شاید پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے اور یہاں کے عوام کو مہنگائی اور غربت سے نجات دلانے میں موجودہ حکومت آنے والے دنوں میں کام یاب ہوجائے یا حکومت کے وزیر مشیر کوئی ایسا منصوبہ پیش کردیں کہ عوام کو کچھ ریلیف ضرور مل جائے، مگر بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ اخلاقی پستی کا شکار بھی ہے جس کا علاج آسان نہیں ہے۔
علاج یا تدبیر تو اس وقت اختیار کی جائے گی جب ہم اخلاقی سطح پر گراوٹ کو مسئلہ یا مرض تسلیم کریں گے۔ بحیثیت قوم ہر شعبہ ہائے حیات میں انحطاط، زوال اور تنزلی کی ایک وجہ ہوسِ زر، حرص اور مفاد پرستی بھی ہے جس میں ہم اچھے بُرے کی تمیز سے محروم ہوچکے ہیں۔ ہمیں اپنی تجوریاں بھرنا ہیں اور اس کے لیے یہ سوچنا ضروری نہیں کہ غلط، ناجائز اور غیرقانونی کام کیا ہے۔ ادویہ سازی اور علاج معالجہ وہ حسّاس، اہم کام ہے جو نہایت ذمہ داری کا متقاضی ہے بلکہ ہمارا دین بتاتا ہے کہ انسانیت کی خدمت فرض ہے اور کسی ذی روح کی جان بچانا باعثِ اجر و ثواب ہے۔
کراچی کی بات کرتے ہیں جہاں ماہِ صیّام میں بھی لوٹ مار، چوری اور ڈکیتی کے واقعات مسلسل جاری ہیں اور مزاحمت کرنے پر ڈاکو شہریوں کو گولی کا نشانہ بنا کر زندگی سے محروم میں ذرا نہیں جھجک رہے۔ شہر بھر میں پولیس کے ناکے لگے ہوئے ہیں اور موبائل گشت کررہی ہیں مگر لوٹ مار کا سلسلہ نہیں رک رہا۔ دوسری طرف عوام کو اُن لٹیروں اور قاتلوں کا بھی سامنا ہے جن کی شناخت آسان نہیں ہے۔ ان کا طریقۂ واردات ڈاکوؤں سے کچھ مختلف ہے۔ یہ بے حس اور مفاد پرست دراصل اُن کارخانوں کے مالک ہیں جن میں جعلی ادویّہ تیار کی جارہی ہیں۔ کراچی میں گزشتہ دنوں ایک گھر پر چھاپہ مار کر انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے دو ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے اور مزید گرفتاریوں کے بعد ہولناک انکشافات سامنے آئیں گے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ گروہ عام امراض اور معمولی نوعیت کے طبّی مسائل میں نہیں بلکہ کینسر جیسے مہلک مرض اور دل کے مریضوں کے علاج کے لیے جعلی دوائیں بنا رہا تھا۔
کراچی کے علاقہ لائنز ایریا میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اسٹیٹ بینک سرکل کراچی اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے عملے نے مشترکہ کارروائی کی اور جعل ساز گروہ کے دو کارندوں کو گرفتار کرلیا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں جعلی اور غیر معیاری ادویات کے کاروبار کا سالانہ حجم اربوں ڈالر کے قریب ہے۔ یہ مسئلہ صرف پسماندہ اور پاکستان جیسے ممالک کا نہیں، لیکن پاکستان میں ان کے خلاف مؤثر اور ٹھوس اقدامات یا کاروائی نہ ہونے سے انسانی زندگیوں کو خطرات بڑھ رہے ہیں۔ اقتصادی ماہرین بتاتے ہیں کہ دنیا میں کئی رجسٹرڈ صنعتوں کو جعل سازوں اور نقّالوں کی وجہ سے مالی خسارہ اور ساکھ کو نقصان ہوتا ہے جن کی مصنوعات کی غیر معیاری نقل تیار کر کے ناجائز طریقے سے دولت کمائی جاتی ہے۔ پاکستان میں یہی ہوس لاکھوں انسانوں کی موت کی وجہ بنتی ہے اور صرف کراچی ہی نہیں ملک کے دیگر شہروں میں بھی جعلی اور غیر معیاری ادویہّ تیار کرنے والے سرگرمِ عمل ہیں۔
پاکستان میں معیاری ادویّہ کی تیاری اور خرید و فروخت یقینی بنانے اور جعل سازی کی روک تھام کے لیے ادارہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی یا ڈریپ موجود ہے۔ لیکن یہ ‘پیارا پاکستان’ ہے اور اس میں اکثر غیرقانونی اور ناجائز کام اس وقت تک جاری رہتے ہیں لیکن جعلی اور غیرمعیاری ادویہ کا کاروبار آج بھی کئی انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی ادارۂ صحت کے رکن ممالک میں سے چند 20 فیصد ریاستیں ہی ادویہ سازی سے متعلق کوالٹی کنٹرول کا بہترین اور مؤثر نظام رکھتی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں صورتِ حال بدتر ہے۔ یہاں کراچی جیسے شہر میں ایک چھوٹے سے گھر میں بھی یہ سفاک اور ہوسِ زر میں مبتلا لوگ دوا تیار کرکے آسانی سے مارکیٹ میں فروخت کردیتے ہیں جہاں سے یہ شہر کے دوا فروشوں تک پہنچ جاتی ہے اور مریض انھیں خرید کر استعمال کرتے ہیں۔
جعلی اور غیر معیاری ادویہ کے استعمال سے کئی مریض مزید اپنی صحت خراب کرلیتے ہیں اور اکثر انفیکشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور مرض میں شدت آجاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ سالانہ بڑی تعداد میں ملک بھر میں اموات کی ایک بڑی وجہ جعلی اور غیرمعیاری دوا کا استعمال بھی ہے۔ یہ دوائیں نزلہ زکام، الرجی، درد کش، کھانسی اور پیٹ وغیرہ کے عام امراض ہی کی نہیں ہوتیں بلکہ دورانِ حمل خواتین کے لیے ضروری وٹامنز اور دوسرے عوارض اور طبی پیچیدگیوں کے لیے بھی لاعلمی میں لوگ استعمال کرتے رہتے ہیں جس کا ظاہر ہے نقصان حاملہ اور اس کے بچّے کو ہوتا ہے۔
ہم عام درد کش دواؤں سمیت جان بچانے میں مددگار کئی دواؤں کی قلت کراچی میں دیکھ چکے ہیں اور معیاری پروڈکٹ کے مارکیٹ میں نہ ہونے کے باعث جعل ساز موقع سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مریض کو اگر اس دوران رجسٹرڈ کمپنی کی معیاری ادویات مل بھی جائیں تو یہ بلیک میں خریدنی پڑتی ہیں۔ یعنی اصل سے زائد قیمت ادا کرکے۔
عالمی ادارۂ صحت اور پاکستان میں ڈاکٹروں اور صحت و ادویہ سازی سے متعلق تنظیموں کی جانب سے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروائی جاتی رہی ہے کہ جعلی ادویات کی روک تھام یقینی بنائی جائے ورنہ اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ میں تو یہ تک کہا گیا تھا کہ جعلی ادویات کا کاروبار بہت جلد دنیا بھر میں موجود غیر قانونی منشیات کے کاروبار سے بڑھ سکتا ہے۔ عالمی انسدادِ منشیات بورڈ کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو ادویات کے متعلق موجودہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرانا چاہیے اور سوشل میڈیا کے ذریعے ادویات کے غیرقانونی کاروبار سے متعلق نئے قوانین متعارف کرانا چاہییں۔
کراچی میں حالیہ کارروائی میں ملزمان سے بڑی مقدار میں جعلی اور غیر رجسٹرڈ شدہ ادویات برآمد ہوئی ہیں۔ گھر میں جعلی ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والی مشینیں اور آلات موجود تھے۔ حکام کے مطابق گرفتار ملزمان عبدالسعود فیصل اور محمد آصف اپنے گھر سے جعلی ادویات کی مینوفیکچرنگ، پیکنگ اور سیمپل تیار کر رہے تھے جس میں 82 سے زیادہ مختلف اقسام اور کمپنیوں کی ادویات شامل ہیں۔ یہ امراض قلب، کینسر، ذیابطیس، ہائپر ٹینشن اور دیگر امراض میں استعمال کرنے کے لیے تیار کی جانے والی جعلی دوائیں تھیں جنھیں کراچی کے پوش علاقوں میں میڈیکل اسٹورز پر سپلائی کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔