ہینڈ واش کر کے لنچ کر لو!
“کتنے ڈرٹی ہو رہے ہو، باتھ لے کر بیڈ پر جانے کا ٹائم…..” یہ اور ایسے بہت سے جملے اب ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں ۔ غور کریں کہ پاکستان میں رہتے ہوئے ہم اردو زبان میں اسم اور فعل کا استعمال کرنے کے لیے انگریزی زبان کا سہارا لیتے ہیں۔ اور اب یہ اتنا عام ہے کہ جواس طرح نہیں بولتا اس پر حیرانی ہوتی ہے۔
پاکستان سے باہر رہنے والوں کی نئی نسل ماں باپ کی اردو سمجھ تو لیتی ہے لیکن جواب انگریزی میں دیا جاتا ہے۔ بعض گھرانوں میں تو اردو کو بالکل ہی صفر سے ضرب دے دیا گیاہے۔ کیونکہ تیزی سے ترقی کی طرف گامزن مغربی معاشروں میں خود انگریزی اتنی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے کہ اردو کو گزشتہ دہائیوں کی زبان سمجھ کر قابل توجہ نہیں سمجھا جاتا۔
کوئی مانے یا نہ مانے آپ کی مادری یا قومی زبان سے دوری معاشی طور پر نہ سہی لیکن جذباتی طور پر مستقبل میں تکلیف کا باعث ہو سکتی ہے۔ اپنے بچوں کو اردو سکھائیں کیونکہ آپ کی اپنی زبان بچوں کو ان کے ورثے سے جوڑتی ہے، اپنے ثقافتی پس منظر کو سمجھنے میں ان کی مدد کرتی ہے۔ اپنے بچوں کو اردو سکھائیں کیونکہ یہ زبان سے تعلق، فخر، اور شناخت کے احساس کو فروغ دیتا ہے.اردو سکھائیں کیونکہ اپنی زبان بولنا خاندان کے افراد کے درمیان جذباتی بندھن کو مضبوط کرتا ہے، خاص طور پر بوڑھے رشتہ داروں کے ساتھ جو شاید دوسری زبانیں نہیں بولتے۔ مشترکہ زبان خاندانی روایات، کہانیوں اور اقدار کو محفوظ رکھتی ہے۔
اپنے بچوں کو اردو سکھائیں کیونکہ ایک ایسے ملک میں جہاں انگریزی زبان بولنا لازم ہے وہاں دو زبانوں پر مہارت آپ کے بچے کو دیگر ہم عمروں سے ممتاز کرسکتی ہے۔ جو بچے دو لسانی یا کثیر لسانی ماحول میں پروان چڑھتے ہیں ان کے سوچنے کا انداز بھی کثیر الجہت ہوتا ہے ۔ یعنی وہ تصویر کے ایک سے زیادہ رخ دیکھ سکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشروں میں چینی اور جنوبی ہندوستانی قومیتوں سے تعلق رکھنے والے طلبا اسکول اور کالج میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، نتیجتاً عملی زندگی میں بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔
اپنے بچوں کے ساتھ اردو بولیں اور ان سے اردو بولنے پر اصرار کریں کیونکہ اپنی زبان میں روانی خود اعتمادی کا موجب ہے۔ اپنی زبان آپ کی طاقت ہے، جذبات کا اظہار، شاعری، دعا ، خواب اور ارادہ یہ سب اپنی زبان میں ہوں تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہ وہ دور ہے کہ ہماری موسیقی ، شاعری ، فلم اور ٹیلیویژن پر انگریزی اس طرح شامل ہے گویا،جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے۔ کم از کم گھروں کے اندر اردو کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ اس تحریر کا مقصد اردو زبان سیکھنے اور سکھانے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ، نہ کہ انگریزی زبان کو رد کرنا۔ کیونکہ انگریزی ہماری معاشی ضرورت ہے لیکن ہماری قومی اور مادری زبانیں ہماری ذہنی، جذباتی اور سماجی صحت کے لیے لازم ہیں۔