ملک بھر میں مہنگائی کا جن بے قابو ہوتا جارہا ہے اور مستقبل قریب میں اس طوفان کے تھمنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا یہ خبر صبح کے اخبار کی سرخی تھی جس کو پڑھتے ہوئے ابا جی نے بجلی کی بچت کی تلقین کی اور ساتھ ہی کہا فالتو جلتے بلب اور پنکھے بند کر دیے جائیں امی کہنے لگیں یہ تو روز کا کام ہے ان کا کچھ نہ کچھ مہنگا کر دیتے کہ غریب آدمی جی نہ سکے مہنگائی نے مار دیا ہے ارے بھئی سکھ کا سانس تو لینے دیں آپ کو مہنگائی کی پڑی ہے اور حکمرانوں کو کمائی کی ارے بیگم کیا کیا بتائیں آپکو بجلی مہنگی ہو گئی ہے اب تو خیر سے بجلی کے بل میں 35 روپے ٹیلیویژن ٹیکس اور 15 روپے ریڈیو ٹیکس الگ سے ہے اس کے علاوہ ایندھن کی قیمت اور وغیرہ وغیرہ سب شامل ہیں گیس الگ سے مہنگی ہے پٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل 19,19 روپے مہنگے ہوگئے ہیں گزارہ بہت مشکل ہوگیا ہے۔
ایک آدمی جس کی تنخواہ 50,000 ہے اس کا اس مہنگائی کے دور میں گزارہ بد نہیں بدترین ہو گیا ہے گھر کا کرایہ 30,000 خیر سے اب تو 20,000 سے کم کرایے پر تو گھر ملنا کسی نعمت سے کم نہیں آدمی بچوں کی اسکول فیس دے بوڑھے والدین کا علاج کروائے گھر پر راشن ڈلوائے یا برے وقت کے لیے بچت کرے آخر کیا کرے اس مہنگائی کے دور میں بچوں کے شادی بھی ایک خواب بن کر رہ گیا ہے سونے کی قیمت کا ہی کوئی اندازہ نہیں تعلیم ہے وہ مہنگائی علاج تو وہ مہنگا بنیادی ضرورت بھی مہنگائی آخر کس کو سنائیں یہ دکھی داستان۔
والد صاحب کی یہ باتیں سن کر میں نے چائے کی پیالی وہیں میز پر رکھ دی اور سوچنے لگی کہ ایک دفعہ کسی نے چاند کی طرف اشارہ کر کے بھوکے غریب آدمی سے پوچھا کہ وہ کیا ہے آسمان پر گول گول جو چمک رہا ہے تو بھوکے نے جواب دیا مجھے تو آسمان پر گول گول سی روٹی نظر آرہی ہے۔
جب تک حکمران اپنے پاؤں پر نہیں کھڑے ہو جاتے مہنگائی سے پسی عوام کو صبر سے کام لینا چاہیے انہیں صرف اپنے پیٹ کی فکر ہوتی ہے کہ اسے بھرنا ہے تو کیسے بھرنا ہے؟ اسی لیے تو وہ عرصہ اقتدار میں عوام کے مسائل سے بے فکر اور ان کے احوال سے بے نیاز رہتے ہیں روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے اور کمر توڑ مہنگائی نے عوام کا جینا محال بنا دیا ہے نرخوں میں مسلسل اضافے کی بدولت اس وقت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے آٹا, چینی , گھی, دالیں سبزیوں اور گوشت کے ساتھ ساتھ موجودہ دور میں بجلی پٹرول گیس اور ادویات وغیرہ بھی بنیادی ضروریات ہیں جن کی کم قیمتوں پر دستیابی انسانی حق ہے۔
امریکہ اور یورپ میں اشیاء خورونوش پر حکومت نے کنٹرول کر رکھا ہے اور وہاں حکومت اور سپر مارکیٹ بزنسز کا اس بات یر اتفاق ہے کہ ان چیزوں کی قیمتیں کم ہی رہنی چاہیے کیونکہ یہ ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے مگر میری اس سرزمین پاکستان میں نظام الٹا ہے یہاں یہ چیزیں سب سے پہلے مہنگی ہوتی ہیں کیونکہ غربت سب سے بڑا جرم ہے یہاں کوئی بھوک پیاس سے مر جائے تو قصور اس کا ہوتا ہے جو مر چکا ہوتا ہے۔ پیارے وطن پاکستان میں جس چیز کی ضرورت ہوتی اس کو مہنگا کر دیا جاتا ہے وہ چیز نایاب بنا دی جاتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جاسکے ذخیرہ اندوز سرگرم ہو جاتے ہیں حکومت کہتی ہے یہ سب مافیا کر رہا ہے ہم کچھ نہیں کر رہے مہنگائی حکومت کی طرف سے نہیں ہے بلکہ مافیا کی طرف سے ہے ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور حکمران ہیں کہ صرف اور صرف عوام کو لالی پاپ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب یہ ہو گا اب وہ ہو گا پہلی حکومت چور تھی اس سے پہلی حکومت بہت اچھی تھی وہ ہوتی تو یہ ہوتا یہ ہوتی تو وہ ہوتا مطلب کے جتنے منہ اتنی باتیں ملک دیوالیہ ہونے پر آگیا ہے مگر ان کے شاہی اخراجات ختم نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے پروٹوکول میں کمی آئی ہے ڈالر کی اونچی اڑان نے پاکستانی روپے کی قدر میں اس قدر کمی کر دی ہے کہ پاکستانی روپے کی کوئی اوقات نہیں رہی ہے مافیا کے خلاف جنگ حکومت کی رٹ ختم ہوگئی ہے نا تو ضلعی حکومتیں عوام کے لیے سوچ رہی ہیں اور نا ہی صوبائی حکومتیں عوام کے دکھوں کا درمان بن رہی ہیں جس کی وجہ سے عوام بے بسی کے تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔