کوٸی بھی معاشرہ اپنے جغرافیاٸی حالات کے تناظر میں پنبنے والی روایات اور قوانین کی بنیاد پرہی نمو پاتا ہے ۔ مشرق ہو یا مغرب ہر خطے کی اپنی روایات ہوتی ہیں جو صدیوں کا سفر طے کرنے کے بعد ایک معاشرتی ڈھانچہ تشکیل دیتی ہیں اور اس میں رہنے والے اگر ان روایات سے انحراف کریں تو وہ اجنبیت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
یوں تو دنیا میں گزشتہ دو تین دھاٸیوں میں تیزی سے تبدیلیاں آٸی ہیں جنھوں نے ہر معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں ۔ خصوصا مشرق میں جدیدیت کی لہر نے بہت سی ایسی روایات چھین لی ہیں جو کبھی ہ مشرقی معاشرے کا حسن اور خاصا سمجھی جاتی تھیں ۔ ایک دور تھا جب رشتہ داروں سے میل ملاپ اور دوستیاں تعلق نبھانا زندگی کا سب سے اہم جزو تھا ۔ والدین کسی بھی گھرانے کا سب سے اہم ستون اور باعث رحمت و برکت سمجھے جاتے اور انہیں جو مقام حاصل تھا اس کا شاید عشر عشیر بھی آج حاصل نہیں ۔
بچے سانجھے سمجھے جاتے لہذا کسی غلط کام پر خاندان ہی نہہں محلے علاقہ کے بڑے بزرگ بھی ڈانٹ ڈپٹ حتی کہ مارپیٹ بھی کرتے تو والدین کے ماتھے پر بل تک نہ آتا ۔ ہر گلی میں ایک جگہ ایسی ضرور ہوتی جہاں علاقے کے بزرگ اکٹھے بیٹھ کر محفلیں سجاتے اور اسی بیٹھک میں محلہ کے ہر گھر پر نظر رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا گویا ان کے فراٸض منصبی میں شامل تھا ۔ محلے کی شادی اور فوتگی پر ہر گھر میں یوں خوشی اور غم پایا جاتا جیسے اسی گھر کا معاملہ ہو ۔ کسی گھر میں مہمانوں کی آمد پر باقی محلے کے لوگ رشک کرتے اور بصد اصرار ان مہمانوں کو اپنے گھر لانے کے لیے میزبانوں کی منت سماجت کرتے دکھاٸی دیتے ۔ کسی گھر میں کچھ بھی پکتا تو ہمسایوں کا حصہ ضرور شامل کیا جاتا ۔ ایک وقت میں تمیز حیا اور پردہ مشرقی معاشرے کے ماتھے کا جھومر تھا ۔ شعرو ادب اور موسیقی دلوں کی دھڑکن تھی ۔
آج جدیدیت کا شکار ہونے کے بعد ایسے بے شمار عیوب ہماری زندگی میں شامل ہو چکے ہیں جن کا چند سال پہلے تک تذکرہ کرنا بھی قریب ناممکنات میں شامل تھا ۔ بہرحال اب بھی خال خال پرانے روایتی مناظر دیکھنے کو مل تو جاتے ہیں ۔ مگر بطور معاشرہ ہم صدیوں میں جڑیں پکڑنے والی روایات کو اکھاڑ کر جدت پسندی کے سر پٹ دوڑتے گھوڑے کے سموں تلے روند چکے ہیں ۔ آج کے آرٹیکل میں ایک ایسے معاشرتی رویہ کی جانب توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں جو خوبصورت اور رومانٹک جذبے سے جڑا تھا ۔ ایک دور میں خواتین کا اپنے شوہر کا نام لینا اتنا معیوب سمجھا جاتا تھا جتنا کسی کے متعلق غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کرنا ۔ بیویاں اپنے شوہر کا نام لینے کی بجاٸے میاں صاحب ، سرتاج ، کسی بچے یا بچی کا ابا کہہ کر پکارتی تھیں ۔ خاوند کی عدم موجودگی میں بھی بیوی ”ان“ کی بات یا ”انہوں “نے کہا کے جملے استعمال کرتیں جس سے سب سمجھ جاتے کہ ” ان” سے مراد خاتون کے شوہر نامدار ہیں ۔ سینکڑوں کے مجمع میں بیوی ”بات سنیں جی” کی آواز لگاتی تو اس کا مجازی خدا جان جاتا کہ خاتون خانہ اس سے ہی مخاطب ہے ۔
بہت سی خواتین اپنے خاوندوں کا نام لینے کی بجاٸے اس کی ذات یا برادری کے نام پکارتیں جیسے چوہدری صاحب ، بٹ صاحب ، خان صاحب ، سردار صاحب وغیرہ ۔ اپنے خاوند کا نام لینے سے بچنے کے لیے خواتین نے سو سو طریقے ایجاد کر رکھے تھے ۔ یہ روایت اتنی مضبوط تھی کہ خاندان کے لڑکے لڑکیاں نٸی نویلی دلہن کو شوہر کا نام لینے کا چیلنج دیتے جو ہمیشہ ہی دلہن ہار جاتی ۔خاوند کا نام نہ لینے کی روایت کے حوالے سے ایک لطیفہ بڑا مشہور ہوا ۔ کہ ایک شخص کا نام رحمت اللہ تھا اس کی فرمانبدار بیوی جب نماز پڑھتی تو سلام پھیرتے ہوٸے رحمت اللہ پڑھنا پڑتا لہذ وہ اسلام علیکم منے کے ابا کہہ کر سلام پھیر لیتی ۔۔۔ بہرحال لطیفہ ااپنی جگہ مگر یہ روایت اتنی مضبوط تھی کہ اس سے انحراف عیب شمار کیا جاتا ۔ آج بھی چھوٹے شہروں میں زیادہ تر بیویأں خاوند کا نام لینے سے احتراز ہی کرتی ہیں ۔
مگر بڑے شہروں میں بیویاں یا تو شوہر کا نام پکارتی ہیں یا پھر ایسے نک نیم جنھیں سن کر ہنسی آجاٸے ۔ سویٹی ، سویٹو، ہنی ، جانو ، مون اور انگریزی کے چنگے بھلے الفاظ کو تروڑ مروڑ کر خاوندوں کے نام ایجاد کیے جاتے ہیں ۔ گو کہ نام لینے میں کوٸی براٸی نہیں مگر مدعا یہ ہے کہ اس روایت میں ایسی کیا خرابی نظر آٸی کہ اس کا گلا گھونٹ دیا گیا ۔
اس روایت کے حوالے سے خواتین بھی مختلف آراء رکھتی ہیں ۔ اس روایت کے حق میں خواتین کا کہنا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ جتنا محبت کے جذبے میں گندھا ہوتا ہے اتنا ہی نازک بھی ہے ۔ مرد ہمیشہ اہنی بیوی سے محبت کے ساتھ ساتھ عزت اور احترام کا بھی متمنی ہوتا ہے ۔ احتراما بیوی کی جانب سے نام نہ لینے کی روایت میاں بیوی میں احترام کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور خاوند جسے اپنے خاندان کے لیے روزانہ گھر سے باہر مختلف مساٸل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسے گھر میں اس روایت کی وجہ سے عزت کا احساس ملتا ہے جس کے بعد وہ بھی بیوی کو اسی طرح محبت اور احترام دینے کی کوشش کرتا ہے ۔
بعض خواتین آج بھی سمجھتی ہیں کہ جدیدیت نے ایک ایسی روایت کو ختم کر دیا جس کے ساتھ لطیف جذبات اور احساسات جڑے ہیں ۔ اس حجاب آمیز محبت میں ایسی کشش تھی جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ ویسےتو خاوند کو نام سے پکارنے میں بظاہر قباحت تو کوٸی نہیں تاہم یہ نام لیے بغیر محبت اور احترام کے اظہار کا نعم البدل نہیں ۔ شاید آج کی عورت کو اس روایت کی وجہ مرد سے کم تر ہونے کا احساس ہوتا ہے اسی لیے اسے ترک کر دیا گیا ۔ اس روایت کے خاتمہ کی ایک بڑی وجہ پسند کی شادیوں میں اضافہ بھی ہے میاں بیوی شادی سے پہلے ہی ایک دوسرے سے بے تکلف ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے شادی کے بعد بھی اسی بے تکلفی کے باعث خاتون روایتی مشرقی بیوی جیسا رویہ نہیں اپناتی ۔
ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے خواتین گھروں سے باہر کم ہی روزگار کے لیے نکلتی تھیں اب جدید دور میں عورت مرد کے شانہ بشانہ ہر شعبہ میں کام کر رہی ہے ۔ اسی لیے ایک ورکنگ ویمن سے پچاس سال پرانی گھریلو خواتین جیسے رویہ کی توقع کرنا بہرحال انصاف نہیں ۔ وجوہات جو بھی ہوں مگر شوہر کا نام لینے میں ہچکچاہت ایک دلکش اور محبت و احترام سے بھرپور روایت تھی جس سے وابستہ خوبصورت یادیں بے شمار خاندانوں کی آج بھی وراثت ہیں اور دھاٸیوں پہلے اسی روایت کی بنا پر رونما ہونے والے واقعات آج بھی دلوں میں مٹھاس اور لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں۔