The news is by your side.

معیشت کو درپیش چیلنجز اور پاکستان کی ‘لک افریقہ’ پالیسی

پاکستان اس وقت سیاسی افراتفری کے ساتھ مہنگائی اورمعاشی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے جب کہ حقائق اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں‌ حکومت کو مزید معاشی مشکلات سے نمٹنا ہوگا۔

رواں سال کے آغاز میں ایک سروے کے بعد بتایا گیا کہ پاکستان بھر میں بے روزگاری کی شرح 6.3 فیصد تھی جو اب صنعتوں کی بندش کے سبب سات فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔ اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ پاکستان کی جی ڈی پی پانچ اعشاریہ سات فیصد سے منفی ایک فیصد ہوچکی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دور حکومت میں مجموعی ذخائر سولہ ارب ڈالر سے زائد تھے جوحکومت تبدیل ہونے کے بعد نومبر میں 7.8 ارب ڈالر رہ گئے اور بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کے لیے کافی تھے۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ متوقع ڈالرز کی آمد اور دوست ممالک سے قرض پر بھی معیشت انحصار کرے گی لیکن مالی سال جون 2023 کے اختتام تک اس میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔

پاکستان کی درآمدات میں بڑا حصہ کپاس کا ہے۔ ملک کی برآمدات میں کپاس کا حصہ پچپن فیصد ہے۔ ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں اور موسمیاتی تبدیلی کی لہر نے کپاس کی اس شرح کو بے حد متاثر کیا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کو برآمدات کے معاہدوں اور ملکی ضروریات پورا کرنے کے لیے کپاس درآمد کرنا پڑے گی۔ فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹریز کی بندش کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار سے زائد لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔

امریکی ڈالر اڑان بھر رہا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ مسلسل ناقدری کا شکار ہے۔ پاکستانی بینک ڈالر 224 کا خرید کر 225 میں فروخت کر رہا ہے لیکن کرنسی تبدیل کرانے والوں کو 245 روپے میں بھی ڈالر نہیں مل رہا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانی بینک معیشت کے پہیے کو مصنوعی طریقے سے چلا رہے ہیں۔ سابق دور حکومت میں بیرونی ترسیلاتِ زر 31 فیصد تھی جو پچیس فیصد تک کم ہو گئی اور اب ڈالر کی اونچی اڑان اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے سولہ فیصد منافع کی شرح کی وجہ سے اس میں مزید کمی ہو گی۔ اس کے علاوہ کئی اہم مالی ادائیگیاں روک دی گئی ہیں اور حکومت کو عالمی سطح پر معاہدوں کی تکمیل میں سخت مشکل پیش آرہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی سروس فراہم کرنے والوں کو 34 ملین ڈالر کی ادائیگی کی منسوخی بھی بڑا مسئلہ ہے جس کے بعد موبائل صارفین یکم دسمبر 2022 سے پاکستان میں گوگل پلے اسٹور کی سروسز کو ڈاؤن لوڈ نہیں کرسکیں گے۔ اس کے علاوہ ساڑھے سات ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر کی دو دسمبر کو ادائیگی کی جانی ہے جس کے بعد پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر چھ ارب ڈالر رہ جائیں گے اور جس کے بعد پاکستان مزید کوئی ادائیگی نہیں کر پائے گا۔

پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی جانب سے اسمبلیاں چھوڑنے کے اعلان پر عمل ہوتا ہے تو دونوں صوبوں خاص طور پر پنجاب اسمبلی کیلئے انتخابات کروانے کیلئے بھی خطیر رقم کی ضرورت پیش آئے گی اور پھر موجودہ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے میں بھی محض چار ماہ باقی ہیں۔ مالیاتی سال 2022-2023 میں کل خسارے کا تخمینہ 4598 بلین ڈالر لگایا جا رہا تھا جو چھ ہزار بلین ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اس طرح رواں سال دسمبر سے پاکستان کو آئل، توانائی، تجارت کے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بدترین معاشی حالات اور سنگین مالی بحران سے دوچار پاکستان کی حکومت نے افریقہ کو تجارتی منڈی کی حیثیت دے کر ‘لک افریقہ’ کے نام سے اس سے مالی فائدہ اٹھانے کا جو فیصلہ کیا تھا، اس کے مطابق 29 نومبر سے یکم دسمبر تک تجارتی اور ترقیاتی کانفرنس جاری ہے اور اسے موجودہ حالات میں‌ غنیمت سمجھا جارہا ہے۔

وزارت تجارت و سرمایہ کاری کے تحت جنوبی افریقہ میں جوہانسبرگ میں تیسری پاکستان، افریقہ تجارت و ترقیاتی کانفرنس اور یک ملکی نمائش کی جا رہی ہے جس کے سلسلہ میں وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر ساؤتھ افریقہ میں موجود ہیں۔ پاکستان سے تقریباََ 225 نمائش کنندگان اور کاروباری مندوبین پر مشتمل ایک وفد جو دوا سازی، ٹریکٹر و زرعی مشینری، انجینئرنگ اور کھیلوں کا سامان اور کیمیکل سمیت بیس بڑے شعبوں کی نمائندگی کرتا ہے، وہاں‌ گیا ہے۔ اس یک ملکی نمائش میں لگ بھگ ایک سو تیس کمپنیاں اپنی مصنوعات کی نمائش کر رہی ہیں۔ساؤتھ افریقی ترقیاتی تنظیم کے سول رکن ممالک کے عہدیدار اور کاروباری شخصیات بھی اس کانفرنس میں شریک ہیں۔ کانفرنس میں جنوبی افریقہ کے وزیر تجارت و صنعت سمیت دیگر حکام اور اعلیٰ‌ عہدے دار بھی شریک ہیں۔ 2017 میں اس سلسلے کو شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد دو طرفہ تعلقات کو فروغ دیتے ہوئے اور تجارت کے میدان میں رجحان میں بہتری لانا ہے۔ گزشتہ مالی سال کو دیکھیں‌ تو پاک افریقہ تجارت کا حجم 2074.72 ملین ڈالر تھا۔ براعظم افریقہ میں کل بتیس ممالک انجمن افریقی اتحاد نامی تنظیم کے ذریعے رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بتیس ممالک کی طرف سے فقط 860 ملین ڈالر کی درآمدات تجارت کے نام پر محض غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ جبکہ موریطانیہ میں سمندری طوفان جیسی آفت اور اس کے علاوہ بھی پاکستان وقتاََ فوقتاََ افریقی ممالک میں صحت و ترقی کے مختلف شعبوں میں امداد اور معاونت کرتا رہتا ہے، سوال یہ ہے کہ یہ تجارتی معاہدہ مزید معاشی ابتری کی صورت میں کس طرح کام کر سکے گا؟

ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے جس خدشے کا اظہار اس حکومت کے بعد سے کیا جارہا تھا، اس کا خطرہ بڑھتا نظر آتا ہے اور وفاقی حکومت ڈیفالٹ سے ملک کو بچانے کیلئے کوششیں کررہی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم مختلف دوست ممالک کے دورے کر رہے ہیں۔ سیلاب سے ملک کے زرعی و پیداواری نقصان سے متعلق انہوں نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں آواز اٹھائی ہے۔ بہت سے ممالک کی طرف سے پاکستان کو بحالی کے لیے امداد بھی بھیجی گئی ہے۔ لیکن اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے یہ ابھی واضح نہیں‌ ہے۔

عمران خان اور موجودہ حکومتی اتحاد دونوں ملکی معیشت کے عدم استحکام اور مالی بحران کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرا رہے ہیں جب کہ اس بار بھی عوام ٹیکسوں کے بوجھ اور مہنگائی کی چکی میں صرف اس لیے پس رہے ہیں کہ ان کا وطن قائم اور بحیثیت قوم ان کی آزادی برقرار رہے۔ لیکن کیا حکمران اور تمام اسٹیک ہولڈر بھی اس حوالے سے سنجیدہ ہیں؟

شاید آپ یہ بھی پسند کریں