الیکشن کمیشن نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے مکمل نتائج کا بالآخر اعلان کر دیا۔
طویل انتظار کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ غیر حتمی نتائج کے مطابق 235 یونین کونسلز میں سے 93 نشستوں پر پاکستان پیپلز پارٹی نے فتح حاصل کی جب کہ جماعتِ اسلامی 86 نشستوں کے ساتھ دوسرے اور پاکستان تحریک انصاف 40 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، مذکورہ سیاسی جماعتوں کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام، تحریکِ لبیک پاکستان، اور مہاجر قومی موومنٹ نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ تو لیا مگر کوئی بھی جماعت قابلِ ذکر کام یابی حاصل نہ کرسکی۔
انتخابی نتائج اور مبینہ دھاندلی کے الزامات!
پاکستان میں انتخابات کے بعد دھاندلی کا شور نہ ہو، یہ تصور ہی محال ہے۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو دھاندلی زدہ نتائج، سلیکٹڈ حکومت، اور سیاسی انجینئرنگ جیسی اصطلاحات کو محض اختراع قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان کی سیاسی اور انتخابی تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد کا خواب آنکھوں میں سجانا گویا اب قومی حسرتوں کی فہرست میں ایک اضافے کے مترادف ہے۔ حسبِ سابق ایک بار پھر کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کا شور ہے۔ فاتح سیاسی جماعت پیپلز پارٹی ان انتخابات کو صاف اور شفاف قرار دے رہی ہے تو دوسری طرف جماعتِ اسلامی اور پاکستان تحریکِ انصاف جیسی بڑی سیاسی جماعتیں نہ صرف انتخابی نتائج میں تبدیلی کے الزامات عائد کر رہی ہیں بلکہ مبینہ دھاندلی اور الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ کے خلاف سڑکوں پر احتجاج بھی کررہی ہیں۔ آج جماعتِ اسلامی کی طرف سے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور الیکشن کمیشن کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا گیا۔
جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس 94 یونین کونسلز کے مکمل نتائج، پریزائڈنگ افسر کی طرف سے جاری کیے گئے فارم 11 کی صورت میں موجود ہیں۔ ان نتائج کی روشنی میں جماعتِ اسلامی 94 یونین کونسلز میں کام یاب ہو چکی ہے جب کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ نتائج میں جماعت اسلامی 86 نشستوں پر کام یاب ہوئی ہے۔ حافظ نعیم الرحمان کے مطابق 8 نشستوں پر جماعتِ اسلامی کی فتح کو شکست میں تبدیل کرکے ان یونین کونسلز میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کو کام یاب قرار دے دیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض یونین کونسلز کے انتخابی نتائج میں ابہام اور تنازع پایا جاتا ہے جس کی بناء پر وہاں دوبارہ گنتی کی درخواست جمع کرا دی گئی ہے۔ انتخابی نتائج میں مبینہ رد و بدل کے خلاف جماعتِ اسلامی کی سیاسی اور قانونی حکمتِ عملی کیا ہوگی، اور مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہوگا یہ امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس کے بعد سامنے آئے گا۔
الیکشن کمیشن نے انتخابی نتائج پر اٹھنے والے جملہ اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے مبینہ دھاندلی کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ صوبائی الیکشن کمشنر انور چوہان نے انتخابی نتائج میں تاخیر کا جواز اور وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کی تیاری اور انہیں مرتب کرنے میں کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں چیئرمین سے لے کر وارڈ کی سطح تک متعدد نشستوں پر بیک وقت مقابلہ ہوتا ہے جس کی بناء پر عام انتخابات کی طرح آر ٹی ایس نظام نافذ العمل نہیں ہوتا بلکہ ایکسل شیٹ پر نتائج مرتب کیے جاتے ہیں جس میں کافی وقت صرف ہوجاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس وضاحتی موقف کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی چند سوالات ضرور پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ انتخابی نتائج میں تاخیر اندرونِ سندھ کے ان شہروں اور دیہات میں کیوں نہ ہوئی جہاں حکمران جماعت نے سیاسی مخالفین کا یکسر صفایا کر دیا؟ اور پھر شہر کراچی میں بھی یہ تاخیر ملیر، کیماڑی، گڈاپ، اور لیاری ٹاؤن کے انتخابی نتائج میں کیوں نہ ہوئی جہاں پیپلز پارٹی اپنی واضح سبقت قائم رکھے ہوئے تھی؟ کیا محض اتفاق ہی ہے کہ انتخابی نتائج میں تاخیر ضلع وسطی اور ضلع شرقی جیسے گنجان آباد علاقوں میں ہوئی جہاں جماعتِ اسلامی کے سبقت لے جانے کے امکانات زیادہ تھے؟ اور اگر ٹرن آ ؤٹ 25 فیصد سے بھی کم رہا تو نتائج کے اعلان میں اس قدر تاخیر پر سوال تو اٹھتے ہیں کیوں کہ چوبیس گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی مکمل نتائج کا اعلان ممکن نہ ہوسکا۔ یہ ان قصبوں، دیہات، اور علاقوں میں کیوں نہ ہوئی جہاں حکمران جماعت کی فتح کا اعلان اور جشن کا سامان انتخاب کی رات ہی کر دیا گیا تھا؟ ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن کا موقف سو فیصد درست ہو مگر نتائج کے اجرا میں حد درجہ تاخیر بھی انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان ہے۔ بالخصوص اس وقت تو یہ انتخابی نتائج اور بھی مشکوک ہو جاتے ہیں جب بیلٹ پیپرز پر لگتے ٹھپوں کی ویڈیوز ہر طرف گردش میں ہوں۔ ایسی صورتحال میں الیکشن کمیشن کو روایتی وضاحتوں سے بڑھ کر جملہ سیاسی جماعتوں کی جائز شکایتوں کے ازالے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے، بصورت دیگر ایسے متنازع انتخابات کی وجہ سے عوام میں اس آئینی ادارے کی حیثیت “سلیکشن کمیشن” سے زیادہ نہ ہو گی۔
کراچی کی میئرشپ کا تاج کس کے سر پر سجے گا؟
پاکستان پیپلز پارٹی جشنِ فتح منانے میں مصروف ہے مگر اس بار جماعت کی شادمانی کا سبب وہ کامرانی ہرگز نہیں جو روایتی طور پر دیہی سندھ کے اضلاع میں ہمیشہ سے اس کا مقدر رہی ہے بلکہ یہ سرشاری اور فاتحانہ رقص شہری سندھ میں کام یابی کے طفیل ہے۔ نہ صرف حیدرآباد میں میئر اب جیالا منتخب ہوگا بلکہ کراچی میں بھی پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت بن کر ابھری ہے، سیاسی پنڈتوں نے بھی پیپلز پارٹی کی کراچی میں کام یابی پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ اس حیرانی کا سبب کراچی کے غیر متوقع انتخابی نتائج ہیں جہاں پیپلز پارٹی نے بیک وقت شہر کی دو مقبول ترین سیاسی جماعتوں کو شکست سے دوچار کیا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کے انتخاب میں کوئی بھی سیاسی جماعت سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کام یاب نہ ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی جماعت سیاسی اتحاد کے بغیر تنہا اپنا میئر نہیں منتخب کروا سکتی۔ سندھ کے صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی میئر کے انتخاب میں حمایت کے لیے جماعتِ اسلامی سے تو گفت وشنید کرسکتی ہے مگر تحریکِ انصاف سے حمایت کی درخواست کریں گے، نہ ہی کسی قسم کی بات چیت۔ اس صورت میں جماعتِ اسلامی میئر شپ کی دوڑ میں بظاہر آگے دکھائی دیتی ہے، کیوں کہ اس کے دروازے تحریکِ انصاف کے لیے بھی یکساں طور پر کھلے ہیں۔ دونوں جماعتوں کا سیاسی اتحاد شہر قائد کی مقامی حکومت کا تاج حافظ نعیم الرّحمان کے سر سجا سکتا ہے مگر اس امکان کے وجود میں آنے کا حتمی فیصلہ تو بلدیہ عظمیٰ کا ایوان ہی کرے گا۔
کیا انتخابی نتائج کی گرد میں عمران خان کی مقبولیت گم ہو چکی ہے؟
بلدیاتی انتخابات میں تحریکِ انصاف کی شکست سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی عدم مقبولیت پر استدلال کرنا منطقی طور پر درست معلوم نہیں ہوتا۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین آج بھی ان کی ملک گیر مقبولیت کے معترف ہیں۔ حال ہی میں متعدد ٹی وی چینلز اور نجی اداروں کی طرف سے کیے گئے سروے بھی سربراہ تحریک انصاف کی مقبولیت پر شاہد ہیں، لہٰذا قرینِ قیاس بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ شہر قائد میں عوام کے چناؤ کے رجحان میں تبدیلی کو دیگر زمینی حقائق کی روشنی میں سمجھا جائے۔ پہلی بات یہ بلدیاتی انتخابات تھے جس میں ایک ووٹر کی ترجیحات اور تقاضے عام انتخابات کی نسبت یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلی میں کراچی سے جماعتِ اسلامی کی نمائندگی نہ ہونے کے مترادف ہے مگر اس کے باوجود کراچی کے مقامی مسائل پر جماعتِ اسلامی ہمیشہ سے ہی شہر کی ایک توانا آواز سمجھی جاتی ہے۔ اور جس لگن اور توانائی کے ساتھ حافظ نعیم الرحمان نے “کراچی کو حق دو” تحریک چلائی گویا شہر کے باسیوں کو مسیحا مل گیا ہو، لوگوں کو یہ یقین ہو چلا کہ اب جماعتِ اسلامی ہی ان کے مقامی مسائل کو حل کرسکتی ہے، چنانچہ انہوں نے بلدیاتی انتخابات میں ووٹ کے ذریعہ ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا مگر دوسری طرف تین ماہ قبل ہی کراچی میں عامر لیاقت مرحوم کی وفات سے خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست پر جب ضمنی انتخاب ہوا تو جماعتِ اسلامی اور ایم کیو ایم سمیت دیگر تمام جماعتیں مل کر بھی تحریک انصاف کا مقابلہ تو درکنار، اس کے نصف برابر ووٹ بھی نہ لے سکیں۔ بلدیاتی اور عام انتخابات میں ووٹرز کے سیاسی رجحان میں تبدیلی در حقیقت ترجیحات اور تقاضوں کے فرق کی بنیاد پر ہی ہے اور یہ کوئی فلسفیانہ نکتہ نہیں جس کا ادراک فقط اہلِ خرد ہی کرسکیں لہٰذا کسی بھی سیاسی رہنما کی مقبولیت کا فیصلہ کرنے سے قبل مقبولیت کے سیاسی معیارات اور سماجی حرکیات کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔
اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ عمران خان کی ملک گیر مقبولیت کے باوجود پی ٹی آئی کو کراچی میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تحریکِ انصاف اس سیاسی دنگل میں مقابلہ سے ہی باہر تھی۔ انتخابی نتائج کے آغاز سے ہی مقابلہ جماعتِ اسلامی اور پیپلز پارٹی کے درمیان نظر آرہا تھا۔ کراچی کے انتخابی نتائج کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریکِ انصاف کے ووٹر نے اس بار اپنے حقِ رائے دہی کا وزن جماعتِ اسلامی کے پلڑے میں ڈالا ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نے بھی ضلع جنوبی، ضلع ملیر، ضلع کیماڑی میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو شکست دی مگر پی ٹی آئی کی حقیقی ہار ضلع وسطی، ضلع شرقی، اور ضلع کورنگی میں ہوئی جہاں جماعتِ اسلامی نے میدان مار لیا۔ ایم کیو ایم کے انتخابی بائیکاٹ کا فائدہ بھی مجموعی طور پر جماعتِ اسلامی کو ہی ہوا۔ 2018 کے عام انتخابات میں کراچی کی جس مڈل کلاس نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا اسی نے بلدیاتی انتخاب میں حافظ نعیم الرحمان کی آواز پر لبیک کہا۔ نارتھ ناظم آباد ٹاؤن، لیاقت آباد ٹاؤن، گلبرگ ٹاؤن، جمشید ٹاؤن، گلشن اقبال، گلستان جوہر، اور کورنگی میں عوام کی اکثریت نے جماعتِ اسلامی کو ووٹ ڈالا، دوسری طرف پاکستان تحریک ِ انصاف سندھ کے رہنما علی زیدی نے پریس کانفرنس میں کراچی کے انتخابی نتائج کو مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ پی ٹی آئی سندھ کی قیادت کو روایتی بیانات اور دھاندلی کے الزامات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کراچی میں شکست کے حقیقی اسباب اور محرکات پر غور کرنا ہوگا تاکہ اسی سال متوقع عام انتخابات میں بھی شکست ان کا مقدر نہ بنے۔ بصورت دیگر ان کے قائد عمران خان کا دو تہائی اکثریت کے حصول کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا۔