The news is by your side.

آخرمنی بدنام ہو ہی گئی

آخر منی بدنام ہو ہی گئی اور ہوتی بھی کیوں نہ جب سالہا سال سے اپنے آپ میں سمٹی سمٹائی دانشورں ، شعرا ادیبوں اور عوام کے تصورات کے یوٹوپیا کے ایک جنت نظیر باغ میں اپنی ہمجولیوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی منی کو یوں بے پردہ کر کے سنگ مرمر کے محلات کے ڈرائنگ رومزمیں کرپشن کے کوڑوں ، وعدوں کی تلواروں اور کھوکھلے نعروں کی سنگینوں کی نوک پر برہنہ نچایا  جائے تو منی بے چاری نے بدنام ہی ہونا ہے اس کے دامن پر نماز تو نہیں پڑھی جائے گی ۔ طبلچی ڈھول پیٹ پیٹ کر مال بنائیں ، تماش بین ” بابو لوگ” اور ان کے فرنٹ مین آنکھیں سینکیں اور جام پر جام لنڈھائیں اور جاتے ہوئے لٹی پٹی تھکن سے چور منی پر چند نوٹ اچھال کر چلتے بنیں مگر بدنامی آئے صرف منی کے حصے میں اور جو’ویل‘ منی کا حق ہو وہ بھی کوئی اور لے اڑے ۔۔۔ دکھ سہے بی فاختہ اور انڈے کھا جائیں کوے ۔

ہائے منی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے چاری منی ۔۔۔۔۔۔۔ مظلوم منی 

میرا خیال ہے اتنی تمہید کے بعد یہ جاننا کوئی مشکل نہیں کہ یہ مظلوم و لاچار اور بدنام منی کوئی اور نہیں ہماری ننھی منی جمہوریت ہے جس کی خاطر ستر سالوں سے سیکیورٹی بیرئیرز کے اس پار کھڑے عوام  قلعوں اور محلات کے اندر سے منی کے پاؤں میں بندھے گھنگرووں کی آواز ہی سن پائے مگر آج تک درشن کر ہی نہ پائے ۔ ہائے محلات میں قید منی  ۔

تاریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے ایوانوں میں چاہے لاؤڈ سپیکروں پر جموریت جمہوریت کے دلفریب  ترانے گونجتے رہیں مگر جب ” مینگو مین” سڑک چھاپ اور کمی کمین جمہوریت سے متنفر ہو جائیں تو پھر ٹینکوں اور توپوں پر بھی پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہوئے انھیں خوش آمدید کہنے پر تیار ہو جاتے ہیں ۔1999 کو صدیاں تو نہیں گزریں اور جمہوریت کے خلاف عوام کا ردعمل سب کو ہی یاد ہو گا اگر جمہوریت کا مطلب چند سو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو بادشاہ اور مالک جبکہ  کروڑوں عوام کو رعایا بنا دینا ہو  . جب وعدے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے کے کیے جائیں اور عملی طور پر عام آدمی سے سوکھی روٹی کھانے کا حق بھی چھین لینا ہو . قوم کو سرمایہ داروں اور دہشت گردوں  اور افسر شاہی کے رحم ہو کر پر چھوڑ کر حکمران اور” حکمران نما ” محض ِٹیلی ویژنی خطاب اور تقریریں کرتے نظر آئیں تو پھر منی کو بدنام ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا حالانکہ اس میں منی  بے چاری کا کیا قصور وہ تو ان ’گبر سنگھوں” کے سامنے ٹوٹی ہوئی عوامی امنگوں کی کرچیوں پر ننگے پاوں ناچ ناچ کر خود  لہولہان ہو چکی ہے ۔

عام آدمی کے دکھ میں گھلنے والے ان کھرب پتی راجاؤں کو کیا پتا کہ ان کے محلات کو بقعہ نور بنانے کے لیے بل وہ ریڑھی بان ادا کر رہا ہے جس کے اپنے گھر کا میٹر چند سو روہے بل ادا نہ کرنے پر کاٹ دیا جاتا ہے ‘ انہیں کیا خبر کہ ان کی جہاز نما گاڑیوں کے پٹرول کا بل ایک گدھا گاڑی چلانے والا بھرتا ہے ۔ انہیں کیا علم کے آٹے اور چینی کے لیے لائنوں میں لگنے کی اذیت کیا ہوتی.ہے  . ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ مڈل کلاسیوں پر خود کش حملے سے کسی صورت کم نہیں . انہیں کہاں خبر کہ آرسینک اور سیوریج سے  آلودہ  پانی پینا زہر پینے کے مترادف ہے جسے زندہ رہنے کے لیے پینے والے  اس ملک کے تھرڈ کلاسیے سالہا سال سے پی پی کر مر رہے ہیں . انھیں علم ہو بھی کیسے سکتا ہے جو اس ملک کا “مال” کھانے کے علاوہ یہاں کا کچھ بھی کھانا پینا حرام سمجھتے ہیں۔ .

کیا لوگ ہیں کوئی اپنی حکمرانی کو شہادتوں کا صلہ مانتا ہے تو کوئی اپنی مغل بادشاہت کو غیر ملکی  “شاہی محلوں” میں قید کا ثمر گردانتا ہے اور عوام جو ان کے لیے ماریں کھاتے ہیں‘ جیلیں کاٹتے ہیں حتی کہ خودسوزیاں تک کر ڈالتے ہیں مگر ان کو وی آئی پی کلچر  کے ہاتھوں تذلیل ‘ مہنگائی اور بے روزگاری کے علاوہ جمہوریت کا ’ ککھ ‘ صلہ نہیں ملا۔

 عام آدمی کے مسائل کے لیے جن کے کانوں پر  جوں کیا لیکھ بھی نہیں رینگتی وہی عزت مآب لیڈران کرام  پانامیوں اور وارداتیوں کے لیے ملک بھر میں حشر اٹھائے کھڑے ہیں ۔ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف سمیت ہر لیڈر کا ایک ہی موقف ہے کہ جمہوریت چلتی رہے تو جناب جم جم چلے جمہوریت کون ایسا نہیں چاہتا مگر جمہوریت کے پھل کے چھلکےتو کم ازکم اس منڈی کے مزدوروں کا حق ہونا چاہیے ۔  سٹیل ملز، پی آئی اے ، ایل این جی ، رینٹل پاور پلانٹس، اورنج لائن ، میٹرو بس منصوبوں سمیت ہر طرف کرپشن اور لوٹ مار کی داستانیں بکھری ہڑی ہیں اور یہ ’سودا ‘  جمہوریت کی ریڑھی  پر ہی لاد  کر بیچا گیا اور بیچا جا رہا ہے۔ اگر اسے روکنے کے لیے ہاتھ بڑھاو ٔتو سیدھا جمہوریت کے مقدس گریبان پہ جا پڑتا ہے . عدالتیں چیخیں ‘ میڈیا بلبلائے یا دانشور آٹھ آٹھ آنسو روئیں حکمران کانوں پر بے حسی کا ’ہیڈ فون‘ لگائے ’سب اچھا ہے‘ کی مست دھن  پر مست نظر آتے ہیں۔ .

جس ملک میں عوام بھوک سے مر رہے ہوں وہاں کی اشرافیہ کے گدھے گھوڑے بھی مربے کھائیں اور منرل واٹر پئیں . جس دیس کے عام آدمی کو سر چھپانے کے لیے چھپر میسر نہ ہو اور  حکمران اربوں  کے فلیٹ اور محلات خریدتے نظر آئیں‘ جس ملک میں غربت سے تنگ لوگ اپنے بچے اور خواتین عزتیں بیچنے ہر مجبور ہوں وہاں اہل مسند شیر خریدیں اور سونے کے تاج پہنتے فخر سے پھولے نہ سمائیں ۔ کھرب پتی جمہوری’بادشاہ‘ چند ہزار کا ٹیکس بھی احسان سمجھ کر ادا کریں  اور ننگ دھڑنگ مفلوک الحال خلقت سے درجنوں ٹیکس وصول کر کے اپنے ’’پوٹے‘ بھرتے جائیں ۔ جہاں جمہوریت کے لالی پوپ پر مہنگائی‘ بے روزگاری ‘ بدامنی اور غربت کا زہر لگا کر جمہور کوپیش کیا جائے وہاں  جمہوریت سے محبت کا یہی عالم ہونا ہے جس کا مظاہرہ 1999 میں ہوا کہ تاریخی مینڈیٹ والوں کے لیے اپنے حلقے کے ووٹر تک نے نکلنا گوارا نہیں کیا۔

  شاید آئی ایم ایف کے سپیشلسٹ ’قصابوں ‘ نے پاکستانی عطائیوں  کو اس قوم کی  میڈیکل رپورٹ جاری کر دی ہو کہ ابھی عوام کی رگوں میں بڑا لہو ہے .. نچوڑتے جاؤ … نچوڑتے جاو ٔ……. مگر شاید  ان نیم حکیموں  کو یہ نہیں پتا کہ لہو نچوڑنے اور برداشت کی ایک حد ہوتی ہے اگر یہ گامے‘ شیدے    اور ماجھے  اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اس دن بہت سے  قابل احترام ’سروں‘ کو اپنے سر بچانے مشکل ہو جائیں گے اور اس وقت یہ قلعے اور ذاتی فوجیں بھی شاید اس اعلی و ارفع مخلوق کو کم ذاتوں سے محفوظ نہ رکھ پائیں ۔

 یہ ساری  صورتحال ہے تو انتہائی خوفناک مگر اس کا سب سے دہشت زدہ کر دینے والا پہلو تو یہ ہے کہ اس سارے ہنگامے میں ہماری منی بے چاری مفت میں بدنام ہو گئی … بے چاری منی۔

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں