The news is by your side.

کتنی لاشیں، کتنے زخمی… سچ کیا ہے؟

پاکستان میں‌ اس وقت صرف “سیاست” ہورہی ہے۔ اور یہ سب ان حالات میں ہورہا ہے جب ملک کی معیشت اور یہاں امن و امان کی صورتِ حال بھی خراب ہے، مگر سیاسی جماعتیں مل کر اس حوالے سے اہم فیصلے اور اقدامات کرنے کو تیار نہیں۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ملک کے کروڑوں عوام کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ان کی مخالف جماعت ہی دراصل ملک کی ترقی، اور عوام کی خوش حالی کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ یہ سیاسی کھیل کب تک جاری رہے گا، کچھ معلوم نہیں‌۔ لیکن یہ طے ہے کہ اس کھینچا تانی اور سیاسی جماعتوں کی لڑائی میں عوام بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

ایک جماعت کہتی ہے کہ عوام کی مشکلات کا سبب حکم رانوں کی غلط پالیسیاں اور اقدامات ہیں جب کہ دوسری جماعت اقتدار سے باہر بیٹھے ہوئے سیاست دانوں کو پرتشدد مظاہروں، احتجاج اور قانون شکنی کا مرتکب قرار دے کر عوام دشمن ثابت کرنا چاہتی ہے۔ ملک آئی ایم ایف کے قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے اور ملکی معیشت سنبھل کر نہیں دے رہی۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ کہ عوام کو مزید ٹیکس دینا ہوگا۔ امراء اور مراعات یافتہ طبقہ تو ہمیشہ کی طرح اس سے متاثر نہیں ہوگا۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے گزشتہ ہفتے اپنے قائد کی رہائی کے لیے احتجاج کی کال دی تھی جس کے بعد حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں رکاوٹیں اور ملک کے دیگر شہروں میں بھی سیکیورٹی اہل کاروں کی بھارتی نفری تعینات کردی گئی تاکہ پی ٹی آئی کے کارکنوں اور لیڈر کے متوالوں کا راستہ روکا جاسکے۔ اس کے باوجود مظاہرین اسلام آباد پہنچ گئے اور کہا جارہا ہے کہ وہاں خوب دنگل ہوا۔ اس دوران ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس تعطل کا شکار رہی اور آن لائن کاروباری سرگرمیاں خاص طور پر متاثر ہوئیں۔ اس کے ساتھ وہ لوگ جو آن لائن دفتری کام انجام دیتے ہیں یا فری لانسر کے طور پر کچھ کماتے ہیں، مالی نقصان برداشت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ احتجاج کے روز رات گئے مظاہرین کو سیکیورٹی اہل کاروں کی جانب سے شدید شیلنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور پھر ہلاکتوں کی اطلاعات سامنے آنے لگیں۔ مجھے تو یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ اگر دھرنوں، احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے ملک کے کسی بھی شہر کی سڑکیں‌ بند ہوتی ہیں تو ان مظاہرین کا راستہ روکنے اور مخالفین کو کچلنے کے لیے حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے اور پولیس کو میدان میں اتارنے سے بھی عوام کو کون سا سکھ ملتا ہے؟

خیر، اسلام آباد میں اس روز کیا کچھ ہوا، عوام کی اکثریت کو اس کی حقیقت معلوم نہیں یا وہ یہ جاننے میں ناکام ہوگئے، کیوں کہ سوشل میڈیا پر بندشیں اور پہرے تھے۔ ویسے سوشل میڈیا کے اس دور میں سچ جھوٹ، صحیح اور غلط میں تمیز کرنا بھی آسان نہیں رہا جب کہ ملکی ذرائع ابلاغ یا تو حقائق سامنے لانے سے قاصر ہے یا پھر ‘مکمل رپورٹنگ’ سے خود کو دور رکھا ہوا ہے۔ اس طرح نومبر کا آخری ہفتہ گزر تو گیا، لیکن اب بھی ملک بھر میں موضوعِ بحث صرف اور صرف وہ ہلاکتیں ہیں جو اس احتجاجی مظاہرے کے دوران ہوئیں۔ حکومت اور سیاست داں سچ اور جھوٹ، غلط بیانی اور پراپیگنڈا ثابت کرنے کے لیے دن رات بیانات دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کتنے افراد جان سے گئے اور کتنے زخمی ہیں، اس پر سوشل میڈیا میں گویا ایک طوفان آیا ہوا ہے، جب کہ تحریکِ انصاف کے مختلف راہ نماؤں کی جانب سے دو درجن سے لے کر 280 تک ہلاکتوں اور سیکڑوں کارکنوں کے زخمی ہونے کا دعویٰ بھی سنائی دیا ہے۔ حکومت کی بات کریں تو اس کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی اہل کاروں کی جانب سے گولی چلائی ہی نہیں گئی۔ یہ جھوٹے الزامات ہیں، اور پاکستان تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر پراپیگنڈہ کرتے ہوئے عوام کی ہم دردی سمیٹنا چاہتی ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کی مخالف جماعتوں کا کہنا ہے کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں تو جنازے کہاں اٹھے اور تدفین کہاں‌ کی گئی ہے؟

حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں سے کون صحیح ہے، کس کی بات درست ہے، کس نے جھوٹ اور پراپیگنڈے کا سہارا لیا ہے، کون غلط ہے…. یہ بحیثیت پاکستانی، ایک شہری اور ایک ووٹر میں یہ جاننا اور سمجھنا تو چاہتی ہوں، لیکن یہاں حقائق اور سچ تک عوام کی رسائی دشوار تر بنا دی گئی ہے۔ چلیے، مان لیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا دعویٰ‌ غلط ہے، لیکن کیا کوئی اس سچ کو جھٹلا سکتا ہے کہ ہم پاکستانی گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصہ سے اس ملک پر مسلط سیاسی خاندانوں اور اقتدار کی ہوس کے ہاتھوں مرتے آرہے ہیں؟ مجھ جیسے عام لوگ جو روزگار، تعلیم و صحت، امن، ترقی اور خوش حالی کا خواب دیکھتے ہوئے بڑے ہوگئے ہیں، یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمیں کسی نہ کسی سیاسی جماعت نے اقتدار ملنے کے بعد اس بری طرح نظرانداز کیا کہ ہم میں سے کئی جان سے چلے گئے۔ ان حکومتی ادوار میں ہم پر منہگائی کے بم گرائے گئے، غربت اور بھوک کے نشتر چلے، بدامنی اور لوٹ مار کے دوران ہم پر گولیاں چلا دی گئیں اور ہمیں قبر میں اترنا پڑا۔ علاج معالجہ کی سہولیات اور پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی، پیچیدہ اور فرسودہ نظام میں جکڑے ادارے اور عدالت سے بروقت انصاف نہ ملنے، کرپشن، اور بے روزگاری نے بھی ہم میں سے کتنے لوگوں کو خود کشی پر مجبور کیا۔ اب حکومت کا اصرار ہے کہ پی ٹی آئی کا درجنوں مظاہرین کی ہلاکت کا دعویٰ جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ہے، اور شاید ایسا ہی ہو، لیکن کیا ایک عام آدمی ان حالات میں روز موت کے منہ میں نہیں جاتا رہا۔ وہ عام آدمی جس نے کسی بھی لیڈر کے اشتعال دلانے پر املاک کو نقصان نہیں پہنچایا، جو سڑکوں پر ٹائر نہیں جلاتا رہا، جس نے قانون نہیں توڑا، پولیس سے نہیں الجھا۔ وہ عام آدمی اِس حکومت میں شامل اُن سیاست دانوں کی بات کیا سنے جو پہلے بھی اقتدار میں آکر اپنی نااہلی، اور ناقص پالیسیوں سے غریب اور متوسط طبقہ کے لوگوں کو خودکشی کرنے پر مجبور کرتے رہے ہیں۔ عام آدمی تو روز مَر رہا ہے اور میڈیا اسے رپورٹ بھی کرتا ہے۔ لیکن حکومت یا کوئی سیاسی جماعت اسے اہمیت نہیں دیتی۔ اس کا شمار نہیں کرتی، اموات کی تعداد اور وجہ جاننے میں دل چسپی نہیں لیتی، کیوں کہ منہگائی، بدامنی، لوٹ مار اور اس طرح کے حالات میں کسی کا قبر میں اتر جانا تو معمول کی بات ہے۔ یہ نہ تو قتل ہے اور نہ ہی کسی جماعت کا کوئی سیاسی لیڈر یا حکومت اس کی ذمہ دار ہے بلکہ غربت، مہنگائی، ناانصافی اور کسی ڈکیت کے ہاتھوں‌ موت کے منہ میں چلے جانا تو مقدر کی بات ہے۔ بیچاری حکومت اس میں کیا کرے!

+ posts

سدرہ ایاز صحافتی اداروں اور مارکیٹنگ کمپنیوں سے وابستہ رہی ہیں، سیروسیاحت کا شوق رکھتی ہیں، گھومنا پھرنا پسند ہے، اور اپنے انہی مشاغل اور مختلف سرگرمیوں کی انجام دہی کے ساتھ شاعری اور مختلف سماجی موضوعات پر مضامین اور بلاگ لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں