس کی رو سے بھارت کو صرف دفاع، امور خارجہ اور مواصلات کا شعبہ دیا گیا جبکہ اسی دفعہ کے تحت مقبوضہ جموں کشمیر کو الگ حیثیت رکھنے اجازت دی گئی۔
مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارت کی بجائے کشمیر کا اپنا الگ جھنڈا ، آئین اور قانون ساز اسمبلی بنی۔ ہری سنگھ کے زمانہ میں کشمیر کے سب سے بڑے لیڈر شیخ محمد عبداللہ اور غلام عباس تھے۔ شیخ صاحب کی دوستی پنڈت نہرو سے تھی اور غلام عباس مسلم لیگ کے لوگوں کے قریب تھے۔ تقسیم کے بعد جب ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ جس کی سرحدیں جس ملک سے ملتی ہوں اور جس کی اکثریت جس ملک سے وابستہ ہونا چاہے وہ اپنا فیصلہ خود کرلے۔
شیخ عبداللہ اور غلام عباس راجہ سے جو لڑائی لڑرہے تھے وہ یہ تھی کہ کشمیر کو آزاد کردیا جائے۔ تقسیم کے بعد بھی کشمیریوں کی اکثریت نے آزادی کی بات کی غلام عباس صاحب پاکستان چلے گئے اور شیخ عبداللہ اور راجہ دہلی آگئے اور پنڈت نہرو سے کہا کہ پاکستان کشمیر میں گھسنے کی کوشش کررہا ہے اپنی فوج بھیج کر اُنہیں روک دیجئے۔ معاہدۂ دہلی ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن شیخ صاحب کا کہنا یہی تھا کہ انہوں نے اپنے دوست پنڈت نہرو سے صرف یہ چاہا تھا کہ وہ پاکستان کو نہ آنے دیں۔ اور ہندوستان نے ہوائی فوج بھیج کر پاکستان کو وہاں روک دیا جہاں کشمیر میں وہ آج تک ہے۔
کشمیر میں شیخ صاحب نے اس طرح حکومت بنائی کہ وہ خود وزیراعظم تھے کرن سنگھ صاحب کو ریاست کا صدر بنایا۔ اپنا دستور بنایا اور اپنا پرچم بھی الگ کرلیا۔ ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت نہرو نے نہ جانے کتنی بار اور کہاں کہاں یہ کہا کہ یہ عارضی انتظام ہے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کے لوگ خود کریں گے جس کے لئے اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کروائی جائے گی۔ لیکن پنڈت جی اپنی بات پر قائم نہ رہ سکے۔
کشمیر کو نہرو نے کشمیر کو ہندوستان کا صوبہ بنانا چاہا اور جب ان کے جگری دوست شیخ عبداللہ نے سخت مخالفت کی تو انہیں جیل میں ڈال کر بارہ برس بند رکھا۔ تیرہ نومبر 1974کو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اورشیخ عبداللہ کے درمیان جیل میں ذاکرات ہوئے۔ اقتدار کی خاطر شیخ عبداللہ نے دفعہ 370 کا نفاذ منظور کرتے ہوئے کشمیر کا سودا کر دیا۔ جو کام نہرو سے نا ہوسکا وہ اس کی بیٹی نے کر دکھایا۔ اس فیصلے کے خلاف کشمیرمیں بھرپور مظاہرے ہوئے اور تحریک آزادی مزید مضبوط ہوئی۔
دفعہ 370 ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین میں خصوصی نیم خودمختار حیثیت دیتا تھا۔ اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور بھارت کے آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں اس آرٹیکل کے تحت ان کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر نہیں ہو سکتا تھا۔اس کے تحت ریاست کو اپنا آئین بنانے، الگ پرچم رکھنے کا حق دیا گیا تھا جبکہ انڈیا کے صدر کے پاس ریاست کا آئین معطل کرنے کا حق بھی نہیں تھا۔ اس آرٹیکل کے تحت دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ کسی اور معاملے میں بھارتی حکومت یا پارلیمان ریاست میں ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر بھارتی قوانین کا اطلاق نہیں کر سکتی تھی۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی ریاست میں یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔اس کے تحت ریاست کو اپنا آئین بنانے، الگ پرچم رکھنے کا حق دیا گیا تھا جبکہ انڈیا کے صدر کے پاس ریاست کا آئین معطل کرنے کا حق بھی نہیں تھا۔ اس آرٹیکل کے تحت دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت یا پارلیمان ریاست میں ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر بھارتی قوانین کا اطلاق نہیں کر سکتی تھی۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی ریاست میں یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔
آرٹیکل 35 اے کیا تھا؟
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی صدارتی حکم کے تحت اس میں شامل کیا جانے والا آرٹیکل 35 اے بھی ختم ہو گیا ہے جس کے تحت ریاست کے باشندوں کی بطور مستقل باشندہ پہچان ہوتی تی اور انھیں بطور مستقل شہری خصوصی حقوق ملتے تھے۔
انڈیا کے آئین میں جموں و کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق دفعہ 35 اے کا مسئلہ کشمیر سے بھی پرانا ہے۔ اس قانون کی رُو سے جموں کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا، یہاں سرکاری نوکری حاصل نہیں کرسکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ کشمیری عورت یا لڑکی کو غیر کشمیری مثلا بھارتی شہری سے شادی کی صورت میں کشمیری شہریت سے محروم ہونا پڑتا تھا۔
اب اس دفعہ کے بھارت کی جانب سے خاتمے کے بعد واضح اور نتیجہ خیز طور پر بھارت کا کشمیر سے تعلق مکمل ختم ہو گیا ہے اور اب کشمیری اپنی خودمختاری کا اعلان کر سکتے ہیں۔ کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ آئینِ بھارت میں موجود یہ حفاظتی دیوار گرنے کے نتیجے میں تو وہ فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہو جائیں گے، کیونکہ غیر مسلم آبادکاروں کی کشمیر آمد کے نتیجے میں ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قبضہ ہو سکتا ہے۔
جو دو غدار خاندان (عبداللہ اور مفتی خاندان) پچھلے 70 سال سے بھارت کا ایجنڈا لے کر مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے نمائندے تھے، دیکھیں ان کے ساتھ کیسا سلوک ہو رہا ہے۔ آج وہ بھی وہی بول رہے ہیں جو ایک حریت پسند کا موقف رہا ہے۔ اس سے یہی پتا چلتا ہے کہ جو لوگ جموں اور کشمیر میں انڈیا کے موقف کے حمایتی تھے وہ لوگ اب کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے۔