The news is by your side.

پاکستان کا نظامِ تعلیم اور نوجوان

بس اڈے پر کھڑی دو انجان عورتیں اپنے اپنے بچوں کا ذکر کر رہی تھیں. ایک عورت امیر دوسری تھوڑے درمیانے طبقے سے تھی. امیر عورت کہہ رہی تھی میرا بیٹا لاہور میں پرائیویٹ یونیورسٹی میں پڑھتا ہے جب کہ دوسری عورت کہتی ہے میرا بیٹا ڈگری کالج میں پڑھتا ہے. میں سوچنے لگی کہ دونوں میں کتنا فرق ہو گا!

کسی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک کی خوشحالی میں سب سے زیادہ حصہ اس ملک کےباشعور عوام اور پڑھے لکھے طبقے کا ہوتا ہے.جس طرح تعلیم یافتہ طبقہ اپنے ملک کی خوش حالی اور ترقی میں نمایاں‌کردار ادا کرتا ہے. اسی طرح معیاری تعلیمی ادارے ملک و قوم کے تاب ناک مستقبل کی علامت ہوتے ہیں. معیاری تعلیم ہر شہری کا حق ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں دہرا معیار تعلیم رائج ہے. اس دہرے معیارِ تعلیم نے معاشرے کو بھی واضح طور پر دو گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کچھ بچے سرکاری اسکولوں میں نیلے پیلے یونیفارم میں ملبوس انگریزی کی بجائے اردو میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور کچھ ٹائی لگا کر پرائیویٹ اداروں میں فرفر انگریزی بولتے ہیں. اس نظامِ تعلیم نے نوجوانوں میں احساسِ کمتری کو جنم دے کر معاشرے سے باغی کر دیا ہے.ا ن میں بڑھتا ہوا احساسِ محرومی نفرت اور حسد پیدا کرکے سنگین مسائل کو جنم دے رہا ہے ۔

اردو میڈیم اور انگلش میڈیم نے طالب علموں کو واضح طور پر دو گرہوں میں تقسیم کر دیا ہے. اردو میڈیم کے طالب علم جب تعلیم سے فارغ ہوتے ہیں تو ان کو کوئی بھی اچھی نوکری نہیں ملتی. یہ لوگ ایم اے یا بی اے کی ڈگری لے کر بھی بہتر انگریزی نہیں بول سکتے اور ان میں اعتماد کی کمی بھی ہوتی ہے جب کہ نجی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلباء ہر میدان میں ہر شعبے میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں. ملک میں تعلیمی نظام اردو اور انگریزی میڈیم میں بٹا ہوا ہے جہاں سرکاری اسکول اردو میڈیم جب کہ نجی اسکول انگریزی میڈیم تصور کیے جاتے ہیں ،اگر مدارس کے نظامِ تعلیم کو بھی شامل کریں تو یہ ایک تیسرا نظامِ تعلیم بن جاتا ہے۔

پاکستان بننے سے پہلے برطانیہ نے اس خطے میں ایک ایسا تعلیمی نظام متعارف کروایا جس میں انگریزی زبان کو کلیدی حیثیت حاصل تھی. اسی کے تحت اشرافیہ کے لیے اعلیٰ تعلیمی نظام اور عام لوگوں کے لیے ایک الگ نظام متعارف کروایا گیا. بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد یہاں یہی نظام رائج ہوا. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف تعلیمی نظام بلکہ پورا معاشرہ ہی تقسیم ہو گیااور بچوں کونہ اردو میڈیم نصیب ہوا اور نہ ہی انگریزی میڈیم یعنی حکومتی اعدادو شمار کے مطابق لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

اس دہرے تعلیمی نظام میں اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور دوسری طرف اردو میڈیم سے پڑھے لکھے نوجوان نوکری کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے نظر آتے ہیں. اس دہرے نظام تعلیم کے تحت ایک متذبذب اور الجھن کا شکار نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ ایک طرف وہ نوجوان جنہوں نے مادری زبان میں تعلیم حاصل کر کےاپنا مستقبل گویا تاریک کرلیا .دوسری طرف انگریزی میڈیم میں پڑھنے والے نوجوان مادری زبان سے دور ہوگئے.بحثیت قوم ہم اپنی نوجوان نسل کے مجرم ہیں جنہوں نے اشرافیہ اور عام آدمی کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا کردی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔

پاکستان میں ایک نظام برطانیہ کا نظام تعلیم یعنی O & A لیول، دوسرا نظام پرائیویٹ اسکولز سسٹم، تیسرا نظام گورنمنٹ اسکولز سسٹم اور چوتھا نظام تعلیم مدارس کاہے۔ گورنمنٹ اسکولز میں فیڈرل بورڈ الگ اور پانچوں صوبوں کا الگ الگ نظام تعلیم و نصاب نظر آتا ہے۔ امتحان میں کامیابی کے لیے 33 فیصد نمبروں کی روایت اب تک برقرار ہے. دنیا ہر میدان فتح کر رہی ہے ہم اب بھی بچوں کو 33فیصد پر پاس کر رہے ہیں.

ہمارے ہاں طویل مدتی منصوبوں کا فقدان ہے یا ان منصوبوں میں ہمیں بہت جلد نقص نظر آنے لگ جاتا اور ہم ان کو ترک کردیتےہیں. بہرحال اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس ملک کی اشرافیہ, حکومتیں, سیاسی جماعتیں وغیرہ قوم کومعیاری اور اچھی تعلیم سے آراستہ کرنے میں سنجیدہ نہیں. اگر وہ سنجیدہ ہوتے تو تعلیم کے شعبےکی طرف سے یوں بے نیاز نہ ہوتے اور اس حوالے سے بخل سے کام نہ لیتے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں