پاکستان کے صوبہ پنجاب میں حالیہ تباہ کن سیلابوں میں شدّت جزوی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آئی، لیکن مقامی ماہرین انڈس واٹر ٹریٹی اور سیلابی میدان کے تجاوزات پر مشتمل ایک پیچیدہ تناظر بیان کرتے ہیں۔
اگست کے اواخر میں تباہ کن سیلابوں کے ہاتھوں مجبوراً نقل مکانی کرنے والے پاکستانی پنجاب کے چھوٹے سے گاؤں ہاکو والا کے رہائشی آہستہ آہستہ واپس لوٹ رہے ہیں۔ گاؤں کے رہائشی، ریٹائرڈ ایئر فورس سعید اختر 11 ستمبر کو واپس تو آگئے لیکن انکا گھر اب بھی تین فیٹ ٹھہرے ہوئے پانی سے گھرا ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں،” سیلابوں کے بعد سے یہاں مچھلیاں بکثرت ہوگئی ہیں۔ ” یہ سیلاب کا ایک چھوٹا سا مثبت نتیجہ ہے جس کی طرف وہ اشارہ کرتے ہیں۔ دو نوجوان لڑکے، ان کی پتلون گھٹنوں تک چڑھائے، ہاتھ میں جال لئے ٹخنوں تک گہرے پانی میں ہمارے سامنے سے گزرے۔
جہاں اختر رہتے ہیں، وہاں سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی باڑ دور سے نظر آتی ہے۔ یہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کی ایک اٹل نشانی ہے، بلکہ دریاؤں کی تقسیم کی بھی ہے جو انڈس بیسن بناتی ہے۔ سیلابی پانی انڈیا سے نکل کر دریائے ستلج میں بہتا ہوا یہاں تک پنہچا۔
اختر کا کہنا ہے کہ سرحد کے قریب رہنا کبھی بھی آسان نہیں رہا، اور تقریباً 70 گھروں پر مشتمل انکی چھوٹی سی کمیونٹی کے لئے بہت سی آزمائشیں رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر، ہاکو والا قصور شہر سے باہر صرف 20 منٹ کی ڈرائیو پر ہے، پھر بھی یہاں سیل فون کے سگنل نہیں آتے۔
دریا کی موجودگی اور ماضی میں غیر متوقع سیلابوں کی وجہ سے گاؤں کا احاطہ بلند پشتے یعنی بند سے کیا گیا ہے۔ اینٹوں اور مورٹار کے مکانات بند کے اوپر اور اس سے آگے تک پھیلے ہوئے ہیں، لیکن ستمبر میں یہاں عارضی خیموں کا بھی اضافہ ہوا جو سیلاب کے شکار گھرانوں کے لئے لگائے گئے۔
امدادی کارروائیاں، سیلاب کی وارننگ کے مماثل نہیں ہیں
1,400 کلومیٹر طویل ستلج دریائے سندھ کا سب سے طویل معاون دریا ہے، جو جنوب مغربی تبت میں ہمالیہ کے درمیان سے نکلتا ہے، اور پاکستان کے صوبہ پنجاب میں داخل ہونے سے پہلے، ہندوستانی ریاستوں ہماچل پردیش اور پنجاب سے گزرتا ہے۔ جولائی اور اگست میں ہونے والی شدید بارشوں کی وجہ سے انڈس بیسن کے تین مشرقی دریا ستلج، چناب اور بیاس میں سیلاب آ گیا۔ انڈس واٹرز ٹریٹی کے مطابق ان دریاؤں کا کنٹرول بھارت کو دیا گیا ہے۔
اس جولائی اور اگست میں ہندوستان میں موسلادھار بارشوں کا مختصر سلسلہ ہمالیہ کے پورے خطے میں تیز بارش کے دنوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا حصہ ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں سے منسوب ایک رجحان ہے۔ پنجاب پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق، اس سے 450 پاکستانی دیہات متاثر ہوۓ اور 17 اگست سے 10 ستمبر کے درمیان 530,000 سے زیادہ لوگوں کو بچایا اور/ یا انخلا کیا گیا۔
پاکستان کے ضلع قصور کے سرحدی شہر گنڈا سنگھ والا میں دریا انتہائی بلندی پر پہنچ گیا، جہاں پانی کا بہاؤ 278,000 کیوسک ریکارڈ کیا گیا، جو 35 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ اب بھی 1988 کے سیلاب (399,453 کیوسک) کے مقابلے میں کم ہے لیکن، اختر کے مطابق، اس بار تباہی زیادہ ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1988 کے سیلاب میں پانی تقریباً ایک ہفتے میں کم ہو گیا تھا، لیکن اس بار وہ جولائی کے اوائل سے اگست کے آخر تک برقرار رہا۔
1988 اور اب کے درمیان ایک اور فرق ابتدائی انتباہات کا قیام ہے۔ 10 جولائی کو، جب بھارت نے پاکستان کے طرف 70,000 کیوسک پانی چھوڑا، پنجاب پی ڈی ایم اے پہلے ہی سوشل میڈیا پر وارننگ پوسٹ کر رہا تھا۔ سرکاری افسران، بشمول ڈسٹرکٹ کمشنر (لیڈ ایڈمنسٹریٹو آفیسر) نے دیہاتوں کے باقاعدہ چکر لگائے، جن کا ان کے خیال میں گاؤں والوں پر اثر پڑے گا اور لوگوں سے اونچی جگہ تلاش کرنے کی اپیل کی۔
اختر کہتے ہیں، ’’وہ آتے اور ہمیں کہتے کہ اپنے گھر چھوڑ دو، لیکن ہم کہاں جائیں؟ وہ ہمیں نہیں بتاتے کہ ہمیں کہاں جانا ہے۔”
قریبی گاؤں دھوپ سری کی ایک بے زمین مزدور کوثر بی بی دی تھرڈ پول کو یہی بات بتائی،”ہم بند پر بیٹھ تو سکتے ہیں، لیکن وہاں ہم کیا کریں؟”
ان سیلابوں کے بعد بی بی نے روزگار کا موقع بھی کھو دیا ہے، کیونکہ علاقے کی زیادہ تر فصلیں بہہ گئی ہیں۔ 11 ستمبر تک، وہ پی ڈی ایم اے کے عطیہ کردہ خیمے میں اسی بند پر رہ رہی تھیں۔ وہ دن بھر اپنے بیٹے کے ساتھ موٹرسائیکل پر، ہاتھ میں شناختی کارڈ لئے، ہنگامی امدادی سامان کی تلاش میں گھومتی رہتی ہیں۔
جیسے جیسے سیلاب کا پانی کم ہوتا ہے، ویسے ہی حکومتی امداد میں بھی کمی آتی جاتی ہے۔ بی بی حیران پریشان ہیں وہ کہتی ہیں، “اب حکومت چاہتی ہے کہ وہ خیمہ بھی واپس کر دیں جو انہوں نے ہمیں رہنے کے لئے دیا تھا۔ میں کیا کروں؟ میں کہاں سے روٹی لاؤں؟”
ستلج کے سیلاب بد سے بدتر کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟
ایک تیز بہتے دریا کے بطور ستلج میں طغیانی کوئی نئی بات نہیں۔ فیڈرل فلڈ کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق، اس کا اب تک کا سب سے زیادہ پانی کا بہاؤ 598,872 کیوسک ہے، جو 1955 میں ہندوستانی سرحد کے قریب سلیمانکی بیراج پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔
وسط صدی کی اپنی بلند ترین سطح کے بعد ستلج کے بہاؤ میں نسبتاً کمی آئی۔ دریا کے تیز بہاؤ نے 1995 کے بعد سے صرف پانچ بار 70,000 کیوسک کے نچلے درجے کی سیلابی حد سے تجاوز کیا۔ حتیٰ کہ اس سال کے سیلابوں کی درجہ بندی درمیانے درجے کے سیلاب کے طور پر کی جائیگی۔
آبپاشی اور پانی کے انتظام کے مشیر عمر کریم کے مطابق، ستلج کی سطح اور بہاؤ کا مطالعہ کرنے سے پوری تصویر سامنے نہیں آسکتی۔ دریا کے سیلابی میدانوں اور یہاں تک کہ اس کے مرکزی بیڈ پر بھی تجاوزات کر دی گئی ہیں، جو اب سیلابی پانی کے قدرتی انخلاء کو روکتی ہے۔
کریم بتاتے ہیں، ’’ستلج کی آبی گزر گاہ بڑی ہے، اور جیسے جیسے دریا میں زیادہ پانی آئے گا، یہ پھیلتی جائیگی، جس سے پانی کے دباؤ اور رفتار کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ یہ طرز انسانی بستیوں کی تجاوزات کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔
کریم تسلیم کرتے ہیں کہ اگرچہ اس سال بھارت میں بارشوں کی اونچی سطح کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ستلج کے سیلابی میدان اور دریا کے کنارے پر سال بھر کی کاشت نے ان سیلابوں کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔
حسن عباس کے مطابق، مسئلہ کی ایک وجہ انڈس واٹرز ٹریٹی ہے، جس کے تحت بھارت کو ستلج کا پانی دوسرے دریاؤں کی طرف موڑنے کی اجازت ہے۔ہائیڈرولوجی اور آبی وسائل میں پی ایچ ڈی رکھنے والے عباس بتاتے ہیں، “ستلج کے پاس قدرتی طور پر اس طرح کے سیلاب کو روکنے کے لئے کافی بڑا کنارہ ہے۔” “جب آپ اوپر سے دریا کوروک دیتے ہیں، تو زیریں حصّے کے لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے کبھی دریا کو بہتا ہوا نہیں دیکھا، جیسا کہ پہلے ہوتا تھا۔
عباس کہتے ہیں کہ 1988 اور 2023 کے دونوں ستلج سیلابوں کا مورد الزام ڈیم کی تعمیر کو ٹھہرایا جا سکتا ہے: “جب دریا کے ساتھ اس قسم کی ہیرا پھیری ہوگی تو کیا آپ الزام موسمیاتی تبدیلی کو دیں گے؟ نہیں، ایسا نہیں ہے: جس لمحے ان کے ڈیم بھر جاتے ہیں، انڈس واٹر ٹریٹی کے مطابق، ڈیم آپریٹر پانی چھوڑ دیتے ہیں۔”
عباس یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیلاب کے مناسب انتظام کا فقدان ہے: “کیا لوگ جانتے ہیں کہ اگر سیلاب کی وارننگ ہو تو کہاں جانا ہے؟ سیلاب کی تفصیلی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور ان دریاؤں کے کنارے رہنے والی کمیونٹیز کو مناسب طریقے سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مستقبل کے سیلابوں کا انتظام
ستلج کا قدرتی راستہ کافی حد تک متاثر ہوا ہے، جو عباس کے بقول مستقبل کے لئے اچھا نہیں ہے۔ دریں اثنا، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، برف پگھلنے اور مون سون کی بارشیں بھی سیلاب کا امکان بڑھاتی ہیں۔ عباس کے مطابق، بہترین طریقہ یہ ہے کہ دریا کے کنارے پر موجود ویٹ لینڈز کو بحال کیا جائے، کیونکہ وہ قدرتی طور پر سیلاب کے پانی کو جذب کرتے ہیں۔
تاہم کریم کے مطابق، ستلج کے سیلاب کی شدت کو کم کرنے کا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ اس کے کنارے سے کھیتی باڑی کی تجاوزات کو ہٹایا جائے۔ وہ کہتے ہیں، “آبادی بڑھ گئی ہے اور لوگ لالچی ہو گئے ہیں”۔
ملک احمد خان تسلیم کرتے ہیں کہ فلڈ زون میں اور اس کے ساتھ ساتھ کاشتکاری پھیل رہی ہے، لیکن قصور کی صوبائی اسمبلی کے سابق رکن بھی صورتحال کی پیچیدگیوں پر زور دیتے ہیں: “یہ درست ہے کہ یہاں کاشتکاری ہوتی ہے، لیکن لوگوں کے پاس زمین بھی ہے جو کبھی کبھی دریا تک آ جاتی ہے۔” خان کہتے ہیں کہ دریا وقت کے ساتھ بدلتا ہے، بعض اوقات پہلے پانی کے اندر موجود زمین باہر آجاتی ہے، لیکن بعض اوقات اور دوسری جگہوں پر، طویل مدتی بنیادوں پر املاک زیر آب چلی جاتی ہیں۔
خان نے تھرڈ پول کو بتایا کہ حکومت اپنی رٹ کو نافذ کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وہ زمین اپنے مالکان سے حاصل کرے – یہ ایک پیچیدہ اور متنازعہ عمل ہے۔ عبدالمجید شیخ، قریبی قصبہ کھڈیاں کے تحصیلدار (لینڈ اینڈ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے افسر) نے وضاحت کی: “یہ زمین نجی ملکیت میں ہے اور صدیوں سے ہے، حکومت لوگوں کو اس زمین پر کاشت کاری یا تعمیر کرنے سے نہیں روک سکتی۔”
شیخ کہتے ہیں کہ سیلاب زدہ علاقوں میں کاشت کاری ایک عام عمل ہے، جسے سرکاری حکام تسلیم کرتے ہیں اور قبول کرتے ہیں: “جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ خطرہ ہمیشہ رہتا ہے کہ وہ زمین سیلاب میں کھو سکتے ہیں۔”
پاکستان میں 2010 کے سیلاب کے بعد، جو کہ ملک کی بدترین انسانی آفات میں سے ایک تھا، حکومت نے بڑے پیمانے پر اپنے سیلابی علاقوں کی نقشہ بندی کی اور نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلان IV بنایا۔ مؤخر الذکر اس مضمون میں زیر بحث بہت سے مسائل کی طرف اشارہ کرتا ہے، خاص طور پر سیلابی میدانوں پر بستیوں کی تجاوزات، جو 1998 اور 2014 کے درمیان دوگنی ہو گئیں۔
2016 میں، پنجاب کی حکومت نے پنجاب فلڈ پلین ریگولیشن ایکٹ منظور کیا۔ اگرچہ اس کے قوانین سیلابی علاقوں میں تعمیرات پر پابندی نہیں لگاتے، لیکن اس نے منظوری کا طریقہ کار بنایا۔ بدقسمتی سے، اس قانون کے بارے میں عمل درآمد اور علم دونوں محدود نظر آتے ہیں: دی تھرڈ پول نے ضلع کمشنر اور ایک مقامی تحصیلدار سے بات کی، اور دونوں ہی اس کے وجود سے لاعلم تھے۔
ایمل غنی کی یہ تحریر ‘دی تھرڈ پول’ پر شایع ہوچکی ہےجسے یہاں پڑھاجاسکتا ہے