قارئینِ کرام! گزشتہ آرٹیکل میں ہم نے ولیم شیکسپئر کی شناخت کے حوالے سے متشککین کے اہم نکات پر بحث کی تھی جو اپنے دلاٸل کی بنیاد پر اسٹراٹ فورڈ کے ولیم شیکسپئر کو اس عظیم ادب کا خالق تسلیم نہیں کرتے۔
تین نسلوں نے تحقیق کے دوران درجنوں ادیب اور شاعروں کو ان عظیم ڈراموں اور شاعری کا خالق گردانا جن میں فرانسس بیکن جیسی شخصیت بھی شامل ہے۔ تاہم قرعہ آکسفورڈ کے سترھویں نواب ایڈورڈ ڈی ویری کے نام پر نکلا۔
ایڈورڈ ڈی ویری 1550ء میں پپدا ہوا۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔ فرانسیی اور لاطینی زبانوں پر عبور رکھتا تھا اور نوابوں کے تمام رسمی فنون پر دسترس رکھتا تھا۔ بارہ برس کی عمر میں اس کا باپ فوت ہوا تو اس کی ماں نے دوسری شادی کر لی تاہم وہ اپنی ماں کے ساتھ رہنے کو تیار نہ تھا جس کے بعد وہ شاہی نگرانی میں چلا آیا۔ ریاست نے ولیم سیسل کو اس کا سرپرست مقرر کیا۔
سیسل ملکہ الزبتھ کا بااعتماد مشیر اور وزیر خزانہ تھا اسی نے ایڈورڈ کا تعارف اہل دربار سے کروایا۔ ایڈورڈ ڈی ویری ایک سحر انگیز شخصیت رکھنے والا خوبصورت انسان تھا لہذا جلد ہی وہ ملکہ کے پسندیدہ عمائدین میں شامل ہو گیا۔ ایڈورڈ کی شادی اپنے سرپرست کی بیٹی اینی سیسل سے ہوئی۔
(اس کے ڈرامہ سمبلائن کا ہیرو یوستھس لیوناٹس بھی شاہی زیر دست تھا اور اس کی شادی بھی اپنے سرپرست کی بیٹی سے ہوئی)۔ چوبیس سال کی عمر میں ایڈورڈ ڈی ویری یورپ کے دورے پر روانہ ہوا۔ واپسی کے سفر میں اس کے بحری جہاز پر قزاقوں نے حملہ کرکے مسافروں کو قیدی بنا لیا۔ قزاق قیدیوں کے بدلے تاوان لینا چاہتے تھے تاہم جب ڈی ویری نے انھیں ملکہ سے اپنے تعلقات کا بتایا تو انھوں نے بغیر تاوان کے ہی قیدیوں کو رہا کر دیا ۔ ( ایسا ہی واقعہ ہملٹ کے ہیرو کے ساتھ بھی پیش آیا ) اسی دوران اس کی ایک بیٹی ہوئی مگر اسے شک تھا کہ بیٹی اس کی نہیں جس پر اس نے اپنی بیوی پر بد چلنی کا الزام لگا کر اسے طلاق دے دی۔ علیحدگی کے پانچ سال بعد اسے غلطی کا احساس ہوا اور وہ دوبارہ بیوی کے ساتھ رہنے لگا اور بیوی نے بھی اسے معاف کر دیا ۔ ( شیکسپئیر کے ڈراموں میں باکردار بیوی پر الزام ایک اہم موضوع ہے جس میں آخر میں بیوی خطا وار شوہر کو معاف کر دیتی ہے ) ۔
بیوی سے علیحدگی کے دوران اس کا ایک عورت سے معاشقہ ہوا جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ ملکہ نے اس جرم میں اسے گرفتار کروا دیا ۔ چند ماہ بعد وہ رہا ہوا تو اس عورت کے عاشق نے اس پر حملہ کیا جس سے وہ زخمی ہوا اور دونوں خاندانوں میں ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی ۔ ملکہ نے دونوں خاندانوں کو گرفتار کرنے کی دھمکی دی تو معاملہ ختم ہوا ۔ ( اس واقعہ کا عکس رومیو جولیٹ میں دکھائی دیتا ہے) ۔ 1586ء میں ایڈروڈ ڈی ویری چھتیس برس کا تھا تو اس کی مالی حالت خراب ہوگئی ۔ ملکہ نے ہزار پاونڈ سالانہ کا ایک وظیفہ مقرر کیا جو اس دور میں ایک غیر معمولی رقم تھی ۔ ملکہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ پیسہ خرچ کرنے میں بہت بخیل تھی لہذا یہ وظیفہ کوئی معمولی بات نہ تھی ۔ ایڈورڈ ڈی ویری کو شروع سے ہی شاعری اور تھیٹر سے لگاوٹ تھی ۔ کئی ادبی ہستیوں سے اس کے ذاتی تعلقات تھے ۔ نوجوانی میں اس نے اپنے نام سے شاعری اور ڈرامے بھی لکھے جن میں سے کچھ آج بھی محفوظ ہیں ۔ ان میں بعض ڈرامے تو بہت ہی شاندار تھے گو کہ ان میں ولیم شیکسپئر جیسی پختگی نہیں ۔ ڈی ویری نے وہ شاعری اور ڈرامے چھپوائے نہیں کیونکہ اس وقت کے رواج کے مطابق اہل دربار کے لیے چھپوانے کے لیے شاعری کرنا بدنامی کی بات تھی ۔ ملکہ سے وظیفہ ملنے کے بعد ڈی ویری نے کوئی نظم یا ڈرامہ اپنے نام سے نہیں لکھا ۔ وظیفہ ملنے کے بعد وہ دربار سے کنارہ کش ہو گیا ۔
اسی دوران اچانک ایک گمنام ادیب شیکسپئر کے نام سے نظمیں اور ڈرامے چھپنے لگے ۔ 1604 میں وہ طاعون کی وجہ سے فوت ہو گیا ۔ اسے سٹراٹ فورڈ کے قریب ہیکنی کے مقام پر دفنایا گیا ۔ محققین کے مطابق ڈی ویری شیکسپئر کے معیار پر دیگر کی بہ نسبت زیادہ پورا اترتا ہے کیونکہ وہ اعلی تعلیم یافتہ تھا اسے بہت سی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ ایک نواب تھا اور درباری زندگی اور اس کے داؤ پیچ سے بخوبی آگاہ تھا ۔ ڈی ویری کو تمام عمر تھیٹر میں دلچسپی رہی اور ڈرامے لکھتا رہا ۔ وہ اپنی زندگی میں ہی ان امرا میں شمار ہوتا تھا جو شاعری کرتے اور ڈرامہ لکھتے تھے ۔ اس کے زندگی کے بہت سے حالات و واقعات ولیم شیکسپئر کے ڈراموں میں جیتے جاگتے نظر آتے ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ بطور مصنف اس نے خود کو مخفی کیوں رکھا ۔ تو اس کی ایک وجہ تو اس وقت امرا کا اپنی شاعری چھاپنا معیوب سمجھا جاتا تھا دوسرا اس کے ڈراموں کے کردار زیادہ تر دربار سے تعلق رکھتے ہیں اور دربار سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہ تمام لوگ باآسانی پہچان لیے جاتے جو ایک بڑے فساد کی وجہ بن سکتا تھا ۔ اس دور میں ایسی تحاریر پر مقدمہ بازی ہونا ایک معمول کی بات تھی لہذا یہ ایک مضبوط وجہ ہو سکتی ہے ۔ ہو سکتا ہے ملکہ اس کے فن سے آگاہ ہو اور اس نے وظیفہ اسی شرط پر دیا ہو کہ وہ سماجی تقاضوں کا احترام کرتے ہوئے اپنی تحریریوں سے دربار کی ساکھ کو خراب نہیں کرے گا ۔ کسی درباری کو بدنام کرے گا نہ اپنے نام سے شاعری یا ڈرامے چھپوائے گا ۔
سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ شیکسپئر کو ان ڈراموں کا مصنف کیوں تسلیم کیا گیا جبکہ کسی بھی جگہ اس کے شاعر یا ادیب ہونے کا حوالہ موجود نہیں ۔ اس نے اپنی زندگی میں کبھی بھی اپنا کوئی ڈرامہ یا شاعری نہیں چھپوائی ۔ اگر وہی اس عظیم ادب کا خالق تھا تو اس کی زندگی میں جو ڈرامے شیکسپئر کے نام سے چھپے اس نے چوری کر کے چھاپنے والے ناشرین کے خلاف کوئی کاروائی کیوں نہیں کی ۔ قرین قیاس یہی ہے کہ اس جعل سازی کا اہتمام ڈی ویری کے خاندان نے ہی کیا ہوگا ۔ جب 1620 میں ان تحریروں کو چھاپنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس وقت کی درباری پابندیوں اور دیگر عوامل کی وجہ سے ہی شاید ایسا فیصلہ کیا گیا ہو گا ۔
چونکہ مختلف ڈرامے شیکسپئر کے نام سے چھپ چکے تھے سو انھوں نے ولیم شیکسپئر کو ہی مصنف کے طور پر پیش کیا اور اس میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ دونوں کے ناموں میں مماثلت تھی اور شیکسپئر کئی سال پہلے مر چکا تھا سو اس جعل سازی کا پردہ چاک نہیں ہو سکتا تھا ۔
اس دور میں ادبی سوانح عمریاں پڑھنے میں عوامی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی جس کی وجہ سے اس قصے کی حقیقت جاننے کی کسی نے بھی کوشش نہیں کی ۔ تقریباً ایک صدی کے بعد جب ولیم شیکسپئر کی پہلی سوانح عمری چھپی تو اس وقت تک سچائی جاننے والے مرچکے تھے اور ولیم شیکسپئر کو ہی اصل مصنف مان لیا گیا تھا ۔ ڈی ویری کے نام کو مخفی رکھنے کی وجوہات شاید کبھی بھی سامنے نہ آسکیں مگر تین نسلوں کی تحقیق کا نچوڑ یہی کہتا ہے کہ ایڈورڈ ڈی ویری ہی ولیم شیکسپئر کے معیار پر سب سے زیادہ پورا اترتا ہے۔
ankara escort
çankaya escort
eryaman escort
etlik escort
ankara ucuz escort
balgat escort
beşevler escort
çankaya escort
cebeci escort
çukurambar escort
demetevler escort
dikmen escort
eryaman escort
esat escort
etimesgut escort
etlik escort
gaziosmanpaşa escort
keçiören escort
kızılay escort
maltepe escort
mamak escort
otele gelen escort
rus escort
sincan escort
tunalı escort
türbanlı escort
ulus escort
yenimahalle escort