The news is by your side.

وہ عقیدہ جس نے مصریوں کو لاشیں حنوط کرنے پر آمادہ کیا!

انٹرنیٹ کی جادو نگری میں قدیم مصر،اس کے مشہور اور افسانوی شہر ،بلند بالا اور پراسرار اہرام ، خدا ئی کے دعوے دار فراعین اور دوسرے بادشاہوں کےعلاوہ حنوط شدہ لاشوں پر آپ نے کئی ویڈیوز دیکھی ہوں گی اور ان گنت مضامین پڑھے ہوں گے، مگر یہ خطّہ اور اس سے متعلق داستانیں ہر بار ہماری توجہ اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں. تاہم یہ ویڈیوزاور تحریریں غیر مستندمعلومات یا ایسے واقعات پر مبنی بھی ہوسکتی ہیں جن کی کوئی سند نہیں ملتی اور وہ محض جھوٹ کا پلندہ ہیں.

قدیم مصر اور اس کے باسیوں کی زندگی دل چسپ ہی نہیں، حیران کن اور ناقابلِ یقین معلومات سے بھرا ہوا وہ موضوع ہے جو آنے والی صدیوں میں بھی انسانوں کے لیے اہم، پُرتجسس اور حیرت انگیز رہے گا، جتناآج ہے.ممکن ہے کہ کل زیرِ زمین کئی اور معبد و مقابر اور فراعین کی حنوط شدہ لاشیں دریافت ہوجائیں. لیکن موجودہ عہد میں قابل سائنس دانوں اورماہر محققین کی حنوط شدہ لاشوں (ممیوں) سے متعلق مستند اور جامع معلومات کے ساتھ اس کا طریقہ آج بھی ہمیں حیران کردیتا ہے.

حنوط شدہ لاش یا ممی سے کیا مراد ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ موت کے چند گھنٹوں بعد اعضاء کے گلنے سڑنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے. پھروہ وقت آتا ہے جب مردہ جسم کی کھال بھی کیڑےمکوڑوں کی غذا بن جاتی ہے اور اس کی ہڈیاں ہی باقی رہ جاتی ہیں.لیکن کسی مردہ جسم کو ہزاروں سال تک اصل حالت میں برقرار بھی رکھا جاسکتا ہے .لاش کو مخصوص طریقے سے محفوظ رکھنے کو حنوط کرنا کہتے ہیں اور ایسے مردہ جسم کو بالعموم ممی (mummy) کہاجاتا ہے. قدیم مصر حنوط شدہ لاشوں (mummified body) کے لیے مشہور ہے. وہاں کسی لاش کو خشک کرنے کے بعد مخصوص مادّوں کی مدد سے محفوظ کرنے کا رواج تھا.

قدیم دور میں مصر کے لوگ لاش کو حنوط کیوں کرتے تھے؟
محققین اور سائنس داںوں نے اس دور کے شہروں، معبدوں کے آثار اوران میں سے دریافت ہونے والی ہزاروں سال پرانی اشیاء کی مدد سے یہ جانا ہے کہ مصر کے لوگوں کاایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ مرنے کے بعد جسم ایک ایسی دنیامیں پہنچ جاتا ہے جہاں انھیں اپنے جسم کی ضرورت پڑتی ہے۔ مصریوں کا خیال تھا کہ حنوط شدہ جسم میں روح دوبارہ داخل ہو جاتی ہے ۔ اگر جسم ضائع ہوگیا تو ایسا نہیں ہوسکے گا.یہی وجہ ہے کہ مردے کے لیے قبر کی تیاری کوبھی مصر میں اہمیت حاصل تھی۔ ماہرین نے حنوط شدہ لاشوں کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئےیہ بھی سمجھا کہ قدیم دور کے مصری لاش کے ساتھ ان چیزوں کا بندو بست کرتے تھے جن کی ضرورت بعد کی زندگی میں اُن کےتصور کے مطابق پڑسکتی ہے. ان اشیاء میں کپڑے اوربعض قیمتی چیزیں شامل ہیں۔

لاش کو حنوط کرنے کی تاریخ
تحقیق کے بعد یہ کہا گیاکہ ممی بنانے کا رواج مصر میں اندازاً 2600 قبل مسیح کے آس پاس شروع ہوا ا، لیکن ابتدائی طور پر صرف فرعون (مصر کے بادشاہ اور دیگر شاہی افراد )ہی کے جسم کو موت کے بعداس عمل سے گزارا جاتا تھا۔ 2000 قبل مسیح میں عام لوگ بھی موت کے بعد اپنے پیاروں کی لاشوں کو حنوط کرنے لگے.تاہم یہ خاصا مہنگا پڑتا تھا ، اس لئے عام طور پر صرف امیر لوگ ہی لاشوں کو حنوط کر سکتے تھے۔ چوتھی صدی عیسوی کے آس پاس، جب روم نے مصر پر قبضہ کرلیا اور وہاں عیسائیت کا غلبہ ہو گیاتو لاشیں حنوط کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہوتا چلاگیا۔

قدیم دور میں‌مردہ جسم کو محفوظ کرنے کے لیے کیا طریقہ اپنایا جاتاتھا؟
اس کام کے لیے ماہر آدمیوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں. یہ لوگ سب سے پہلے مرنے والے شخص کے جسم سے آلائشیں نکالتے تھے۔ پھر اس لاش کو ایک خاص طرح کا نمکیاتی مواد “خام شورہ” (natron) لگا کر چالیس روز تک خشک ہونے کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ پھر اسے دھو کر اس پر خاص قسم کا مرہم لگایا جاتا اور مردہ جسم پر مضبوطی سے پٹیاں باندھ دی جاتی تھیں۔ اس طرح ان سے جسم کی بناوٹ قائم رہتی تھی۔قدیم مصری کسی حنوط شدہ لاش کو لکڑی کے تابوت میں لٹا دیتے اور پھر اس تابوت کو پتھر کے ایک صندوق میں منتقل کردیا جاتا جسے “سارکو فیگس” (Sarcophagus) کہا جاتا تھا۔

قدیم مصریوں کے مطابق، پورے جسم میں سب سے اہم حصہ دل ہوتا تھا۔ وہ مردہ جسم کا دماغ نکال لیتے تھے. اس زمانےمیں انسانوں کو ہی نہیں جانوروں کو بھی حنوط کیاگیا. ان میں بندر، مینڈھے وغیرہ شامل ہیں جن کے سر قدیم معبدوں یا مختلف مقامات سے دریافت کیے گئے ہیں. آج کے دور کا انسان ان ممیوں یا حنوط شدہ لاشوں کو دیکھ کر حیران ہے کہ قدیم دورمیں کس طرح وہ لوگ جراحی اور کیمیائی عمل میں اس قدر ماہر ہوگئے تھےاور یہ جانتے تھے کہ ان ممیوں پر مختلف کیمیائی مادّے، محلول، مسالہ جات اور رنگ وغیر کو مٹی، کیڑے مکوڑے اور بدلتا ہواموسم بھی ہزاروں سال تک نقصان نہیں‌پہنچا سکے گا. یہ لاشیں آج بھی صحیح سلامت ہیں اور جہاں ہماری عقل کو حیران کرتی ہیں، وہیں فراعینِ مصر اور امراء کے یہ جسم انسانوں کے لیے سامانِ عبرت بھی ہیں.

(قدیم مصراور فراعین سے متعلق کتب سے استفادہ پر مبنی تحریر) 
شاید آپ یہ بھی پسند کریں