کل تک مخطوطوں، قدیم آثار و دستاویزات اور ثقہ مؤرخین کی کتب سے کشید کردہ علم ہی کا نام تاریخ تھا۔ اس تاریخ میں عام آدمی کا کردار بس اتنا تھا کہ وہ ”ہزاروں کھیت رہے“ اور ”کُشتوں کے پشتے لگ گئے“ جیسے جملوں کی صورت تاریخ کی کتابوں میں اپنے لہو سے رنگ بھرتا رہے۔
اس صورت حال میں تاریخ کی ہر کروٹ کا شکار ہوتے افراد کے سینوں میں تحریر ماضی سے کسی کو دل چسپی نہ تھی۔ لیکن بدلتے وقت کے ساتھ جہاں زندگی کی ہر جہت میں تبدیلی ہوئی وہیں تاریخ دانوں کے زاویے بھی بدلے۔ چناں چہ اب عام لوگوں کے خطوط اور ان کی بیان کردہ روایات بھی بیتے دور کی جستجو کرتی مؤرخین کی کاوشوں میں فعال کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں، ورنہ اس سے پہلے یہ فریضہ ادب تنِ تنہا انجام دے رہا تھا۔
”رشاد محمود“ بھی ایک عام آدمی ہیں، بس اس فرق کے ساتھ کہ وہ بہ طور سیاست داں، دانش ور، صحافی، شاعر و ادیب اور مصنّف کوئی پہچان نہیں رکھتے، لیکن زندگی کی پانچ دہائیوں سے زیادہ وقت سیاست کے خار زاروں میں آبلہ پا گزار چکے ہیں اور مطالعے، مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر حاصل کردہ دانش سے واقعات کا گہرا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اپنے نظریات میں ”راسخ العقیدہ“ مارکسسٹ اپنے نظریے کو فتح یاب کرنے کے لیے بہ حیثیت سیاسی کارکن سرگرم رہے اور اس کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے مشقت بھی کرتے رہے۔ وہ نوّے برس کے پیٹے میں ہونے کے باوجود فکری طور پر تازہ دَم نظر آتے ہیں۔ ان کا حافظہ بھی بلاتوقف گزرے ایّام کی ہر تفصیل سنانے کی قدرت رکھتا ہے اور ان کی سوچ بہت واضح اور صاف ہے جس میں کوئی جھول دکھائی نہیں دیتا۔
ممتاز محقق، مؤرخ اور دانش ور جناب ڈاکٹر سیّد جعفر احمد نے رشاد محمود کا انٹرویو کر کے ان کی یادداشتیں محفوظ کیں اور انھیں تاریخی دستاویز کے طور پر حال ہی میں شایع کیا ہے۔ یہ دستاویز برصغیر میں ”سُرخ سیاست“، آزادی کی تحریک، پاکستان کی جدوجہد اور پھر نئی مملکت میں سیاسی مد و جزر اور سانحۂ مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہمہ وقت سرگرمِ عمل ایک سیاسی کارکن کے مشاہدات اور تجربات، تجزیے اور جائزے سامنے لاتی ہے، اور کئی ایسے واقعات سے ہمیں روشناس کرتی ہے جو شاید ہمارے علم میں نہ ہوں۔ اس کتاب کا خوب صورت عنوان ”نگاہِ آئینہ ساز میں“ رشاد محمود کی زندگی کا عکس ہے، کیوں کہ وہ یافت کے لیے شیشوں اور آئینوں کے کاروبار کو وسیلہ بنائے ہوئے ہیں۔
کتاب کے مندرجات سے پہلے کچھ تعارف رشاد محمود صاحب کا۔ رشاد محمود 9 جولائی 1932 کو بمبئی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا تعلق گجرات کے شہر سورت سے تھا، جب کہ ان کا ننھیال پنجاب کے شہر قصور کا ”مولویوں کا خاندان“ تھا، اور ان کی نانی تُرک تھیں۔ چناں چہ ان کے بہ قول، ”ہمارے نظریات میں بین الاقوامیت فطری اور جینیاتی ہے۔“ انھوں نے زندگی کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے، اور ساتھ ہی اردگرد رونما ہوتے واقعات پر بھی ان کی نظر رہی۔ بائیں بازو کی سیاست اور ترقی پسند ادب کی تحریک سے وابستگی نے انھیں سیاسی و ادبی شعور عطا کیا۔
تقسیم کے بعد وہ پاکستان آگئے، جہاں ان کا سیاسی سفر جاری رہا۔ یوں تو رشاد صاحب کی ذاتی زندگی بھی کچھ کم دل چسپ نہیں، لیکن اس تحریر کو ہم صرف ان اہم واقعات تک محدود رکھیں گے جن کے رشاد محمود چشم دید گواہ ہیں۔
آزادی کا تذکرہ کرتے ہوئے ہماری ساری توجہ سیاست دانوں کے کردار پر ہوتی ہے اور ایسے واقعات نظرانداز کر دیے جاتے ہیں جو درحقیقت سامراج کے برصغیر سے اپنا بوریا بستر لپیٹنے کا سبب بنے۔ ایسا ہی ایک واقعہ بمبئی میں بحریہ کے ہندوستانی اہل کاروں کی بغاوت بھی تھا۔ رشاد بتاتے ہیں،”انگریزوں کے ایک ٹرک میں ہی بیس پچیس انگریز آتے تھے، وہ بجری کی بوریاں پھیلا کر وہاں سے اندھا دھند فائرنگ کرتے تھے۔ دوسرے دن ہی سارا بمبئی بند ہو گیا، کاروبار بند ہوا اور مار کاٹ شروع ہوئی۔ انگریز ہر گلی محلّے کے چوک پر آکر اندھادھند فائرنگ کرتے تھے۔ بمبئی میں دہشت کی کیفیت ہوگئی تھی۔ تین روز یہی صورت حال رہی۔“
یہاں ہمیں ان مفلس انگریزوں کی بھی خبر ملتی ہے جو اپنوں کے راج میں بھی بے یار و مددگار تھے، لیکن انھیں انگریز ہونے کی قیمت چکانی پڑی۔ ”کارخانے کے ساتھ انگریزوں کا ایک دیسی شراب خانہ تھا جس کے باہر اکثر وہ انگریز جو بیس پچیس سال سے وہاں آباد تھے اور وہ بہت غریب ہوچکے تھے، کارخانے کے دروازے پر انتظار کرتے تھے کہ کوئی ان کو بچا کھچا کھانا دے جائے۔ جب ہم (بحریہ کی بغاوت کے) تین روز بعد وہاں گئے تو معلوم ہوا کہ ان سب کو بدلے کی آڑ میں مار دیا گیا۔“
نیوی کی بغاوت کے دوران انھوں نے بمبئی کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو شانہ بہ شانہ انگریز کے خلاف لڑتے دیکھا، ہر طرف لاشیں بچھی دیکھیں، وہ کہتے ہیں کمیونسٹ پارٹی نے اس بغاوت میں شریکِ جدوجہد ہونے کا اعلان کیا تھا اور دوسری طرف، ”کانگریس اور مسلم لیگ کے لیڈر بھی جگہ جگہ تقریر کرتے پھرتے تھے کہ ہم اس میں شریک نہیں۔ اس کے چند دن بعد ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے اور سول نافرمانی کی گئی۔“ وہ ان فسادات کا ذمے دار مسلم لیگ کو قرار دیتے ہیں۔ وہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ 1946 میں ہونے والی بحریہ کی مذکورہ بغاوت کے بعد، ”دو سابق فوجی جو مشین گن لے کر ہندوؤں کے محلّے میں جو کالبا دیوی روڈ پر تھا، وہاں سے فائرنگ کرتے ہوئے اس محلّے میں داخل ہوئے۔ وہ محلّہ ایک ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ختم ہوتا تھا، آزاد میدان چوک پر جو دھوبی گھاٹ بھی کہلاتا تھا، یہ فوجی وہاں تک فائرنگ کرتے ہوئے گئے اور اس میں ڈیڑھ دو سو آدمیوں کو مارا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ قتل ان فوجیوں نے کیا ہے۔“
رشاد محمود کے مطابق انھیں معروف ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی نے تقسیم کے بعد مولانا ابوالاعلیٰ مودودی سے ہونے والی ایک ملاقات کے بارے میں بتایا: ”جب گفتگو شروع ہوئی تو ہم نے ذکر کیا کہ آپ اس وقت موجودہ حالات (اس وقت ہندوستان تقسیم ہوچکا تھا) کو کیسے دیکھتے ہیں؟ یہاں کے عوام اور غربت کے مسائل کو کیسے دیکھتے ہیں؟ اور آگے کی صورت حال کو کیسے دیکھتے ہیں؟ پہلا جملہ مولانا مودودی نے یہ کہا کہ میں سب کچھ تفصیل سے بتاﺅں گا لیکن پہلے میں یہ جاننا چاہوں گا کہ آپ لوگ دنیا کو اور ساری کائنات کو اور معاشرے کو کس نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب ایک ماورائی طاقت نے تخلیق کیا ہے؟“ یہ ملاقات بے نتیجہ نکلی۔ بہت کچھ بدل چکا ہے، آج مولانا کی جماعت سیاسی اتحاد کرتے یا ووٹ مانگتے ہوئے ایسا کوئی سوال نہیں کرتی!
رشاد صاحب کی صاف گوئی قابل داد ہے۔ وہ اپنی پاکستان آمد کو انقلاب لانے کے آدرش کا ”کمیونسٹ ٹچ“ دے سکتے تھے، لیکن انھوں نے سیدھے سبھاﺅ بتایا کہ ان کی خالہ پاکستان میں تھیں، جن کی بیٹی سے وہ شادی کرنا چاہتے تھے، لہٰذا،” یہ حقیقت ہے کہ ہم شادی کرنے کے لیے ہی پاکستان آئے تھے۔“
ان کی یاد داشتوں میں ایک ایسا واقعہ بھی محفوظ ہے جو ہمیں ”بڑے گھرانوں“ کی بیگمات کا عجیب رُخ دکھاتا ہے۔ بتاتے ہیں کہ جب ایوب خان کے دور میں ملکۂ برطانیہ نے پاکستان کا دورہ کیا ان دنوں رشاد صاحب لاہور میں مقیم اور شیشے کا کام کرتے تھے۔ ایک روز ان کے شوروم پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور پاکستان کے وزیرِ خارجہ کے مناصب پر فائز رہنے والے منظور قادر کی والدہ اور جنرل برکی کی بیگم تشریف لائیں۔ انھوں نے ملکہ الزبتھ کی تصویر دے کر فریم بنانے کو کہا اور چلی گئیں۔ پھر دو تین دن بعد آکر وہ فریم شدہ تصویر لے گئیں۔ آٹھ روز بعد وہ ملٹری پولیس کے ساتھ دکان پر کھڑی دعویٰ کر رہی تھیں کہ ”جو تصویر آپ نے ہمیں فریم بنا کر دی ہے، یہ وہ تصویر نہیں ہے جو ہم نے آپ کو دی تھی۔ ”وہ ہر چند روز بعد آکر تماشا کھڑا کر دیتی تھیں۔ ایک روز ہماری دکان کے مالک نے برٹش کاﺅنسل کو خط لکھا کہ گرلز گائیڈ کی عہدے دار اس طرح ہمیں الزام دے رہی ہیں اور دھمکا رہی ہیں، جس کے جواب میں برٹش کاﺅنسل سے خط موصول ہوا اور کہا گیا کہ ایسا واقعہ اور بھی بہت سی جگہوں پر ہورہا ہے جہاں ملکہ الزبتھ کی بغیر دست خط کے تصاویر بھیجی جارہی ہیں۔ وہ دن تھا، اس کے بعد سے وہ بیگمات ہمیں کہیں نظر نہیں آئیں۔“
وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایوب دور میں کمیونسٹ کس طرح ڈرے سہمے ہوئے تھے اور جب رشاد صاحب لاہور میں نیشنل عوامی پارٹی کے دفتر گئے تو وہاں موجود مشہور کمیونسٹ دانش ور لعل خان نے انھیں پہچاننے سے انکار کردیا۔ وہ ”بہت سراسیمہ ہوگئے تھے۔“ لال قلعے میں تشدد سہہ کر جان سے گزر جانے والے ممتاز کمیونسٹ راہ نما حسن ناصر کی موت کو خودکشی قرار دے دیا گیا تھا۔ ان کا المیہ ہر سیاسی قتل کے بعد یاد آتا ہے۔ رشاد صاحب بتاتے ہیں، ”حسن ناصر کی والدہ نے قبر کشائی کے بعد لاش دیکھتے ہی کہا کہ یہ میرے بیٹے کی لاش نہیں ہے۔ ہمارے ذہن میں فوراً آیا کہ یہ لڑکا جو ہمارے پاس کام کرتا ہے یہ گورکن کا لڑکا ہے کیوں نہ اس سے تمام واقعے کی تفصیل پوچھ لی جائے۔ لڑکے نے بتایا کہ رات تین بجے کچھ لوگ آئے اور میرے والد کو اٹھا کر لے گئے اور ان کو کچھ ہدایت دی۔ اس نے بتایا کہ دوسرے دن میرے والد سے خفیہ قبر کھدوائی اور ابّا بتا رہے تھے کہ جس کو مار کر دفنایا تھا اس کی قبر دوسری جگہ تھی اور مجھ سے دوسری قبر کھدوا کر لاش پھنکوائی۔“
یہاں ڈاکٹر جعفر احمد کے رشاد محمود سے کیے گئے ایک سوال نے ہمیں حیران کر دیا۔ وہ لالو کھیت کے مہاجروں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے سوال میں کہتے ہیں، ”وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رہے۔“ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اس کی مخالف قوتوں کا پہلا بڑا ٹکراﺅ ایوب خان کے دور میں ہوا، اور اس دور میں ہونے والے انتخابات میں لالو کھیت کے مہاجروں نے ایوب کے مقابلے میں فاطمہ جناح کا ساتھ دیا اور اس کی پاداش میں حملے کی صورت سزا بھی بھگتی۔ بعد میں یہ لالو کھیت کے مہاجر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اقتدار حاصل کرنے والے بھٹو کے مخالف رہے۔
رشاد محمود اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے، ”مہاجر سیاست“ کی ابتدا کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بائیں بازو کی سیاست میں فعال ”علاؤالدّین عباسی، محمود الحق (عثمانی) سب اس طرف راغب ہوگئے تھے کہ سندھ میں اردو بولنے والوں کا ایک مقام ہے اور وہ ایک قومیت ہیں۔ پانچویں قومیت کی بات محمودُ الحق عثمانی سے چلی مگر ان کی طرف سے علی الاعلان نہیں چلی۔ علی الاعلان یہ تحریک چلانے والے بہت سے لوگ تھے مگر محمودُ الحق عثمانی بائیں بازو کے لوگوں میں پہلے شخص تھے۔“ وہ بتاتے ہیں کہ محمود الحق عثمانی اور فتح یاب علی خان کی سندھ میں زمینیں تھیں، اور جب یحیٰی خان نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو کراچی کو سندھ سے الگ کر دیتے ہیں، تو ”اس بات کی مخالفت کرنے میں بھی بائیں بازو کے یہی دو لیڈر آگے تھے۔“
وہ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے کردار اور بائیں بازو کے راہ نماﺅں کی سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”ہر بندہ پہلے اپنی قومیت کا ہے۔“
واقعات کو بیان اور ان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہیں کہیں رشاد محمود کا حافظہ دھوکا بھی دے جاتا ہے۔ مثلاً 2006 میں کراچی کے نشتر پارک میں ہونے والے بم دھماکے، جس میں سنی تحریک کے کئی راہ نما شہید ہو گئے تھے، کو وہ جنرل ضیاءالحق کے دور کا واقعہ قرار دے بیٹھے ہیں۔ ساتھ ہی وہ سندھی مہاجر مسئلے کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ضیاء دور میں پیدا کیا گیا، حالاں کہ اس افسوس ناک تصادم کی ابتدا بھٹو دور میں ہوئی تھی۔
انھوں نے ایم کیو ایم کا عروج وزوال بھی دیکھا۔ ان کے بھائی یعقوب ایم کیو ایم کے سرگرم کارکن بن گئے تھے، جن کے لڑکے اور لڑکیاں بھی اس نئی جماعت میں شامل ہو چکے تھے۔ رشاد صاحب نے بھائی سے کہا، ”یہ سب غلط ہورہا ہے اسے روکیں۔“ اور پھر کہتے ہیں، ”کسی طرح خفیہ ذرائع سے یہ خبر جب اسٹیبلشمنٹ تک پہنچی تو ہمیں ہمارے کسی جاننے والے نے کہا کہ رشاد آپ ان سب میں نہ پڑو ورنہ آپ کو بھی یہ گولی مار دیں گے۔ ہمیں باقاعدہ دھمکی ملی کہ اگر آپ خود الگ رہنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے مگر اپنے بھتیجوں اور بھتیجیوں کو نہ روکیں۔“
صفحہ درصفحہ اور سطر درسطر اس دل چسپ کتاب میں کتنے ہی واقعات، سانحات اور شخصیات کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں، جنھیں ہم ایک سیاسی کارکن کی جہاں دیدہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔