The news is by your side.

اسپتال میں‌ سفید کفن تقسیم کرتے کالے کوٹ والے!

تحریر: نادیہ حسین

وکالت کا امتحان دینے کے بعد جب عملی طور پر متحرک ہوئی تو عزیز و اقارب اور احباب نے ازراہِ تفنن مجھے دیکھ کر وہی شعر پڑھنا شروع کر دیا جو آپ نے بھی سنا ہو گا۔

پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا۔۔۔ اسے ادھورا ہی چھوڑ دیتی ہوں کہیں وکلا مشتعل نہ ہوجائیں۔ میں بھی یہ سوچ کر کچھ نہیں کہتی تھی کہ ہمارے یہاں لوگوں کو مذاق کی عادت ہے اور خاص طور پر خواتین کی پیشہ ورانہ تعلیم کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔اصل بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں وکلا کا مذاق اڑاتے ہوئے انتہائی فضول اور بھونڈی باتیں کرنا عام ہے اور انھیں شیطان کی اولاد تک کہہ دیا جاتا ہے، مگر گزشتہ دنوں وکلا کی جانب سے جس طرح اسپتال پر منظم حملہ کیا گیا اسے دیکھ کر یہ سب باتیں درست لگنے لگی ہیں۔

غضب خدا کا یہ انصاف کے متوالے اور قانون کے پاس دار تھے۔ لشکر کا لشکر دھمکیاں دیتا ہوا اور اپنی ویڈیو بناتا ہوا اپنے ہی ملک کے اسپتال پر حملہ کرنے کے لیے ایسے بڑھ رہا تھا جیسے کسی دشمن ملک پر حملہ کرنے جا رہا ہو۔ مانا کہ ڈاکٹروں نے کچھ ایسا کیا جس پر آپ کے جذبات کو ٹھیس پہنچی، لیکن ان غریب مریضوں کا کیا قصور تھا جو پہلے ہی موت سے جنگ لڑ رہے تھے۔

اطلاعات یہ تھیں کہ وہاں مریضوں کے آکسیجن ماسک نکال کر پھینکے گئے، وینٹیلیٹر الگ کر دیے اور آپریشن تھیٹر پر دھاوا بولا گیا۔ متعدد مریض زندگی کی بازی ہار گئے۔ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا جو غریب عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے بنی تھیں۔ گاڑیوں کو آگ لگا کر وکلا کے غصے کی آگ ٹھنڈی ہو ئی۔ اب تحقیقات ہوں گی، کمیٹیاں بنیں گی اور ہمیشہ کی طرح بالآخر تمام معاملات افہام و تفہیم سے طے پا جائیں گے۔ رہی بات مرنے والوں کی تو صاحب ان کی موت اسی طرح لکھی تھی۔ اب اللہ کے کاموں میں کون مداخلت کرے؟ رہ گئے لواحقین تو ان کے لیے مالی امداد کا لالی پاپ ہے نا۔

ٹی وی چینلوں پر وکلا کی جانب سے اسپتال پر دھاوا بولنے کی جو فوٹیج چل رہی تھی اسے دیکھ کر مجھے وہ کراٸسٹ چرچ میں مسجد پر حملہ کرنے والا یاد آیا، ہم اب تک اس کی مذمت کرتے نہیں تھکتے لیکن اپنے ملک کے وکلا کی لشکر کشی کو کیا نام دیں؟ وہ دہشت گردی تھی، یہ وکلا گردی ہے، لیکن انسانی جانیں تو دونوں ہی واقعات میں ضایع ہوئیں۔ وکیل کا تو کام ہی دلیل اور منطق سے اپنا موقف درست ثابت کرنا ہوتا ہے، اگر وکیل ہی قانون اپنے ہاتھ میں لے تو پھر اس میں اور مجرم میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟

گذشتہ دس بارہ سال کے دوران وطنِ عزیز میں جو اصطلاح بے حد مقبول ہوٸی ہے وہ وکلا گردی ہے۔ سچ کہیے تو ملک میں سیاست دانوں کے بعد سب سے زیادہ بدنام وکلا ہیں۔ آئے روز وکلا گردی کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ جو پیشہ پاکستان کے بانی کی شناخت تھا، اسے موجودہ نسل نے اپنے طرزِ عمل سے اتنا بدنام کر دیا ہے کہ اب لوگ وکلا کو مافیا کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ حالیہ واقعے کے متعلق کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اچھے برے لوگ تو ہر جگہ ہوتے ہیں، وکلا میں بھی کچھ کالی بھیڑیں ہیں، مگر سب وکیل ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اس واقعے کے پیچھے وہی شرپسند عناصر ہیں جو اس قسم کی کاررواٸیوں میں آگے آگے ہوتے ہیں اور انتشار پھیلا کر ریاست کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بات تو ٹھیک ہے لیکن ایک طبقہ یہ کہہ رہا ہے کہ حالیہ واقعے میں پنجاب بار کونسل نے جس طرح ہڑتال کی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ منظم حملہ تھا۔ یہ ریاست کے خلاف سوچی سمجھی سازش تھی جس میں نقصان سراسر غریب عوام کا ہوا۔

دیکھا جائے تو اس وکلا گردی کے پیچھے بھی ہمارے نظام کی خامیاں اور کم زوریاں ہی کارفرما ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں وکلا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور اپنے طرزِ عمل میں شائستہ ہوتے ہیں۔ ایک طرح سے وہ اپنے معاشرے کا زرخیز اور روشن چہرہ ہوتے ہیں، مگر ہمارے یہاں تو یہ بھی مشہور ہے کہ جسے کوٸی کام نہیں ملتا وہ وکیل بن جاتا ہے۔ تو صاحب جب ہر کوٸی وکیل بن سکتا ہے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے جو پچھلے دنوں ہوا۔ کم از کم ہمیں اپنے قاٸد کے پیشے کی تو عزت اور تکریم کروانی چاہیے۔ شاید ہم نے دہشت گردی کو تو بڑی حد تک شکست دے دی ہے اور اب ہمیں وکلا گردی کا سامنا ہے جس کا مکمل علاج اب ضروری ہو گیا ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں