The news is by your side.

ماہرین نے پاکستان میں دریائے سندھ کی بحالی کے لئے اقدام کا خیر مقدم کیا ہے

مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا نیا لیونگ انڈس انیشی ایٹو سی او پی 27 میں پیش کیا جا رہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں سنجیدہ ہے لیکن طاس میں بڑے انفرا اسٹرکچر سے نمٹنے میں ناکامی کی وجہ سے اسکی کوششیں محدود ہیں۔

پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کی وزیر شیری رحمان اس سال مصر میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہی اجلاس میں شرکت کر رہی ہیں ( واضح رہے کہ یہ کانفرنس 6 سے 18 نومبر تک جاری رہی) ان کے ایجنڈے میں “لیونگ انڈس انیشی ایٹو” کا پراسپیکٹس پیش کرنا سرفہرست ہے۔

ستمبر میں، رحمان نے اس منصوبے کا اعلان کیا، جسے ایک دہائی کے بدترین سیلاب کے تناظر میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ دی لیونگ انڈس انیشی ایٹو، جسکا باضابطہ طور پر سی او پی 27 کے دوران آغاز کیا جا رہا ہے، ایک سرپرست اقدام ہے جو نئے اور موجودہ منصوبوں کو آگے بڑھائے گا اور مستحکم کرے گا۔ ان میں سے کئی کا مقصد اسکی اچھی ماحولیاتی صحت بحال کرتے ہوئے، پاکستان میں سندھ طاس میں سیلاب کی مزاحمت کو بڑھانا ہے۔

رحمان نے دی تھرڈ پول کو بتایا ہے کہ لیونگ انڈس انیشی ایٹو ایک “سرمایہ کاری کا پروجیکٹ” ہے، جس میں “موسمیاتی مزاحمتی تعمیر نو” پر توجہ دی گئی ہے۔ کیونکہ پاکستان حالیہ گرمیوں کے سیلاب کے بعد تعمیر نو شروع کررہا ہے جس کے بارے میں سائنسدانوں کے مطابق سیلاب کا امکان موسمیاتی تبدیلی وجہ سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔

لیونگ انڈس انیشی ایٹو کو پاکستان کے موسمیاتی موافقت کے منصوبوں کی سب سے بڑی سیریز قرار دیتے ہوئے رحمان نے کہا، “یہ ایک لیونگ مینو ہے اور سرمایہ کار اپنی مرضی سے حصّوں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ “رحمان نے کہا کہ مجموعی طور پر اس اقدام کے 25 منصوبوں پر 11-17 بلین امریکی ڈالر لاگت آئے گی، جن میں سے 15 سیلاب کے انتظام سے متعلق ہیں۔

پاکستان کے سابق وزیر موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے لیونگ انڈس انیشی ایٹو کی منظوری کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے “مستقبل کے سیلابوں کے لئے ملک میں موسمیاتی مزاحمت پیدا کرنے کا آلہ” قرار دیا۔ یہ پروجیکٹ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابقہ حکومت کے دوران اسلم کے زیر نگرانی شروع کیا گیا تھا اور اب اسکی ذمہ داری حکمران پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اتحاد نے اٹھائی ہے۔ اسلم نے کہا کہ وہ خوش ہیں کہ پچھلی حکومت کی جانب سے انتہائی توجہ کے ساتھ تیار کئے گئے “ماحولیاتی وژن” کو بغیر کسی ردوبدل کے لاگو کیا جائے گا۔

ماحولیات کے وکیل احمد رافع عالم نے پاکستان کی 2012 کی نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی اور اس کے نیشنل ڈیٹرمنڈ کنٹریبیوشن کے بعد پراسپیکٹس کو “اگلی بڑی چیز” قرار دیا۔

آبی وسائل کے ماہر حسن عباس نے اسے “فیوچراسٹک ” قرار دیا ہے، جس میں “ماحولیاتی پائیداری پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے اور سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز سے متعلقہ بہت سے لنکس شامل کئے گئے ہیں۔”

آبی ماہر اور غیر منفعتی حصار فاؤنڈیشن کی سربراہ سیمی کمال، جو لیونگ انڈس انیشی ایٹو کے لئے مشاورتی عمل کا حصہ تھیں، نے کہا کہ ابھی جبکہ سی او پی27 جاری ہے اور پاکستان کو موسمیاتی تباہی کا سامنا ہے ایسے وقت میں سندھ پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے یہ دستاویز بالکل صحیح موقع پر پیش کی گئی ہے۔

لیونگ انڈس انیشی ایٹو کا خاکہ پیش کرنے والی دستاویز کے مطابق، پاکستان کی تقریباً 90 فیصد آبادی اور اس کی تین چوتھائی سے زیادہ معاشی سرگرمیاں طاس کے اندر واقع ہیں۔ ملک کی 80 فیصد سے زیادہ قابل کاشت زمین سندھ کے پانی سے سیراب ہوتی ہے اور ملک کے 10 میں سے 9 بڑے شہروں اس کے 50 کلومیٹر کے اندر واقع ہیں۔

اسلم کا اندازہ ہے کہ دریائے سندھ میں مزید “سیلاب” آئیں گے، جیسے جیسے درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ آئے گا اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارش زیادہ غیر متوقع ہونگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ دریا کا ماحولیاتی نظام، جس میں پرندوں کی کم از کم 668 اقسام، مچھلی کی 150 سے زائد اقسام ہیں، اور دنیا کے نایاب ترین ممالیہ جانوروں میں سے ایک، انڈس ریور ڈولفن، پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے اور اس پر مزید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

دریائے سندھ کو “پاکستان کی لائف لائن” قرار دیتے ہوئے، اسلم نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ یہ اقدام “بہت بڑا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ یہ پورے ملک کا احاطہ کئے ہوئے ہے… اگر ہم بڑھتے ہوئے موسمیاتی تناؤ سے نمٹنا چاہتے ہیں تو اس کی مرتی ہوئی ماحولیات کو بحال کرنا بہت ضروری ہے۔”

دریائے سندھ پر بڑے اسٹرکچر زیر بحث نہیں ہیں
کمال نے کہا کہ انگریزوں نے سب سے پہلے دریائے سندھ پر ڈیم، بیراج، ویرز اور نہریں بنائی تھیں تاکہ آبپاشی ممکن ہو سکے۔ انہوں نے دریا کے اس سدھانے کو برطانوی سلطنت کا پیٹ بھرنے کے لئے “سراسر نوآبادیاتی” سوچ کا نتیجہ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ “ہمیں ایک نیا بیانیہ تیار کرنے کی ضرورت ہے جہاں ہم دریا، اس کے سیلابی میدانوں اور پاکستان کے پانی کے سلسلے میں اس کے کردار پر فخر کریں۔

دی لیونگ انڈس پراسپیکٹس فطرت پر مبنی سیلاب کے حل کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے جیسے کہ ویٹ لینڈ کی بحالی، ساتھ ہی اس بات کا ذکرکرتا ہے کہ “ریور بینک فلٹریشن، زیر زمین ڈیم، ریچارج ایریا پروٹیکشن اور انکلوژرز” ڈیموں کے مقابلے میں “زیادہ پائیدار اور پانی کا کم لاگتی ذخیرہ” پیش کرتے ہیں۔ درج کردہ دیگر فوائد میں پانی کی حفاظت اور زرعی پیداوار میں اضافہ شامل ہے۔

عباس نے زور دیا کہ دریائے سندھ کی تنزلی کی اصل وجوہات طاس کے پار تعمیر کیے گئے میگا اسٹرکچر ہیں تاکہ پانی کو ذخیرہ اور اسکا بہاؤ موڑا جائے۔ تاہم، انہوں نے کہا، “لیونگ انڈس دستاویز میں اس کا کوئی واضح ذکر نہیں ہے، یا یہاں تک کہ پرانے میگا اسٹرکچر کو زیادہ پائیدار اور عصری حل کے ساتھ تبدیل کرنے کے لئے جامع حکمت عملی بھی نہیں ہے۔”

اگرچہ رپورٹ میں دریا کی خراب صحت کی علامات کو بیان کیا گیا ہے، عباس نے کہا کہ ڈیموں پر بحث نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ “جو کچھ بھی تجویز کیا گیا ہے وہ اپنے آپ کو برقرار رکھنے کے لئے جدوجہد کرے گا۔”

کمال کی رائے میں ڈیموں، بیراجوں اور نہروں کو ختم کرنا کوئی سنجیدہ آپشن نہیں ہے۔ “ اسکو عملی نظر سے دیکھتے ہیں، آگے بڑھیں اور جو کچھ ہمارے پاس ہے اسے بہتر بنائیں، اور اس کا انتظام کریں،” انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب کچھ مشکل انتخاب کرنا ہو سکتا ہے۔

“یقینی طور پر، ہمیں دریاۓ سندھ پر مزید انفراسٹرکچر نہ بنانے کا فیصلہ کرنا چاہیے،” کمال نے کہا، تاکہ “پانی کے نقصانات کو کم کیا جائے” اور “ہائیڈرو انجینئرنگ کے حوالے سے، سیاست دانوں پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنے سیاسی موقف کو تبدیل کریں تاکہ ڈیلٹا کو بحال کیا جا سکے۔”

لیونگ انڈس کو اب فنڈنگ اور سرحد پار تعاون کی ضرورت ہے
رحمان نے کہا کہ کم وسائل اور قرضوں میں جکڑے پاکستان نے “اپنے پاس موجود تمام فنڈز کو سیلاب سے نجات کی طرف موڑ دیا ہے۔”

انہوں نے کہا، “اب لیونگ انڈس جیسے منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنا مشکل ہو جائے گا جیسا کہ تمام فنڈز بحالی کے منصوبوں پر لگیں گے۔” “ہم ان میں سے کچھ کو مزاحمتی اور مطابقتی ڈیزائن کے خطوط پر لانے کی کوشش کریں گے جو لیونگ انڈس مینو میں بنایا گیا ہے۔”

رحمان نے کہا کہ موجودہ حکومت کا مقصد 11-17 بلین امریکی ڈالر کے لئے “کثیر فریقین جن کے پاس طویل مدتی منصوبوں کے لیے فنڈز ہیں” کو راغب کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “جب ہم تعمیر نو کے لئے کام کرنا شروع کرتے ہیں، تو ہم ان کی توجہ کو موافقت کی طرف موڑ سکتے ہیں۔”

عباس نے نشاندہی کی کہ ”اقتصادی انجنوں کی تخلیق کے بغیر ادھر ادھر سے فنڈز مانگنا ہمیں زیادہ دور نہیں لے جاسکے گا۔”

تاہم، فنڈنگ کا مسئلہ اسلم کے حوصلے پست کرنے میں ناکام رہا۔ “ان میں سے کچھ منصوبوں کے لئے فنڈز دستیاب ہیں،” انہوں نے کہا، لیکن اسے “بڑھانے” کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ باقی کو “مقامی اور عالمی مالیاتی آپشنز” کے ذریعے پیدا کرنا ہوگا۔

اس پر عالم نے اس اقدام کے پہلو کی تعریف کی جس کا مقصد عالمی موسمیاتی فنانس تک رسائی کےلئے پاکستان کی صلاحیت کو بہتر بنانا ہے۔ “کچھ ممالک نے ان فنڈز تک رسائی حاصل کرنے میں نسبتا کامیابی حاصل کی ہے۔ بدقسمتی سے، پاکستان کے پاس ایسے لوگ نہیں ہیں جو اس جانکاری کی تربیت رکھتے ہوں کہ اقوام متحدہ کے ریڈ ٹیپ کو کس طرح نیویگیٹ کرنا ہے یا اس قابل ہو کہ اس منصوبے کی کوئی قائل دلیل دے سکیں اور یہ کیوں منفرد ہے، یہ بتا سکیں۔”

یہاں تک کہ اگر ان منصوبوں کے لئے فنڈز حاصل کر لئے جاتے ہیں، تب بھی پاکستان کے پڑوسیوں خصوصاً بھارت کے تعاون کے بغیر دریائے سندھ کو ایک نئی زندگی دینا مشکل ہو گا۔ “یہ رپورٹ میں بیان کردہ نفاذ کے منظر نامے کا بہت بڑا حصہ ہے،” اسلم نے جواب دیا، اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق ڈھالنے اور سندھ کی ماحولیات کو بحال کرنے کے لئے علاقائی تعاون اور ڈیٹا شیئرنگ کی ضرورت ہے۔

حد سے زیادہ وفاقی رسائی ‘لیونگ انڈس انیشی ایٹو کو خطرے میں ڈال سکتی ہے
لیونگ انڈس انیشی ایٹو کے عملی نفاذ کے بارے میں، عالم نے کہا: “میں سب نیشنل گورننس کے بارے میں تھوڑی زیادہ وضاحت چاہوں گا۔”

دستاویز میں سفارش کی گئی ہے کہ ایک انڈس کونسل قائم کی جائے، لیکن عالم نے کہا کہ ایسا ہوتا نہیں دیکھ رہے کیونکہ “18ویں آئینی ترمیم میں صوبائی گورننس کے واضح مینڈیٹ کے اندر بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں بات کی جا رہی ہے”۔ 2010 میں منظور کی گئی 18 ویں ترمیم نے پاکستان کے صوبوں کو قانون سازی اور مالی خودمختاری دی۔

پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لئے، عالم نے کہا کہ وفاقی، صوبائی اور یہاں تک کہ میونسپل اتھارٹیز کے درمیان کچھ “کنیکٹنگ ٹشوز” کی ضرورت ہے جو کہ غائب ہیں۔ “یہ منصوبے اچھے لگ رہے ہیں، لیکن جب تک کوئی رابطہ کاری کا طریقہ کار نہیں ہوتا، مجھے خدشہ ہے کہ حد سے وفاقی تجاوز اور صوبائی اتھارٹی کو پامال کیا جائے گا۔ اس سے ایسے منصوبوں کے موثر نفاذ کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔”

عالم نے لیونگ انڈس انیشی ایٹو کو “بلند نظر” اور “تھوڑا سا احمقانہ” اور دیگر جگہوں پر تفصیلات میں مبہم قرار دیا۔ لیکن، انہوں نے تسلیم کیا، مجموعی طور پر، وہ خوشگوار حیرت میں مبتلا تھے کہ یہ حکومت کی طرف سے “ماحولیاتی سوچ میں ارتقاء” کو ظاہر کرتا ہے۔

(زوفین ابراہیم کی یہ تحریر دی تھرڈ پول پر شایع ہوچکی ہے جسے پڑھنے کے لیے اس لنک کو کلک کریں)

شاید آپ یہ بھی پسند کریں