‘چلتے ہو تو چین کو چلیے’ کوئی بھی سفر نامہ پڑھنے کا میرا پہلا تجربہ تھا اور ابنِ انشا سے بھی پہلی ملاقات تھی۔ عمر بھی وہ تھی کہ ہر نئی بات فوری متاثر کرتی تھی، لہٰذا بہت جلد چین بہت اچھا لگنے لگا۔
اس زمانے میں شام تین سے پانچ بجے ٹی وی پر چینی ڈرامے لگا کرتے تھے۔ ان ڈراموں کو مسلسل دیکھ دے کر چین کی قدیم تہذیب میں دل چسپی پیدا ہوئی۔ میرے لیے چین کا تعارف کنگ فو کراٹے، ڈھیلے ڈھالے کرتے، ڈھیر سارے نوڈلز اور عالمی عجوبہ دیوار کا تھا۔ بعد ازاں چینی مفکر سن زو کو پڑھا اور چین میرے لیے جنگجو، شاطر اور دارُالحرب ہوگیا۔
پیشِ نظر کتاب ‘پتلی پیکنگ کی’ بھی دراصل چین کا سفر نامہ ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کا تحریر کردہ یہ سفر نامہ سنگِ میل پبلشرز نے سال 2015 میں شائع کیا۔ تارڑ صاحب کے سفر ناموں سے بھی پرانی شناسائی ہے، اسی لیے جب کتاب ‘پتلی پیکنگ کی’ سے لائبریری میں ملاقات ہوئی تو ایک ناقص خیال سا خیال آیا کہ تارڑ صاحب تو اتنے سفرنامہ لکھتے ہیں، کیا اب بھی ان کے دل پر انجان شہر، نئے لوگ، اَن دیکھے آسمان اس طرح اثر انداز ہوتے ہوں گے جس طرح ایک نسبتاً کم تجربہ کار آوارہ گرد کے دل پر ہوتے ہیں۔ کیا معلوم یہ سفر نامہ بے روح ہو، محض ایک رسمی کاوش ہو۔
بہرحال ایک تجسس تھا کہ جناب تارڑ نے چین کو کیسا پایا، اور یہ کہ ابن انشا کے چین، ٹیلی ویژن کی اسکرین پر نظر آنے والے چین، تاریخ کی کتابوں میں ملنے والے چین اور تارڑ کے چین میں کیا مماثلت یا کیا فرق ہے۔ 400 سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب دیکھنے میں ضخیم، اٹھانے میں ہلکی اور پڑھنے میں لطیف معلوم ہوتی ہے۔ مصنّف نے کتاب کے شروع میں اعتراف کیا ہے کہ دنیا میں پانچ ملک یا خطّے ایسے ہیں جن میں بے حساب وسعت، بے تحاشا تنوع اور کچھ دیو مالائی سی پرسراریت ہے۔ سفر نامہ نگاروں کے لیے ممکن ہی نہیں کہ ان خطّوں یعنی یونان، مصر، اندلس، ہندوستان اور چین کی سیّاحت کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتے وقت انصاف کر پائیں۔
تارڑ کے دیگر سفر ناموں کے برعکس کتابِ ہٰذا ایک سرکاری دورے کی داستان ہے جب چین کی دعوت پر حکومتِ پاکستان نے اپنے کچھ اہلِ قلم کو چین بھیجا۔ تارڑ چونکہ خود کو اکثر ایک برگِ آوارہ سے تشبیہ دیتے ہیں تو قیاس تھا کہ اس منظّم دورے میں وہ خود کو بہت دیر تک پابندِ نظم و ضبط نہیں رکھ پائیں گے۔ لیکن قاری پورے سفر نامے میں اپنے مصنف کو قاعدے کا مطیع دیکھتا ہے اور اس کے باوجود سفر نامے میں اپنی دل چسپی برقرار رکھتا ہے۔
چین میں داخلے کے ساتھ ہی مصنفین کے اس گروہ کو بیجنگ کا سامنا ہے اور بیجنگ میں دیوارِ چین کا، لیکن رکیے! اس تحریر کا مقصد سفر نامہ کا خلاصہ بیان کرنا نہیں محض ایک قاری کے طور پر اپنے احساسات رقم کرنا ہے۔ بہرحال پاکستانی دانشوروں کے اس مختصر گروہ کو پہلے بیجنگ، پھر شی آن، شنگھائی ہانگ چو اور آخر میں دوبارہ بیجنگ لے جایا جاتا ہے۔ جو شخص تقریباً نصف سے زیادہ دنیا دیکھ چکا ہو، اس کے لیے بڑا مشکل ہوگا کسی اور ملک سے متاثر ہو جانا اور مناظر کے لیے بھی بہت مشکل ہو جائے کہ تارڑ کے دل و نظر پر سحر طاری کر سکیں، لیکن چین کے شہروں، باغات، جھیلوں، ثقافتی ورثے اور عمارتوں میں اتنا حُسن اور وقار بلکہ جاہ و جلال ہے کہ تارڑ جیسا جہاں گرد اور جہاں دیدہ شخص بار بار مہبوت نظر آتا ہے۔
ادبی اور غیر ادبی ناقدین جو اعتراضات تارڑ پر کرتے ہیں ان میں سے سب سے معروف اعتراض یہ ہے ان کے سفرناموں میں حسینوں کا ذکر بکثرت ملتا ہے۔ چلیے یہاں تک تو ٹھیک ہے، لیکن کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی حسینہ ان پر فریفتہ بھی نظر آتی ہے؛ اکثر پردیسی حسینائیں خصوصی نگاہِ التفات ڈالتی ہیں کہ لو جی آ گیا پنجاب کا بانکا ہماری تنہائی میں رنگ بھرنے۔ شکر ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے بالکل فکر نہیں تھی کے تارڑ کسی ایسی واردات کا شکار نظر آئیں گے لیکن صفحہ نمبر 341 پر جا کر آخر کار حضرت کا پیمانۂ صبر لبریز ہو ہی گیا اور وہ یہ حقیقت مزید نہ چھپا سکے کہ عمر رسیدگی کے باوجود چینی خواتین نے ان کی مردانہ وجاہت کو سراہا۔ مزید برآں دلیل بھی دی کہ پاکستانی مرد ناک نقشے میں چینی مردوں سے بہتر ہوتے ہیں۔
اس کتاب میں تارڑ صاحب کا خاتون میزبان کی طرف فطری رجحان مجھے ناگوار گزرا، بالکل ایسے جیسے میرے والد کسی خاتون کی تعریف کریں تو مجھے بُرا لگے گا، بس ایسے ہی ہیں ہم پاکستانی۔ اپنے سلبریٹریز اور بزرگوں کی کسی بھی قسم کی اخلاقی کوتاہی گوارا نہیں کرتے، خود جو چاہے کرتے رہیں۔
ایک حسینہ یا ایک پہاڑ پر پڑنے والی پہلی نظر پر تارڑ ایک پورا صفحہ سیاہ کر سکتے ہیں، چلتی بس کی کھڑکی سے باہر تیزی سے گزرتے مناظر کی تفصیلات پر ایک پورا باب رقم ہو سکتا ہے۔ ان کے پاس منظر کشی کی ایک ایسی طاقت ہے جو کسی اور اردو لکھاری میں شاذ ہی ہو۔ شاہراہِ قراقرم کے سفر کی دشواری کا ذکر کرنا ہو تو تارڑ کا کوئی ثانی نہیں۔ چین کی سڑکوں پر سبک خرامی سے رواں خنک بسوں کے آرام دہ لمحات بیان کرنے ہوں تو بھی تارڑ کا کوئی مقابل نہیں۔ راقم نے اکثر دورانِ سفر کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوے سوچا ہے کہ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ہاں بھئی کار میں راولپنڈی سے اسکردو کا تجربہ کیسا رہا تو میرا جواب ہوگا، بہت مشکل، بہت لمبا، بہت صبر آزما۔ چلو جی بات ختم۔
اور یہ بات اگر تارڑ سے پوچھی جائے تو ایک دل چسپ داستان سننے کو ملے۔ مثال کے طور پر زیرِ نظر کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ‘بوڑھے برگد کی ہر ٹہنی، ہر ڈال میں ایک بے خوابی کی تھکن بسیرا کرتی تھی اور ایک بوسیدہ خمار ٹھہرا ہوا تھا۔ کوچ کے اندر بیٹھے ہوئے یہ محسوس ہوتا تھا کہ باہر ایک خنک پہاڑی مقام کی خوش نما بستی گزرتی ہے جہاں ریستوران اور سیر گاہیں دل نواز ہیں، ہریاول نچڑتی ہے، سایہ دار شجر ٹھنڈک سے لبریز ہیں، اگرچہ ایسا نہ تھا باہر وہی حبس اور وہی گرمی کے موسم تھے۔ ‘
اسی طرح شہرِ ممنوعہ کی ایسی زبردست منظر کشی کی کہ راقم نے یو ٹیوب پر چین کے دارُالحکومت بیجنگ کے مرکز میں واقع شاہی محل ‘ شہرِ ممنوعہ’ پر بنائی جانے والی دستاویزی فلم خصوصی طور پر ڈھونڈ کر دیکھی۔ یقین کیجیے کہ ایک ہجومِ بے کراں تھا اور چار دیواریاں تھیں اور سیڑھیاں ہی سیڑھیاں۔ چار و ناچار یہ سوچ کر تارڑ کی تحریر کی صداقت پر یقین کر لیا کہ حکومتیں جب اپنے ثقافتی ورثوں کو ملکی معیشت کا حصہ بناتی ہیں تو سیاحوں کا یہ ہجوم سیاہ بادل بن کر تاریخ کو دھندلا کر دیتا ہے، لیکن ان ہی سیاحوں کی خریدی ہوئی ٹکٹیں معاشی استحکام لاکر ملک کے حال کو بہتر اور مستقبل کو روشن کر دیتی ہیں تو سودا برا نہیں ہے۔
اس پورے سفرنامے میں چین کی ناقابلِ ذکر خوراکوں کا ذکر بارہا ملتا ہے اور طبیعت متلانے لگتی ہے۔ لیکن جہاں جہاں چین کی شاپنگ کا ذکر ملتا ہے طبیعت للچانے لگتی ہے، کتاب کے اختتامی صفات میں چین کے دو ایسے خرید و فروخت کے مراکز کا ذکر آیا کہ دل کیا بس اڑ کر وہاں پہنچ جاؤں۔ بلکہ دل ہی دل میں اس سرکاری دورے کالائحہ عمل تیار کرنے والوں کو برا بھلا بھی کہہ ڈالا کہ اتنی بہترین جگہ پر سب سے آخر میں کیوں لے کر گئے، پہلے بیچاروں کو مہنگی یا اوسط درجے کی خریداری کروا کے پیسے خرچ کرواتے رہے اور اب سب سے بہترین جگہ پر لے آئے ہیں۔
اب آخر میں بات کر لی جائے کہ انشا اور تارڑ کے چین میں کیا فرق یا مماثلت ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ تارڑ کا چین انشا کے چین سے زیادہ گلوبلائزڈ اور پُرتعیش ہے، تاہم تارڑ کے چین میں تہذیب و ثقافت کے ساتھ چینی قوم کا رشتہ اتنا ہی مضبوط ہے جتنا تین دہائی قبل انشا کے چین میں تھا۔