جنوبی پنجاب کے کچے مکانوں سے لے کر اسلام آباد کے بحریہ ٹاؤن تک ہر جگہ سے یو ٹیوب پر دن بھر کا احوال نشر ہو رہا ہے۔
جب ناشتے کا مینو اور شام کی روداد اپنی دل چسپی کھو دیتی ہے تو شاپنگ اور سیر و تفریح پیش کی جاتی ہے، جب یہ سودا بک جاتا ہے تو گھریلو جھگڑوں کو عوام کی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ آنسوؤں سے تر چہرے، ندامت بھری نظریں دکھا کر جب طنز اور ہمدردی بھرے ویوز سمیٹ لیے جاتے ہیں تو پھر ہلکی پھلکی اعضا کی شاعری کی محفل سجتی ہے۔ لیکن جو جانباز کھلاڑی ہیں وہ اس سے اگلے مرحلے پر کھیلتے ہیں۔ خود کشی کی کوشش سے معافی تک کا سفر طے کر کے مزید ویوز، مزید ڈالر۔ لیکن یہاں اس بات سے انکار بڑی بے نیازی ہے کہ وطن عزیز درآمدات کی مد میں اتنے ڈالر نہیں کما پا رہا جتنا یہ یو ٹیوب والے لا کر دے رہے ہیں۔
کوئی جوڑوں کے درد کا علاج بتا رہا ہے، کسی نے آئی لائنر کی کمان کو کھینچے کا طریقہ بتا دیا۔ کوئی اجوائن کی افادیت پر مدح سرا ہے تو کسی نے گھر بیٹھے لاکھوں کمانے کا نسخہ سجھا دیا۔ کوئی شوہر کی دوسری شادی کروا کے اسٹرانگ ہونے کا میڈل لیے گھوم رہا ہے اور کسی نے زیادہ بول کر دو ملین فالوور بنا لیے ہیں۔ کوئی مائیک پکڑ کر صحافی بن گیا، کوئی ناچ کر قابل تحسین۔
ڈال کر کوئی گردن میں طوق آ گیا
لاد کر کوئی کاندھوں پر دار آ گیا
نہ اردو کی املا پر توجہ دی نہ انگریزی کی گرامر کو سمجھنے کا ترد کیا۔ بس جو منہ میں آیا یو ٹیوب پر انڈیل دیا، جب یہ کاریگری بھی پرانی ہو گئی تو اپنے ساتھی یو ٹیوبرز کی دھجیاں بکھیرنے کے مقابلے شروع ہو گئے، جو جتنا زیادہ زبان دراز اس نے اتنی بڑی گاڑی لے لی۔ سب کو ویوز ملے۔ سب نے ڈالر کمائے۔
اور راقم سوچ رہا ہے کہ آج سے صرف پندرہ سال بعد ہم بہ حیثیت قوم کیا کر رہے ہوں گے؟