پاکستان میں ای کامرس کے شعبے میں ترقی اور کاروباری وسعت پذیری کی وجہ سے زیرِ گردش نوٹوں کے حجم میں تیزی آرہی ہے۔ ملک میں ای کامرس اور آن لائن تجارتی سرگرمیوں میں کورونا کی وبا کے دنوں میں اضافہ ہوا تھا جب لاک ڈاؤن کے سبب تمام چھوٹے بڑے تجارتی مراکز اور مارکیٹیں بند تھیں جس میں ویب سائٹس اور ای کامرس کے پلیٹ فارم خرید و فروخت کا متبادل ثابت ہوئے۔
اس وقت ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ای کامرس کا حجم 7.7 ارب ڈالر سے بڑھ چکا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی آبادی کے 64 فیصد نوجوان طبقے کا آن لائن کاروباری سرگرمیوں میں دل چسپی لینا اور برقی تجارت کو اپنانا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس کی شرحِ نمو حالیہ مالی سال میں 6.4 فیصد ہے جس کے 2025 تک مزید بڑھنے کے امکانات ہیں۔ پاکستان ای کامرس دنیا کی 37 ویں بڑی مارکیٹ ہے جس کا 2021 میں حجم 6.4 ارب ڈالر رہا اور 2025 تک یہ 9.1 ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے۔
ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور ای کامرس کے شعبے کو مستحکم ہوتا دیکھ کر جہاں بعض ممالک کے ماہرین اسے دنیا کی معیشت کے لیے خوش آئند قرار دے رہے ہیں، وہیں کئی ماہرینِ معیشت نے اسے افراط زر اور مہنگائی کی بڑی وجہ بھی قرار دیا ہے۔ پاکستان میں پچھلے دو ادوار حکومت میں آن لائن بینکنگ اور ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کے بڑھنے اور ادائیگیوں کے لیے اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے نئے کرنسی نوٹ چھاپے اور ان کے اجرا میں بتدریج اضافہ کیا۔
پاکستان میں اس وقت سات اعشاریہ چھے چار کھرب روپے کے نوٹ گردش میں ہیں۔ پچھلے تین ادوار حکومت کا اگر سرسری جائزہ لیں تو 2016 تک پاکستان میں زیرگردش نوٹوں کا جی ڈی پی کے ساتھ تناسب دس فیصد تھا جو 2022 میں 18 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جی ڈی پی کے مقابلے موجودہ مالیاتی نظام میں بڑھتی ہوئی کرنسی گردش کر رہی ہے جب کہ پاکستان ڈیجیٹل کرنسی کے ہکسٹر ازم کے علاوہ ملک کے سرمایہ دار طبقات اور کاروباری اشرافیہ کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے والے ہتھکنڈوں کی وجہ سے معاشی عدم استحکام کا شکار ہورہا ہے۔ افراط زر اور مہنگائی کی روک تھام کیلئے ان ایسے عناصر کو لگام ڈالنا اور سخت مالیاتی قوانین اور جامع پالیسیوں کے تحت مربوط نظام تشکیل دینا ازحد ضروری ہے۔ لیکن بظاہر پلوٹو کریسی (امیر شاہی) کے بَل پر قائم ہونے والی حکومتیں اور سیاسی اشرافیہ کبھی ایسے لوگوں کی پکڑ کے لیے پالیسیاں مرتب نہیں کرے گی، کیونکہ وہی ان کو اقتدار میں لانے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال پاکستان نے مالیاتی حد کے ساتھ کچھ پرائز بانڈز ختم کرکے ان کو جمع کرانے کی آخری تاریخ مقرر کی تھی مگر کہا جاتا ہے کہ اس میں سے معینہ مدت گزر جانے پر بھی چالیس ارب روپے کے پرائز بانڈز واپس نہیں ہوئے۔ شاید یہ وہی پلوٹو کریٹس ہیں جو اپنی ان سیاسی حکومتوں سے ایسی پالیسیاں بنانے کی امید کرتے ہیں جس میں وہ اپنا کالا دھن آسانی سے سفید کرسکیں۔
ایک اہم مسئلہ ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی ہے جس کے سبب پاکستان غیرملکی سرمایہ داروں کی نظر میں اپنا وقار اور اعتماد کھو رہا ہے جسے بحال کیے بغیر ملک میں معاشی ترقی اور استحکام ممکن نہیں ہو گا۔