صوبائی حلقہ 127 ضلع جھنگ کے دیہی علاقے پر مشتمل ہے یہاں سے حالیہ انتخابات میں مہر محمد اسلم خان بھروانہ منتخب ہوئے ہیں جو پہلے بھی 1988-90 ، 1990-93 اور 1997-99 رکن صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں جبکہ ایک مرتبہ صوبائی مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے بھی صوبے کی خدمت کا کردار ادا کر چکے ہیں ۔ مہر محمد اسلم ایک لینڈ لارڈ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس کے علاوہ مختلف انڈسٹریز اور ٹرانسپورٹ کا کاروبار بھی رکھتے ہیں ۔ اگر اس حلقے کی تاریخ دیکھی جائے تو آج تک یہاں پر کوئی بھی عام آدمی منتخب نہیں ہو پایا اور ہمیشہ وڈیروں اور جاگیرداروں نے حکومت کی ہے ۔
اس حلقے میں لسانیت یا مذہبی تعصب تو نہیں پایا جاتا ہاں البتہ وڈیرے اور کمی ، قومیت کا تعصب اور پیر پرستی کا عنصرضرور پایا جاتا ہے ۔ اس حلقے میں نول برادری ، جٹ برادری، ارائیں برادری، بلوچ قوم ، موہل برادری اور سیال برادری کی مختلف ذیلی قومیں بڑی تعداد میں آباد ہیں ۔یہ سب برادریاں زمیندار اور اشراف طبقہ ہے لیکن سوائے سیال برادری کے یہاں کبھی کوئی حکومت نہیں کر پایا ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیال برادری کے بعد جو بڑی اور زمیندار قومیں ہیں ان میں نول ، بلوچ ، ارائیں اور جٹ برادری شامل ہے ۔
جٹ،نول اور بلوچ برادری کی پچھلی کئی نسلیں شراب اور نشہ کی وجہ سے تباہ ہوئیں ہیں ۔ انہوں نے اپنی نسلوں میں تعمیر و ترقی اور فکر و فلسفہ کو فروغ دینے کی بجائے معاشرتی برائیوں کو بڑھاوا دیا یہی وجہ ہے کہ یہ قومیں انتہائی حد تک انا پرست واقع ہوئی ہیں ۔ ان کی سالانہ آمدنی کا ستر فیصد سے زائد کورٹ کچہریوں ، تھانہ جات اور بیماریوں میں سرف ہو جاتا ہے اور باقی تیس فیصد میں نہ تو یہ اخراجات پورے کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے بارے میں سوچ سکتے ہیں ۔
ان کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ یہ لوگ اسلامی تعلیمات اور معاشرت و سماجیات کی حدود سے کہیں بہت دور زندگی گزار رہے ہیں جبکہ آرائیں فیملی سیاست اور ایسے معاملات سے خود کو دور رکھتے ہوئے خوشامدآنہ پالیسی پر عمل پیرا ہو کر صرف اپنی نسلوں کو تعلیم یافتہ بنانے اور ان کی تعمیر کیلئے سر گرم عمل ہے یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں بڑے کاروباری طبقے کے بعد اگر کسی برادری کا نوجواں طبقہ تعلیم یافتہ ہے تو وہ ارائیں برادری ہے۔لیکن دور حاضر میں کافی حد تک شعور پھیلا ہے اور تعلیم عام ہونے لگی ہے ۔
پہلے والی نسل اب حالیہ نسل کی تعلیم و تربیت اور تعمیرو ترقی پر بہت زیادہ زور دے رہی ہے ۔ اب یہاں قومی تعصب پر لڑائی جھگڑے نہیں ہوتے ۔ نشے کی لت بھی کافی حد تک کم ہو چکی ہے لیکن یہ بالکل جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے لیکن اس سے پہلے نسل کو اس بات کا شعور دینے کی اشد ضرورت ہے ۔جٹ برادری ، بلوچ اور نول برادری کو اس بار انتخابات میں منظر عام پر دیکھا گیا ہے لیکن ان میں باہمی منافقت و نفر ت کی زیادتی کی وجہ سے ان کا کوئی بھی شخص آگے نہیں آ سکا ۔ یہی وجہ ہے کہ جو چند لوگ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد کسی سرکاری عہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو اس معاشرے سے خود کو نکال لیتے ہیں ۔
مہر محمد اسلم بھروانہ جب شروع میں یہاں منتخب ہوئے تھے تو اس وقت یہ علاقہ بالکل بیاباں اور جنگل کا منظر پیش کرتا تھا لیکن انہوں نے تگ و دو کی اور یہاں بنیادی مراکز صحت اور پرائمری و مڈل سکولوں جیسی سہولیات عوام تک باہم پہنچائیں ۔ 2008-13 کے دوران ان کے بھائی سلطان سکندر بھروانہ منتخب ہوئے تو انہوں نے یہاں گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ، یونیورسٹی آ ف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز ، لاہور کالج فار وومن کیمپس ، دانش سکول ، کچہریاں وغیرہ کے پراجیکٹ منظور کروائے جن میں سے جی سی ٹی اور یو وی اے ایس کی تعمیر انجام پذیر ہوئی ۔لیکن بعد کے دورمیں جھنگ کے نواب زادے خرم خان سیال نے ان کے باقی منصوبوں کو رتی بھر بھی ترجیح نہیں دی اور یہ منصوبے وہیں رک گئے ۔
اس کے علاوہ پرائمری اور مڈل سکولز کی وجہ سے یہاں پر کافی بچے اور بچیاں دستیاب سہولت کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کا حصول وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے ناممکن ہے ۔ اگر ان کیلئے ہائر سیکنڈری سکولوں کی تعمیر ممکن ہو جائے تو اس حلقے کی شرح خواندگی ستر فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ کسانوں کے ساتھ محکمہ واپڈا جو سلوک کرتا ہے اور چند گھروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے چھوٹے طبقے پر بھار ڈالتا ہے وہ بھی یہاں کا بہت پیچیدہ مسئلہ ہے ۔
بنیادی مراکز صحت کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے کہ اس حلقے کے لوگ اتائیوں کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہیں اگر انہیں فعال کر دیا جائے اور وہاں چوبیس گھنٹے سہولت میسر رہے تو اتائیت کا خاتمہ ممکن ہے ۔ اگر یہاں آبادیوں کے لحاظ سے سرکاری ڈسپنسریاں قائم کر دی جائیں تو صحت کے مسائل پر قابو پانے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے ۔ایک بڑا روگ یہاں لوگوں کو شخصیت پرستی اور مادیت کی دیمک لگی ہوئی ہے اس کا خاتمہ اس آگہی سے ہی ممکن ہے۔ مہر اسلم بھروانہ سرکاری اداروں کے کاموں میں مداخلت کو ختم کر کے لوگوں کو اداروں کی بالادستی کا شعور دیں ۔پینے کا پانی بالکل خراب ہو چکا ہے اور ہر دوسرا شخص ہیپا ٹائٹس وائرس کا شکار ہے، واٹر فلٹر پلانٹس لگوا کر اس کا جلد از جلد مداوا کروائیں۔
حالیہ دور حکومت نے مہر محمد اسلم بھروانہ کو صوبائی وزیر برائے کو آپریٹو کا قلمدان سونپا ہے ۔ اسلم بھروانہ کا شمار نہایت سلجھے ہوئے اور دانشور سیاستدانوں میں ہوتا ہے ۔ آپ کے زیر سایہ کو آپریٹو کے تمام کام جن میں اپیکس سوسائٹی ، کریڈٹ سوسائٹی ، ہاؤ سنگ سوسائٹی ، انڈسٹریل سوسائٹی ، وومن سوسائٹی ، فارمنگ سوسائٹی اور دیگر کثیر المقاصد سوسائٹیز شامل ہیں ۔ جبکہ کو آپریٹو ڈیپارٹمنٹ کا کام ان سب سوسائٹیز میں لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا ، انہیں آگہی مہیا کرنا ، کو آپریٹو کے تحت چلنے والے پروگراموں کو پرموٹ کرنا، ممبرز کیلئے کریڈٹ کا انتظام کرنا اور مہیا کرنا، عورتوں کے حقوق اور انہیں کو آپریٹو سوسائٹی میں تحفظ و ترویج دینا، تمام کوآپریٹو اداروں کو مانیٹر کرنا ، ان کی انسپکشن کرنا اور احتساب کیلئے اقدامات کرنا ، کو آپریٹو بنکوں سے کو آپریٹو سو سائٹیز کی مد میں حاصل کئے گئے قرضہ جات کی وصول کرنا ، سوسائٹیز کی تنصیب کرنااور تنازعوں میں ثالثی کرنا وغیرہ شامل ہے ۔
مہر محمد اسلم بھروانہ کیلئے یہ ایک بڑا چیلنج ہے لیکن ان کی سیاسی پختگی اور بصیرت کے سامنے کچھ بھی نہیں ۔ لیکن ہاں وہ اپنی سیاسی ساکھ کو پہلے سے بھی کئی گنا مضبوط کرنے کیلئے اس موقع سے پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، اگر وہ کو آپریٹو بنک لون کی ریکوریاں یقینی بنانے کے جنوبی و مشرقی پنجاب کے پسماندہ اضلاع میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کا قیام عمل میں لائیں اور غریب طبقے اور صحافیوں کیلئے آسان شرائط پر گھروں کی تعمیرات کریں ۔
اس کے علاوہ خواتین کیلئے آگے بڑھنے کیلئے مختلف پروگرام شروع کریں تاکہ پسماندہ اضلاع کی خواتین بھی آگے آ کر ملک و قوم کی خدمت میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ پنجاب کے دیہی علاقہ جات اور ان کے اپنے حلقوں میں کافی سرکاری زمین ہے جہاں سے ریونیو نا ہونے کے برابر موصول ہوتا ہے وہاں سمال انڈسٹری کو فروغ دے کر اور ڈیری اور پولٹری فارمز کی تعمیر کر کے کافی حد تک زرمبادلہ میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اس کے ساتھ ہی روزگار کے مواقع بھی بہت زیادہ حاصل ہوں گے۔بلا سود خواندہ طبقہ کو قرضے فراہم کر کے ان کیلئے روزگار کا مواقع پیدا کر کے ان کی قابلیت کو زیر استعمال لانے کیلئے انہیں سب سے بڑھ کر کردار ادا کریں تو انہیں مستقبل میں سیاسی طور پر بہت فائدہ ہو گا اور ان نیک کاموں کی وجہ سے اللہ کے حضور بھی سر خرو ہوں گے ۔