The news is by your side.

ٹماٹر سے آگے جہاں اور بھی ہیں!

تحریر: نادیہ حسین

بڑھتی ہوئی سردی نے باورچی خانے میں چولھے اور در و دیوار کو ابھی ٹھنڈا کرنا شروع ہی کیا تھا کہ اچانک ٹماٹر کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمت نے اسے پھر گرما دیا۔

ان دنوں ہر طرف یہی زیرِ بحث ہے کہ ٹماٹر کی قیمت تین سو روپے فی کلو ہے، مگر سالن بنانا ہے تو ٹماٹر خریدنا ہی پڑے گا جب کہ جیب اجازت نہیں دے رہی۔ غریب تو ایک طرف یہ جو متوسط اور نیم خوش حال گھرانے ہیں، وہ بھی مشکل میں ہیں۔ خواتین کی پریشانی یہ ہے کہ پکائیں تو کیسے اور ہنڈیا کے لوازمات کیسے پورے ہوں؟ گائے کا گوشت، مرغی، سبزی دال سبھی کچھ تو منہگا ہے اور اوپر سے یہ ٹماٹر سب پر حاوی ہو گیا ہے۔ اس گرانی کے بعد ہم وطنوں کی حالت کسی شاعر کے اس مصرع میں عیاں ہے۔
سر چھپائیں تو بدن کھلتا ہے

لوگ یہی دہائی دے رہے ہیں کہ اب سالن کے لوازمات کا کیا کریں؟ پکوان بے مزہ اور اکثر ڈشیں اس غذائی جنس کے بغیر گونگی بہری سی معلوم ہو رہی ہیں۔ لیکن اس جلنے کڑھنے کے علاوہ مجال ہے کسی نے گرانی کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے ناجائز منافع خوروں کا بائیکاٹ کیا ہو۔ یہ کہا ہو کہ جتنا منہگا کرنا ہے کر لو، ہم بھی نہیں خریدیں گے تم سے ٹماٹر۔ جب ٹھیلوں پڑا سڑے گا تو دماغ خود ہی ٹھکانے آجائے گا۔ ہم واقعی قوم نہیں ایک ہجوم ہیں جو کسی بھی موقع اور کسی بھی معاملے پر متفق و متحد نہیں ہوتا۔

ہمارے یہاں اوّل تو چور بازاری، ناجائز منافع حاصل کرنا معمول کی بات ہے، مگر سال میں ایک بار ٹماٹر کو جانے کیا ہونے لگا ہے کہ سبھی کی قوتَ خرید سے باہر نکل جاتا ہے۔ عیدین پر تو ٹماٹر منہگا ہونا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ محرم اور ربیع الاول میں بھی یہ غذائی جنس بازاروں میں آکر منہگی ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ نیاز کی غرض سے ملک بھر میں لگ بھگ پورے مہینے پکوان کا سلسلہ ہے جس کا بدبخت ناجائز منافع خور دنیاوی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ٹماٹر اکثر سالن اور بریانی کا لازمی جزو ہے۔ بیوپاری کے لیے یہ سنہری موقع ہوتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ خواتین کھانوں میں کچھ ڈالیں یا نہ ڈالیں ٹماٹر ضرور ڈالیں گی، ورنہ ہنڈیا میں ذائقہ نہیں آتا۔

سچ تو یہ ہے کہ ٹماٹر کھانوں میں کھٹاس، ترشی اور سالن کو رسیلا بنانے کے لیے ڈالا جاتا ہے مگر گوشت کے پکوان میں اس کا بہترین متبادل دہی ہے۔ سزیوں میں کھٹاس اور ترشی کے لیے لیموں کا رس ڈالا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹاٹری بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ یعنی یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ اب گھروں میں گویا سالن ہی نہیں بن سکتا۔
خدا کی بندیو! جتنے دن ٹماٹر منہگا رہے، کچھ ایسے پکوان کر لو جو ٹماٹر کے بغیر بھی ذائقہ اور زبان کو چٹخارہ دے سکیں۔ ہاں، گھر میں کسی کی دعوت کا اہتمام کیا ہو اور کڑاہی بنانا ہو تو ٹماٹر ضروری ہیں، مگر یہ بھی کس نے کہا کہ دعوت کے موقع پر میزبان کڑاہی بنا کر ہی سامنے رکھے۔ الغرض، ٹماٹر ہی سب کچھ نہیں۔

اگر سنجیدگی سے بات کی جائے تو ہماری عادات بھی ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ ہم اسے بدلنے کو تیار نہیں جب کہ ہم اپنے اسلاف کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو صبر، شکر اور کسی چیز سے ہاتھ روک لینے کی کئی مثالیں مل جائیں گی۔
اسلام اور تاریخ کے ادنیٰ ترین طالبِ علم سے بھی پوچھیں تو وہ جانتا ہے کہ رسول اکرم ﷺکے دستر خوان سے لے کر کربلا تک صبر و قناعت اور خود کو کسی کام اور عمل سے دل چاہتے ہوئے بھی باز رکھنے کے ان گنت مستند واقعات ہمارے لیے عظیم مثال ہیں۔ تو کیا ہم اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ایک معمولی چیز کے لیے صبر کا مظاہرہ نہیں کر سکتے اور اگر نہیں تو پھر زندگی کے کسی اہم موڑ پر جب قربانی اور ایثار کرنے کا وقت ہو گا تو کیا کریں گے؟

اس نکتے پر غور ضرور کیجیے گا، مگر پہلے ٹماٹر سستے ہونے دیں!

شاید آپ یہ بھی پسند کریں